ہماری بد نصیبی کہ ہم عظیم روحوں سے نصیحت لینے کے بجائے ان کو ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی میں بانٹ لیتے ہیں۔
آج ہم جس ہندوستان میں جی رہے ہیں،وہاں ہندوؤں کے ذریعے مسلمانوں کاتہوارمنایا جانا اور مسلمانوں کے ذریعے ہندوؤں کے مہاتماؤں/بھگوانوں کی عزت کرنا بھی ایک خبرہے۔ہمارے سیاستدانوں کی کارستانیوں کے چلتے ہم آہستہ آہستہ یہ مان بیٹھے ہیں کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف سماج میں جیتے ہیں جن کا ایک دوسرے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہماری بد نصیبی ہی ہے کی یہ سوچ جس نے ملک کو تین حصوں میں بانٹ دیا آج بھی ہمارے ذہنوں میں کائی کی طرح جمی ہوئی ہے اور غلاظت پھیلا رہی ہے۔
بنگال حکومت نے کچھ دن پہلے یہ کہا تھا کہ محرم کے دن وسرجن کی رسم نہ نبھائی جائے۔ اس سے کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔اس ملک کی تہذیب کسی ایک مذہب سے نہیں بنی بلکہ یہ مختلف مذہب اور کلچر کے امتزاج کا نمونہ ہے۔
میں پہلے بھی لکھتا رہا ہوں کہ کیسے شری کرشن اور شری رام کو مسلمان بھی ہندوستانی تہذیب اور ثقافت کا لازمی حصہ مانتے آئے ہیں،اوران کا احترام کرتے ہیں۔آج میں ایک بنگالی برہمن کی مثال دینا چاہتاہوں کہ ہندوستان کے ہندو بھی اسلام کی عزت کرنے میں پیچھے نہیں ہیں اورامام حسین کو ہندو بھی سچائی کی علامت مانتے ہیں۔
سروجنی نائڈو حیدر آباد میں بنگالی برہمن فیملی میں پیدا ہوئی تھیں۔ ہم میں سے زیادہ تر ان کو آزادی کی لڑائی کے باب میں ایک اہم خاتون رہنما کے طور پر پہچانتے ہیں۔انگریزی ادب میں جن کی زیادہ دلچسپی نہیں ہےوہ شاید یہ نہیں جانتے ہوں کہ سروجنی ایک بہت اچھی شاعرہ بھی تھیں۔
محرم کے موقع پر ان کی ایک نظم ‘امام باڑا ‘ کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ امام باڑہ ان کی کتاب ‘ دی بروکن ونگس ‘(1917) میں شامل تھی۔ اس نظم سے امام حسین کے لیے ان کی محبت اور عقیدت کا ثبوت ملتا ہے۔سروجنی لکھتی ہیں ؛
یہ محرم کے دن لکھنؤ کے امام باڑے میں ہونے والے ماتم کی جگر سوز مثال ہے۔ بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ وہ کالے کپڑے میں ملبوس ماتم کرنے والوں کا موازنہ کالے سایوں سے کرتی ہیں،اور بتاتی ہیں کہ کیسے یہ کالا رنگ رنج و غم کی علامت ہے۔
ان کے مطابق ؛
یہ کالے کپڑے میں ماتم کرنے والے سائے 1400سال پہلے شہید ہوئے امام حسین اور ان کے 71جاں نثاروں کو زندہ کر دیتے ہیں۔ جہاں ایک طرف یہ غمگین ہیں وہی دوسری طرف یہ ماتم کرنے والے سنجیدہ بھی نظر آتے ہیں۔ بھلےہی یہ لوگ آج زخمی ہیں، ان کے جسم سوکھے پتوں کی طرح پھیکے ہیں اور زبان چپ ہے پر یہ بےجوڑ نظر آتے ہیں اپنے اس دکھ میں بھی۔ کیونکہ یہ جو لوگ چلے آ رہے ہیں یہ کوئی اور نہیں یہ تو وہی لائق پرستش اور مقدس شہید ہیں۔
سوچیےآج کے یہ رہنما کیا اپنے مذہب سے اوپر اٹھکر سچائی کے لئے جان دینے والے امام حسین کو لائق عبادت شہید بول پائیںگے۔ کاش یہ بول پاتے۔
وہ آگے لکھتی ہیں، کی یہ جو شام کا سناٹا ہے اس میں غور سے سنو۔ درد بھری وہ چیخ سنائی دےگی جو صدیوں سے وقت کے سینے کو دہلا رہی ہے۔ یہ چیخ جو علی، حسن اور حسین کا نام لے رہی ہے۔
اس اندھیرے مقبرے سے، اس منحوس عمارت سے یہ جو کالے سائے آتے دکھتے ہیں یہ ان شہیدوں کی قطاریں ہیں جو بہت پہلے ہمیں چھوڑکر جا چکے ہیں لیکن ان کا دکھ اورغم آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ رہےگا۔
آگے اس نظم کے اختتامیہ میں سروجنی یہ واضح کرتی ہیں کہ کیوں وہ یہ مانتی ہیں کی امام حسین کی شہادت کا غم لافانی ہے اور وقت کی بندشوں سے آزاد ہے۔
وہ لکھتی ہیں ؛
اپنی آنکھوں کو روشن کر لو اس شعلہ سے جو کہ سچائی کی علامت ہے، یہ وہ سچائی ہے جو مستحکم ہے۔ یہ سچ لافانی ہے کبھی نہیں مرتا۔ اور آنے والے وقت کی امید بھی اس روحانی رنج میں چھپی ہے جو کہ تاریخ کے کسی کونے سے چیخ چیخ کر گریہ کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے : ‘ علی! حسن! حسین! ‘۔
سروجنی کی یہ نظم ان کے یقین اور عقیدت کی مظہر ہے کہ امام حسین مسلمان تھے یا نہیں اس سے پہلے یہ حقیقت اہم ہے کہ وہ سچائی کے لئے اپنے 71جاں نثاروں کے ساتھ اپنے سے کہیں زیادہ ‘طاقتور’بادشاہ ‘یزید ‘ کی فوج کے سامنے ڈٹ گئے تھے۔ ان کی ہمت،ان کا جذبہ کہ سچ کے لئے جان کی پرواہ نہیں کی جاتی صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں پوری انسانیت کے لئے سبق ہے۔
ہائے ہماری بد نصیبی کہ ہم عظیم روحوں سے نصیحت لینے کے بجائے ان کو ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی میں بانٹ لیتے ہیں۔
(مضمون نگار شعبہ تاریخ جے این یو میں ریسرچ اسکالر ہیں)