اس مقدمہ میں ملزمین کو منظم طریقے سے مدد پہنچائی گئی جیسے تحقیقات این آئی اے کوسونپنا پھر اس کے بعد سرکاری وکیل پر ملزمین کے تعلق سے نرمی برتنے کا دباﺅ بنانا اور پھر بعد میں یہ اعتراف کرنا کہ تحقیقات میں خامیاں ہیں ۔
راقم مالیگاﺅں2008بم دھماکہ معاملے میں متاثرین کی عدالت میں نمائندگی کرنے کے علاوہ خود ان دھماکوں کے متاثرین میں سے ایک ہے کیو نکہ اس کا تعلق بھی اسی بدنصیب گنجان مسلم آبادی والے شہر مالیگاﺅںسے ہے جہاں ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دیکر ان نہتے مسلمانوں سے بدلہ لینے کی کوشش کی گئی جنہوں نے جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا تھا اور پھانسی کی پھندوں پر چڑھنے سے بھی پرہیز نہیں کیا تھا۔
آج جبکہ ان بم دھماکوں کے کلید ی ملزمین یکے بعد دیگرے ضمانت پر رہا ہورہے ہیں پوری دنیا خصوصاً انصاف پسند وں کی نگاہیں یہ جاننا چاہتی ہیں کہ آخر ایسا کیا ہورہا ہے کہ مرکز میں اقتدار تبدیل ہونے کے بعد ایک مخصوص فرقہ کے ملزمین کو مسلسل نچلی عدالتوں سے لیکر عدالت عظمیٰ تک سے راحتیں حاصل ہورہی ہے ۔
مالیگاﺅں2008 بم دھماکہ معاملے میں ملزمین کو ملنے والی ضمانتیں اور کلین چٹ کے لیے عدالتیں ذمہ دارنہیں بلکہ قومی تفتیشی ایجنسی NIA کی وہ تحقیقات ہیں، جس نے اس سے پہلے مقدمہ کی تحقیقات کرنے والی دیگر ایجنسیوں بشمول مہاراشٹر انسداد دہشت گرد دستہ ATSکی تحقیقات کو من گھڑت قراردیا اور اپنی تازہ رپورٹ (چارج شیٹ) 31 مئی 2016کو خصوصی عدالت میں داخل کرکے چند مخصوص ملزمین جس میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکربھی شامل ہے کو کلین چٹ دے دی ،جس کے بعد سے ہی اس مقدمہ کی بربادی کا سلسلہ شروع ہوا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ورنہ دہشت گردانہ معاملے میں ضمانت حاصل کرنا کسی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے ،کیونکہ یو اے پی اے کی دفعہ 43 (D) (5) کے تحت ایسے معاملات میں ملزمین کو ضمانت نہیں دیے جانے کی وکالت کی گئی ہے ۔
قومی تفتیشی ایجنسی نے اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد عدالت میں چارج شیٹ داخل کرتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا کہ اس معاملے میں انسددا دہشت گرد دستہ کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں بہت خامیاں ہیں اور اس نے ان پانچ سرکاری گواہوں کے بیانات دوبارہ درج کرائے جنہوں نے اے ٹی ایس کو بتایا تھا کہ وہ ان میٹنگوں میں موجود تھے جس میں مالیگاﺅں2008ءبم دھماکوں کی سازش رچی گئی تھی لیکن این آئی اے کو انہوں نے بتایا کہ وہ ان میٹنگوں میں موجود تھے ہی نہیں بلکہ اے ٹی ایس کے دباﺅ میں انہوں نے ملزمین کے خلاف گواہی دی تھی ۔ اب سوال یہ ہے کہ سرکاری گواہوں نے اپنے بیانات کی تصدیق مجسٹریٹ کے سامنے سی آر پی سی کی دفعہ 164 کے تحت کی تھی لہذا کیا یہ بھی مان لیا جائے کہ اے ٹی ایس کے ساتھ ساتھ مجسٹریٹ نے بھی ملزمین کے خلاف جھوٹے ثبوت اکھٹا کرنے میں تحقیقاتی دستہ کی مدد کی تھی ؟ایک دیگر سوال یہ اٹھتا ہے ان فارینسیک سائنس لیباریٹری FSL رپوٹ کا کیاجس میں انہوں نے ملزمین کے درمیان ہونے والی گفتگو جسے ملزم سوامی سدھا کردھر دویدی نے اپنے لیپ ٹاپ میں ریکارڈ کی تھی کی تصدیق کی تھی اور اسے ملزمین کی آواز سے ملا کر چیک کیا گیاتھا اور اسے مثبت پایا گیا تھا ۔
اب ہم یہ دیکھیں گے کہ کن ملزمین کو اے ٹی ایس نے گرفتار کیا تھا اور ان پر کیا الزام عائد کیا گیا تھا نیز ان کا پیشہ کیا تھا، یہاں روزگار کے بارے میں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کو پتہ چلے کہ ملزمین کن نظریات کے حامل تھے اور ان کا تعلق کن تنظیموں سے تھا ۔
- میجر رمیش اپادھیا (ریٹائرڈ آرمی آفیسر۔پونے)
- سمیر شرد کلکرنی(سوشل ورکر۔پونے)
- اجئے ایکناتھ رائے کر (صنعت کار و خازن ابھینو بھارت ۔پونے)
- راکیش دتتاترے دھاﺅڑے (ہتھیاروں کی تحقیقات کے متعلق کام ۔پونے)
- جگدیش چنتامن مہاترے(اسٹیٹ ایجنٹ۔ڈمبیولی تھانے)
- کرنل پرساد شریکانت پروہیت (لفٹنٹ کرنل انڈین آرمی۔پونے)
- سدھاکر دھر ودیابھن دویدی (شنکر اچاریہ۔جموں کشمیر)
- سدھاکر اونکارناتھ چتورویدی (فل ٹائم ابھینو بھارت ورکر۔مرزاپور، یوپی)
- مفرور رام چند گوپال سنگھ کالسانگرا (آر ایس ایس ورکر۔اندور )
- مفرور سندیپ وشواس ڈانگے(آر ایس ایس ورکر۔اندور)
- پرگیہ سنگھ چندرپال سنگھ ٹھاکر (سادھوی۔بھنڈ ایم پی)
- شیونارائن گوپال سنگھ کالسانگرا (الیکٹریشین۔ اندور)
- شیام بھاﺅ لال شاہو (موبائل شاپ۔ اندور)
- پروین وینکٹیش ٹکلکی (موبائل شاپ۔ بیلگام)
- لوکیش کرشنا شرما (پنڈت۔اندور)
- دھان شیو سنگھ (ایگریکلچریسٹ ۔اندور)
اے ٹی ایس کی تحقیقات کی نمایاں خصوصیات
اس معاملے کے تین کلیدی ملزمین کے اقبالیہ بیانات جو انہوں نے مکوکاقانون کی دفعہ 18 کے تحت ڈپٹی کمشنر آف پول کو دیا تھا ،جس میں ان بم دھماکوں کے تعلق سے جرم قبول کیا تھا نیز دیگر ملزمین کے ملوث ہونے کا بھی اعتراف کیا تھا ، ملزمین سدھاکر دھر دویدی کا اقبالیہ بیان ڈی سی پی سنجے ولاس راﺅ موہیتے نے 25 نومبر2008کو درج کیا تھا اسی طرح ملزم راکیش دھاﺅڑے کا اقبالیہ بیان ڈی سی پی کے ایم ایم پرسنا نے5 دسمبر2008کو درج کیا تھا جبکہ اس معاملے میں ملوث ملزم پروین وینکٹیش ٹکلکی کا اقبالیہ بیان ڈی سی پی دلیپ ساونت نے 18 فروری2011کو درج کیا تھا ۔
- 13سرکاری گواہوں کے بیانات جو انہوں نے سی آر پی سی کی دفعہ 164کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے درج کرائے تھے۔
- متعدد سرکاری گواہوں کے بیانات جو انہوں نے سی آر پی سی کی دفعہ161کے تحت درج کرائے تھے ۔
- ملزم سدھاکر چترویدی کے گھر سے آر ڈی ایکس کے زرات کی برآمدگی اور اس تعلق سے گواہ کے بیانات کا اندراج۔
- ملزمین راکیش دھاﺅڑے اور جگدیش مہاترے کے گھروں سے ہتھیاروں کی ضبطی جسے ملزمین نے کرنل پروہت کی ایماپر خریدا تھا۔
- حادثہ کے مقامات سے اکٹھا کئے گئے ثبوت وشواہد۔
- ملزم سدھاکر دویدی کے لیپ ٹاپ میں ریکارڈ ملزمین کی گفتگو کی تفصیلات۔
- حادثہ کے بعد ملزمین کے درمیان ہونے والی گفتگو کی تفصیلات جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حادثوں کے بعد بھی ملزمین ایک دوسرے کے مسلسل رابطہ میں تھے۔
- فارینسیک سائنس لیباریٹری کی رپورٹ جس میں ملزمین کی آوازوں کے نمونوں کی جانچ کی گئی تھی۔
- ملزمین کے موبائل فون کی تفصیلات CDRs کا تجزیہ جس سے یہ پتہ چلا کہ ملزمین نے بم دھماکوں سے قبل اور بعید کتنے مرتبہ ایک دوسرے سے گفتگو کی تھی۔
- ملزم پرگیہ سنگھ ٹھاکر سے تحقیقات اس کی موٹر سائیکل کے متعلق جس پر بم نصب کیا گیا تھا ۔
این آئی اے کی تحقیقات کی نمایاں خصوصیات
- سادھوی کی موٹر سائیکل ملزم رام سنگھ کالسانگرا کے قبصہ میں بم دھماکوں سے پہلے سے تھی اور اس تعلق سے پانچ گواہوں نے اپنے بیانات کا اندراج کیا اور کہا کہ موٹر سائیکل LLM Freedom GJ-05-BR-1920 سادھوی کے نہیں بلکہ رام سنگھ کی تحویل میں تھی۔
- مخفی سرکاری گواہ اپنے اس بیان سے منحرف ہوگیا جس نے بھوپال کی میٹنگ میں سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ وہ بم دھماکوں کے لیئے ”آدمی“ مہیا کرائے گی ۔
- مخفی سرکاری گواہ اپنے اس بیان سے منحرف ہوگیا جس میں اس نے کہا تھا کہ بم دھماکوں کے بعد اجین کی میٹنگ میں وہ موجود تھا جس میں رام جی نے سادھوی کو کہا تھا کہ اس کی موٹر سائیکل پر بم نصب کیئے گئے بم پھٹے تھے۔
- ان بم دھماکوں میں استعمال ہونے والے ٹائمر کو قانون شہادت کی دفعہ ۷۲ کے تحت پنچ نامہ کرکے ملزم شیو نارائن کالسانگرا کے گھر سے اے ٹی ایس نے ضبط کرنے کا دعوی کیا تھا لیکن این آئی اے نے اپنی تحقیقات میں کہا کہ ملزم پیشہ سے الیکٹریشین ہے اور اس کے قبضہ سے ضبط کیا گیا پیراگان ٹائمر وہ ٹائمر نہیں ہے جو بم دھماکوںمیں استعمال ہوا تھا لہذا ملزم کے خلاف کوئی ثبوت نہیں حاصل ہوا ۔
- اے ٹی ایس کے مطابق ملزم شیام بھورلال ساہو کی موبائل دکان میں کام کرنے والے ملازم نے سی آر پی کی دفعہ 161 کے تحت دیئے گئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ پرگیا سنگھ ٹھاکر کے موبائل پر اکثر وہ ریچارج کیا کرتا تھا نیز ملزم رام چند را کالسانگر کو اس نے پانچ سیم کارڈ مہیا کرائے تھے نیز رام جی گولڈن رنگ کی ایل ایم ایل فریڈم موٹائر بائیک استعمال کرتاتھا لیکن این آئی اے نے اپنی تحقیقات میں پایا کہ شیام ساہو نے صرف پانچ موبائل سیم کارڈ رام جی کو مہیا کرائے تھے اس کے علاوہ انہیں ایسا کوئی بھی ثبوت نہیں ملا جس سے یہ پتہ چلے کہ ان سیم کارڈوں کو بم دھماکوں میں استعمال کیا گیا تھا لہذا ملزم کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنتا ۔
- این آئی اے نے اپنی تحقیقات میں یہ پایا کہ پچیس چھبیس جنوری2008ءکو فریدآباد میں منعقد ہ خفیہ میٹنگ میں ملزم ریٹائرڈ میجر رومیش اپادھیائے نے کرنل پروہت کو مجوزہ ہندو راشٹراور خود کے آئین و جھنڈے کے تعلق سے گفتگو کی تھی اس میٹنگ میں موجود مخفی سرکاری گواہ نے اپنے بیان میں ا س کا ذکرکیا تھا نیز بھوپال میٹنگ میں بھی ملزمین نے مسلمانوں سے انتقام لینے اور گنجان مسلم آبادی والے شہر مالیگاﺅں میں بم دھماکا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، لہذا این آئی اے نے ملزم کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کی عدالت سے گذارش کی تھی(ملزم فی الحال ضمانت پر رہا ہوچکا ہے )
- ایک جانب جہاں این آئی نے ملزمین سمیر کلکرنی، اجئے راہیکر ، راکیش دتتاریہ دھاﺅڑے،جگدیش چنتا من مہاترے، کرنل پروہیت، سدھاکر ادیان دھر دویدی، سدھاکر چتورویدی، رام چندرا کالسانگرا، سندیپ ڈانگے، رومیش اپادھیائے کے خلاف ثبوت و شواہد کی روشنی میں مقدمہ قائم کرنے کی وکالت کی ،وہیں ملزمین پرگیہ سنگھ ٹھاکر، شیو نارائن کالسانگرا، شیام بھورلال ساہو، پروین ٹکلکی، لوکیش شرما اور دھان سنگھ چتور ویدی (مالیگاﺅں 2006بم دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ) اس مقدمہ سے کلین چٹ دے دی حالانکہ کے اے ٹی ایس کی تحقیقات میں ان سبھی ملزمین کے خلاف ان بم دھماکوں کی سازش رچنے کے پختہ ثبوت ملے تھے ۔
- این آئی اے کی تازہ فرد جرم کے عدالت میں داخل ہونے کے بعد سے ہی مقدمہ کمزور ہوناشروع ہوا او ر این آئی اے کی ایماپر ملزمین کو مدد پہنچانے سے انکار کرتے ہوئے سابق وکیل استغاثہ روہنی سالیان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا ، اسی وقت یہ واضح ہوگیا تھا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے ۔
مالیگاﺅں2008ءبم دھماکہ معاملہ ہندوستانی فوجداری مقدمات کی تاریخ کا اپنا ایک ایسا نایاب مقدمہ ہے،جس میں متاثرین کی بجائے ملزمین کو مدد پہنچانے کی قومی تفتیشی ایجنسی نے مبینہ کوشش کی ہے جس کی وجہ سے قومی تفتیشی ایجنسی کی ساکھ پر سوال اٹھنا جائز ہے ۔
ایک جانب جہاں متاثرین قومی تفتیشی ایجنسی کو قصور وار مانتے ہیں وہیں اے ٹی ایس کی مجرمانہ خاموشی نے بھی انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا ہےکہ آیا انہیں عدالت سے انصاف بھی ملے گا یا نہیں جس کی امیدیں پچھلے پانچ سالوں سے معدوم ہوتے جارہی ہے ۔
مالیگاﺅں 2006بم دھماکوں کی تحقیقات سب سے پہلے اے ٹی ایس نے کی تھی جسے این آئی اے نے غلط قرارددیا تھا اور مسلم ملزمین کو بے قصور قرارد یا تھا جس کے بعد عدالت نے انہیں مقدمہ سے ڈسچار ج کردیا تھا جس کے خلاف اے ٹی ایس نے ممبئی ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے لیکن مالیگاﺅں2008 بم دھماک معاملے میں بھگواملزمین کو ملنے والی راحت کے خلاف اے ٹی ایس نے ہائی کورٹ سے رجوع نہیں کیا،اس کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں عوام جاننا چاہتی ہے ۔ کیا یہ سب حکومت کی ایماپر نہیں ہورہا ہے ؟
اس مقدمہ کی سماعت ممبئی کی سیشن عدالت میں قائم خصوصی عدالت میں ہورہی ہےجس میں ملزمین ، وکلااستغاثہ اور دفاعی وکلاکے علاوہ کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں ہے ۔حتی ٰکہ متاثرین کی نمائندگی کرنے والی تنظیم جمعیة علماءکے وکلاءکو بھی عدالت کی اجازت طلب کرنا پڑتی ہے ۔عدالت میں جانے سے قبل اور انہیں ایک مخصوص وقت کے لیے ہی مہلت دی جاتی ہے ، صحافیوں کا داخلہ ممنوع ہے ، اس ضمن میں گذشتہ دنوں مشہور انگریزی اخبار”دی ہندو“ کے صحافی آلوک دیشپانڈے نے خصوصی عدالت میں ”اوپن کورٹ“ کئے جانے کے تعلق سے عرضداشت داخل کی تھی، جس کی ملزمین نے سخت لفظوں میں مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تھا صحافیوں کو ان کے مقدمات کی رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جانے چاہئے اور اس تعلق سے مکوکا قانون کی مختلف دفعات کا حوالہ دیا گیا تھا ۔
اس معاملے کی رپورٹنگ کرنے کی صحافیوں کو اجازت نہیں ہے ،جس کی وجہ سے عدالت میں کیا چل رہا ہے کسی کو خبر نہیں رہتی ہے اور پھر ایک دن یہ خبر آتی ہے کہ فلاں ضمانت پر رہا ہوگیا اور فلاں کو این آئی اے نے کلین چٹ دے دی ۔
یہ جاننا ضرروی ہے کہ ملزمین کیوں نہیں چاہتے کہ ان کے خلاف چارجیز فریم ہوں اور باقاعدہ مقدمہ کا آغاز ہو کیونکہ ایک بار چارج فریم ہوگیا تو ضمانت پر رہائی اور مقدمہ سے ڈسچارج کے راستےتقریباً بند ہوجائیں گے اسی لیے گذشتہ ڈھائی سالوں سے ملزمین طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرکے اس میں کامیاب ہوئے ہیں کہ ان کے خلاف قائم مقدمہ کی سماعت شروع نہ ہوسکے ۔
ملزمین کی رہائی میں ماضی کی حکومت کی غلطیاں بھی انہیں فائدہ پہنچا رہی ہے جیسے کہ”ابھینو بھارت“ تنظیم کو حکومت نے دہشت گرد تنظیم کی فہرست میں شامل ہی نہیں کیا جس کاراست فائدہ ملزمین کو مل رہا ہے۔اس کی تازہ مثال کرنل شریکانت پروہت ہے، جس کی ضمانت عرضداشت پر سماعت کے وقت راقم سپریم کورٹ میں موجود تھا جب حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکیل (ایڈیشنل سالیسٹر جنرل منندر سنگھ)نے عدالت میں اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ ابھینو بھارت ممنوع تنظیموں کی فہرست میں شامل نہیں ہے ۔
اس مقدمہ میں ملزمین کو ایک منظم طریقے سے ملزمین کو مدد پہنچائی گئی جیسے تحقیقات کو این آئی اے سونپنا پھر اس کے بعد سرکاری وکیل پر ملزمین کے تعلق سے نرمی برتنے کا دباﺅ بنانا اور پھر بعد میں یہ اعتراف کرنا کہ تحقیقات میں خامیاں ہیں ۔کوئی بھی انصاف پسند یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ کسی بے گناہ کو سزاملے لیکن انصاف کا تقاضہ ہے کہ کو سخت سے سخت سزا ملنا چاہئے جنہوں نے ان بم دھماکوں کی سازش رچی تھی ۔فی الحال ملزمین پیریٹی کی بنیاد پر ضمانت حاصل کرتے جارہے ہیں اور مقدمہ کی باقاعدہ سماعت کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں جس کی وجہ سے انصاف پسند طبقہ میں بے چینی بڑھ رہی ہے ۔
(مضمون نگار حقوق انسانی کے وکیل اور جمعیت علماہند،مہاراشٹر لیگل ایڈ کمیٹی کے قانونی معاون ہیں۔ )
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر