ہر لمحہ میں اس کا انتظار کرتی ہوں۔ کوئی رات ایسی نہیں گزرتی ہے جب میں اس کے لئے ایکسٹرا دعا نہ کرتی ہوں : نجیب کی ماں
نجیب کی ماں فاطمہ نفیس کبھی بستر پر لیٹ جاتی اور کبھی اٹھکر بیٹھ جاتی۔ ان کی زبان سے لفظ اور آنکھوں سے آنسو ساتھ ساتھ نکل رہے تھے۔ پاس میں رکھی کرسی پر بیٹھا میں سوچ رہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کروں۔ ” مجھے پوری امید ہے کہ میرا بچہ سیف (صحیح سلامت) ہے۔ مگر کوئی یہ نہیں بتاتا وہ کہاں ہے۔ ” نجیب کی ماں اچانک بول پڑی۔
نجیب کہاں ہے؟ اس سوال کا جواب نجیب کی ماں گزشتہ ایک سال سے تلاش رہی ہیں۔ سال گزر گیا مگر ان کے سوال کا نہ تو جواب ہی ملا اور نہ ان کے حالات ہی بدلے۔
گزشتہ سال 14اکتوبر کی رات، سنگھی نظریہ سے جڑے ہوئے کئی سارے طالب علموں نے ملکر نجیب کی پٹائی کی تھی۔ پٹائی اتنی زور کی تھی کہ نجیب کی ناک اور کان سے خون نکل آیا۔ اگلے دن سے نجیب اپنے ہاسٹل سے غائب ہو گئے جو آج تک غائب ہیں۔نجیب کو جے این یو میں داخلہ لئے ہوئے چند مہینے ہی ہوئے تھے جب یہ واردات پیش آئی۔ سنگھیوں نے خوب افواہ پھیلایا کہ نجیب کی پٹائی اس لئے ہوئی تھی کہ اس نے کچھ ہندو لڑکوں کو ان کی مذہبی جذبات کے خلاف کچھ کہا تھا۔ حالانکہ اس کی پٹائی کے پس پردہ حملہ آور وں کا اصل مقصد فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھانا تھا اور یونیورسٹی کے اندر نگرانی بڑھانے کے لئے ماحول تیار کرنا تھا۔
نجیب کی ماں کا سوال سنکر میں کچھ دیر کے لئے خاموش رہا پھر وہ مجھ سے ہی پوچھ بیٹھی۔ ” تم کو میں اپنے بیٹے کی طرح مانتی ہوں بتاؤ نجیب کہاں ہے؟ “میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا مگر میں نے اتنا ضرور کہا کہ ” نجیب آج نہیں تو کل ضرور واپس آئےگا “
پچھلے دنوں میری ملاقات نجیب کی 48 سالہ ماں سے ہیومن رائٹس لا نیٹورک کی دلّی آفس میں ہوئی۔ سپریم کورٹ کے مشہور وکیل اور ہائی کورٹ میں نجیب کا مقدمہ لڑ رہے کالن گونسالوس کی رہنمائی میں یہ آفس چلتا ہے جہاں مظلوموں کو قانونی مدد دی جاتی ہے۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے جب بھی نجیب کی ماں دلّی آتی ہیں۔ وہ اسی آفس میں ٹھہرنا پسند کرتی ہیں، کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ ان کے دلّی کے رشتہ دار ان سے اور زیادہ “پریشان “ہوں۔ اصل میں ان رشتہ دار وں کو نجیب کی ماں سے کم اور پولس سے زیادہ پریشانی جھیلنی پڑتی ہے۔ پولس نجیب کی ماں کو ٹھکانہ دینے والے لوگوں کو طرح طرح سے پریشان کرتی ہے۔
نجیب کی ماں کی دہلی آمد اس بار کورٹ کچہری کے لئے نہیں بلکہ ایمس میں علاج کے غرض سے تھی۔ ان کے ساتھ ان کا تیسرا اور سب سے چھوٹا بیٹا حسیب احمد بھی تھا۔ لال ٹی شرٹ اور بلیو جینس پہنے 22سالہ حسیب بریلی میں سول انجینئرنگ کی پڑھائی پوری کر رہا ہے۔ چونکہ نجیب کی ماں کو اگلے روز اپنے شہر بدایوں لوٹنا تھا، میں ان سے ملنے جے این یو سے فٹافٹ نکل پڑا۔ راستے میں زبردست ٹریفک جام تھا کیونکہ پاس کے جواہرلال نہرو اسٹیڈیم میں فیفا ورلڈ کپ فٹبال (انڈر 17) کا میچ چل رہا تھا۔گھنٹے بھر جام میں پھنسنے کے بعد، آخرکار دیر شام میں آفس پہنچا۔ آفس کے چوتھی منزل پر ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جہاں نجیب کی ماں اور حسیب میگی کھا رہے تھے۔ میگی اس لئے کہ ڈاکٹر نے نجیب کی ماں کو ” سخت ” کھانا کھانے سے منع کیا ہے۔
جیسے ہی میں ان سے ملا اور ان کو سلام عرض کیا نجیب کی ماں نے مجھے بیٹھنے کو کہا اور حسیب کو میرے لئے میگی بنانے کو کہا۔ نجیب کی ماں سے میری جان پہچان بھی ایک سال پرانی ہے۔ ہماری ملاقات اکثر مظاہرہ اور دھرنے میں ہوتی ہے۔
بستر پر بیٹھی نجیب کی ماں میگی کھا رہی ہے۔ اکثر وہ سلوار اور کرتی میں نظر آتی ہیں اور جب وہ بات کرتی ہیں تو ان کے کان کی بڑی بالی ہلتی ڈولتی رہتی ہے۔ میری ان سے ملاقات کئی مہینے بعد ہوئی۔ اس بار بھی میں نے ان کو پہلے کی ہی طرح پرامید پایا۔ اپنے بیٹے کے ڈھونڈ پانے کا ان کا عزم آج بھی بلند ہے۔ سال بھر کی بھاگ دوڑ، کورٹ کچہری کا چکر اور کئی طرح کی پریشانیوں نے ان کو کسی بھی طرح سے کمزور نہیں کیا ہے۔ “نجیب ایک دن ضرور واپس آئےگا اور صحیح سلامت آئےگا “۔
مگر بیچ-بیچ میں وہ اپنی سسکی روک نہیں پائی، ماں کا دل جو ٹھہرا۔ “ہر پل میں دروازہ پر دیکھتی رہتی ہوں کہ کب نجیب دروازہ کھٹکھٹائےگا۔ ہر لمحہ میں اس کا انتظار کرتی ہوں۔ کوئی رات ایسی نہیں گزرتی ہے جب میں اس کے لئے ایکسٹرا دعا نہ کرتی ہوں۔ “
ان کی یہ سسکی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ پولیس اور حکومت کس قدر غیر حساس ہو گئی ہے کہ “معمولی انسان کی سنتی ہی نہیں ہے۔ اگر نجیب کسی وزیر کا بیٹا ہوتا تو پولیس اس کو دو دن کے اندر کھوج لیتی۔ “
دو دن کی کون کہے گزشتہ ایک سال میں پولیس، کرائم برانچ، خفیہ ایجنسی اور ہندوستان کی سب سے بڑی جانچ ایجنسی سی بی آئی بھی نجیب کے ڈھونڈنے میں پوری ” ناکارہ ” ثابت ہوئی ہے۔ پولیس کی لاپروائی کا عالم یہ ہے کہ نام نہاد حملہ آوروں کے ساتھ اس نے حراستی پوچھ تاچھ بھی نہیں کیا ہے۔ دوسری ناامیدی یہ ہے کہ نجیب کیس کی جانچکر رہی سی بی آئی تازہ ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے پرانےایف ائی آرکو ہی پھرسے درج کیا ہے۔
” آپ کو لگتا ہے کہ کچھ ہوا ہے؟ “نجیب کی ماں نے مجھ سے پوچھا۔ پھر انہوں نے اپنے ہی سوال کا جواب بھی دیا۔ ” کچھ نہیں ہوا ہے۔ جو بات پہلے دن سنی تھی وہی آج بھی سن رہی ہوں۔ اتنا ناکارہ پولیس ہے “بات چیت کے دوران انہوں نے وزیر خارجہ اور بی جے پی کی بڑی رہنما سشما سوراج کا بھی ذکر کیا۔ “سنا ہے کہ سشما سوراج غیرملکوں میں لوگوں کو بچاتی ہیں۔ مگر جب ملک میں ہی کوئی غائب ہو جائے تو وہ کیوں نہیں کچھ کرتی ہیں۔ “ان کو مایوسی اس بات سے بھی ہے کہ سشما سوراج کو نجیب سے متعلق ٹوئٹ بھی کروایا گیا مگر انہوں نے کبھی اس کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی کبھی نجیب کی خیریت ہی جاننی چاہی۔
سشما سوراج کی خاموشی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نجیب کے نام نہاد حملہ آوروں کے تار بھگوا تنظیم سے جڑے ہونے کا شک ہے۔ جب جے این یو انتظامیہ، پولیس اور حکومت نجیب کے نام نہادحملہ آوروں کو بچانے کے لئے ہرطرح کے ہتھکنڈے اپنانے سے باز نہیں آ رہے ہوں تو بھلا سشما سوراج ان کے خلاف کیسے جا سکتی ہیں۔
اسی دوران ان کا دوسرا بیٹا مجیب احمد کا فون آیا۔ جب فون پر نجیب کی ماں بات کرنے لگی تبھی حسیب میرے لئے گرماگرم میگی بناکر لایا اور پھر وہ بستر پر بیٹھکر دیوار سے لیٹ گیا اور موبائل پر کچھ دیکھنے لگا۔
” اب تو اللہ کی ذات پر ہی یقین ہے۔ “نجیب کی ماں نے فون کاٹنے کے فوراً بعد میری طرح مڑی۔ آگے انہوں نے بتایا کہ نجیب کی تلاش میں انہوں نے وہ بھی پیسے خرچکر دئے جو وہ اپنی چھوٹی بیٹی کی شادی کے لئے رکھا تھا۔ اوپر سے نجیب کے والد بیمار رہتے ہیں۔ ” گزشتہ ایک سال سے میرے گھر میں کسی نے کپڑے نہیں بنوائے ہیں۔ ایک بار نجیب مل جائے تو میں اس کو لےکر خاموش ہو جاؤںگی۔ مجھے کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ مجھے صرف میرا نجیب چاہئے۔ “
اس کے ساتھ ساتھ وہ ان تمام افواہوں کو خارج کر رہی ہیں، جس میں کہاں جا رہا ہے نجیب خود سے بھاگ گیا ہے یا پھر وہ کسی غیرقانونی ادارہ میں شامل ہو گیا ہے۔ “وہ خود سے نہیں گیا ہے۔ جو خود سے گیا ہوتا تو وہ اپنی ماں کو فون نہیں کرتا۔ “وہ آگے بتاتی ہے کہ نجیب کا کسی بھی ” فالتو ” کاموں سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ اس کو پڑھائی کے علاوہ کسی چیز سے مطلب نہیں ہوتا تھا۔ وہ ایک محنتی لڑکا تھا اور اے ایم یو، ہمدرد، جامعہ اور جے این یو جیسی مشہور یونیورسٹیوں کا داخلہ امتحان اس نے پاس کیا ہے۔
اسی دوران ٹرائل کورٹ میں نجیب کی وکیل پلّوی آئی اور نجیب کی ماں ان سے مقدمہ کے بارے میں بات کرنے لگی۔ پلّوی نے بتایا کہ نجیب کےنام نہاد حملہ آوروں کے اوپر سی بی آئی “نارکو ٹیسٹ ” اور ” پالیگرافی ” ٹیسٹ کر سکتی ہے۔ نجیب کی ماں کی طرح پلّوی بھی پولیس اور سی بی آئی کے سست رویہ سے کافی غیر تشفی بخش دکھی۔ “ہم چاہتے ہیں کہ کورٹ خود اپنی نگرانی میں ایک ایس آئی ٹی قائم کریں جس کے افسر دلّی سے باہر کے ہوں تاکہ تفتیش پوری شفافیت کے ساتھ انجام کو پا سکے۔ “
پلّوی کے جانے کے بعد میں نے بھی ان سے جانے کی اجازت مانگی۔لوٹتے وقت میں یہی سوچ رہا تھا کہ وہ دن کب آئےگا جب ماں کو اس کا نجیب مل جائےگا؟
Categories: حقوق انسانی