آئین پر منڈلاتے خطرات کے حوالے انہوں نے کہاکہ آئین کو بچانے کے لئے تمام اپوزیشن پارٹیوں کو ایک ساتھ آنا ہوگا۔
ممبئی: کسی فرد واحد کوہٹانے سے ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی جب تک نظام میں تبدیلی نہیں آجاتی۔ یہ باتگزشتہ روز یہاں سپریم کورٹ کے سابق جج اور پریس کونسل آف انڈیا کے سابق چیرمین جسٹس پی وی ساونت نے ’اتحاد برائے انصاف و امن‘ میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوے کہی۔ انہوں نے نریندر مودی کے خلاف بالواسطہ اتحاد کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ اپوزیشن نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں نظام درہم برہم سالگ رہا ہے اور آج حکومت میں شخصیت تو بدل گئی لیکن نظام نہیں بدل سکا جس کی وجہ ملک کی صورت حال دن بہ بدتر ہوتی چلی گئی اور لوگوں کے سامنے گوناگوں مسائل کھڑے ہوتے گئے۔ انہوں نے اس کے ساتھ ہی اقتصادی نظام بدلنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ ہمیں وہ اقتصادی نظام کی ضرورت ہے جو نوجوانوں اور بے روزگاروں کو نوکری دے سکے۔ لہذا ہمیں عوام رخ اور عوامی فلاح بہود والا نظام چاہئے تاکہ انسانیت بچ سکے۔
جسٹس ساونت نے موجودہ اقتصادی نظام کو استحصالی نظام اور کارپوریٹ گھرا نے کی بہبود پر مبنی نظا م قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس سے صرف ایک خاص طبقہ کو فائدہ پہونچا ہے۔ انہوں نے اس طرح کے نظام سے 70فیصد لوگوں کی نوکریاں ختم ہوجائیں گی۔آئین پر منڈلاتے خطرات کے حوالے انہوں نے کہاکہ آئین کو بچانے کے لئے تمام اپوزیشن پارٹیوں کو ایک ساتھ آنا ہوگا۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اتحاد مثبت سوچ کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ انہوں نے اس سے پہلے کی تمام تحریکوں کو منفی سوچ پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کی تحریک کا مقصد صرف ایک خاص شخص کو ہٹانا تھا اور شخصیت ہٹتی گئی اور نظام جوں کا توں برقرار ہا اور اس کا فائدہ صرف ایک خاص تنظیم کو ملا۔ انہوں سماجی نظام پر زور دیتے ہوئے کہاکہاگر یہ نظام کسی ملک میں ناکام ہوجائے تو ضروری نہیں کہ ہندوستان میں بھی ناکام ہوجائے۔
اس پروگرام کے کنوینر اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی نے کہاکہ دیگر طبقوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر زور دیتے ہوئے کہاکہ اس کے لئے لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم لوگ کسی کم ا ز کم مشترکہ پروگرام پرپہنچ سکیں۔ انہوں نے موجودہ حکومت سے عوام کی مایوسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ملک کا اکثریتی طبقہ اس بات سے متفق ہے کہ ملک میں مایوسی ہے اوریہاں کے عوام کے وعدے اور حقیقت کے درمیان فاصلے کو سمجھ چکے ہیں۔انہوں نے کہاکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ وقت اتحاد کے لئے مناسب ترین وقت ہے اور ہمیں ہمت اور حکمت کے ساتھ اتحاد کی جدوجہد کو تیز کرنا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ اگر ہم اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کو جس راستے پر چلایا جارہے تو تباہ کن ہے تو اسے روکنے کے لئے حکمت عملی وضع کرنا سب کے لئے ضروری ہے۔ مولانا نعمانی نے کہاکہ میں قسم کھاکر کہہ سکتا ہوں کے اس ملک میں اچھے لوگوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو قتل و غارت گری، ، دنگا فسادنہیں چاہتے اورمٹھی بھر لوگ ہیں جو فسادی قسم کے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ خاموش تماشائی کی بجائے کیوں کہ ہم اتحاد کی تشکیل کرکے ان مٹھی بھر لوگوں کا مقابلہ کریں۔
بمبئی ہائی کورٹ نے سابق جج جسٹسایچ سریش نے اس موقع پر اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ملک کے تمام اہم اداروں پر ایک خاص ذہنیت اور طبقے کے لوگوں کا قبضہ ہوتا جارہے۔ انہوں نے آئین کو نظر انداز کے جانے پر تشویش ظاہر کی۔ بام سیف کے سربراہ وامن مشرام نے موجودہ حالات اور اس کے پس منظر و مقصد کا جائزہ لینے پرزور دیتے کہاکہ کوئی لائحہ مل ، حکمت عملی اور اتحاد اس وقت کامیاب ہوتا ہے جب وہ اس کا مقصد ایک ہو۔ انہوں نے گزشتہ کئی برسوں سے سڑکوں پرہونے والی غنڈہ گردی اور وحشیانہ مظالم کے سدباب نہ ہونے کو وجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ جس سے ووٹوں میں اضافہ ہوتاہو اس کا م کو کوئی کیسے روک سکتا ہے۔ انہوں نے دعوی کا کہ اس طرح کے واقعات کی تشہیر کا مقصد مسلمانوں کے دلوں میں خوف و ڈر پیدا کرنا ہے جس سے ان کی توقع کے مطابق ہندو متحد ہوں گے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت بھی پیدا ہو گی۔
مشہور سماجی کارکن تیسٹا سیلواڈ نے جمہوری تحریک میں خواتین کی شرکت پر زور دتے ہوئے کہاکہ جب خواتین ان تحریکوں میں حصہ نہیں لیتیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتیں۔انہوں نے جیوتی با کی تعلیمی تحریک اس وقت کامیاب ہوئی جب فاطمہ شیخ نے ان کا ساتھ دیا تھا۔ انہوں نے مودی حکومت پر یونیورسٹی میں اسکالرشپ ختم کرنے کا الزام لگایاتے ہوئے کہاکہ یوجی سی نے 20ہزار سے زائد اسکالر شپ ختم کردی تاکہ یونیورسٹی میں سوشلزم کے علمبردار لیڈر پیدا نہ ہوں اس سیمنار میں دیگر مقررین میں محمد علیی جناح، اے سعیداور دیگر حضرات شامل تھے۔ یہ دوروزہ کل بھی جاری رہے گا۔
Categories: حقوق انسانی, خبریں