خبریں

انٹرویو: حج میں محرم کے مسئلے پر تنازعہ غیر ضروری :افضل امان اللہ

سعودی قانون 45 سال سے اوپر کی عورتوں کو بغیر محرم کے سفر کی اجازت دیتا ہے۔ ہم نے سعودی سفارت خانے سے اس کی تصدیق بھی کر لی ہے۔ ہم نے صاف طور پر کہا ہے کہ جس کا مسلک اس کی اجازت دیتا ہے اسے جانے دیا جائے۔

PhotoCredit : @naqvimukhtar

Photo Credit : @naqvimukhtar

حج انتظامات کو بہتر بنانے اور اس میں شفّافیت لانے کی غرض سے چند ماہ قبل وزارت اقلیتی امور نے ایک پانچ رکنی ریویو کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کے کنوینر رٹائرڈ آئی اے ایس افسر افضل امان الله تھے۔ جسٹس شفیع پارکر، حج کمیٹی کے سابق چیئرمین قیصر شمیم، سیاسی رہنما اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کمال فاروقی اور وزارت کے جوائنٹ سیکرٹری جان عالم اس کے دیگر ممبران تھے۔پچھلے ہفتے اس ریویو کمیٹی نے اپنی سفارشات مرکزی وزیر براۓ اقلیتی امور مختار عبّاس نقوی کو پیش کر دی جس کے بعد سے اس پر ردعمل کا سلسلہ جاری ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کا خیر مقدم کیا ہے تو کچھ نے اس میں کے کئی تجاویز پر اعتراض جتایا ہے۔

ریویو کمیٹی کے سفارشات پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

2012میں آئے سپریم کورٹ کے فیصلے کی رو سے 2022 تک حکومت کی طرف سے ملنے والی حج سبسڈی، یعنی مالی راحت، ختم ہونی ہے۔ حکومت نے اس کی ابتدا اسی سال سے کر دی ہے۔ اس سال حکومت نے کُل اضافی خرچ کا آدھے سے بھی کم خرچ برداشت کیا۔ حج سبسڈی پوری طرح ختم ہونے کی صورت میں نئی حج پالیسی وضع کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ اس وقت ریویو کمیٹی کی سفارشات بڑی اہمیت کی حامل ہوں گی۔ دی وائر کے لیے شاہین نظرنے کمیٹی کے کنوینر افضل امان الله سے ان کی پیش کردہ رپورٹ پر اٹھنے والے سوالات کی روشنی میں گفتگو کی ہے۔موصوف سابق سیکریٹری براۓ پارلیمانی امور ہونے کے علاوہ ماضی میں جدّہ میں ہندوستانی قونصل جنرل رہ چکے ہیں اور اس لحاظ سے حج انتظامات کا براہ راست تجربہ رکھتے ہیں اور اس کی تمام پیچیدگیوں سے بھی واقف ہیں۔

HajjCommittee

امبارکیشن پوائنٹس کو21 سے گھٹا کر 9پر لانے کی سفارش کیوں کی گئی ہے؟

یہ سفارش سپریم کورٹ کے حکم سے جڑی ہوئی ہے جس میں2022 تک حاجیوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کو کہا گیا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں امبارکیشن پوائنٹس کو بڑھانے کا فیصلہ غیر منظّم طریقے سے لیا گیا۔ یہ فیصلہ کن مصلحتوں کے تحت لیا گیا میں اس پر سوال نہیں اٹھا رہا ہوں ،مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے خرچ بڑھ گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سبسڈی کی رقم ہر سال بڑھتی گئی اور بڑھتے بڑھتے نو سو کروڑ تک پہنچ گئی۔ اس سے مسلمانوں کی بدنامی ہونے لگی کہ یہ لوگ سرکارکا پیسہ کھا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا ،جہاں سے اسے ختم کرنے کا حکم جاری ہوا۔ فوری طور پر ہمیں یہی حل نظر آیا کہ صرف ان ایئرپورٹس سے حج فلائٹس جائیں جہاں پر ایئر لائنز کو الگ سے عملہ اور دیگر سہولتیں نہ جٹانا پڑیں کیونکہ اس کا اثر ٹکٹ پر پڑتا ہے۔

تو کیا یہ مانا جائے کہ اگلے سال سے کرایہ کم ہو جائے گا؟

یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ابھی تک حج کمیٹی فی کس 62 ہزار روپیہ لے رہی ہے۔ جب سبسڈی ختم ہو جائے گی تو کرایوں میں بہت زیادہ کا فرق آئے گا۔ ہندوستان اور سعودی عرب کے بیچ جو ہوائی سمجھوتہ ہے اس کے مطابق تین امبارکیشن پوائنٹس کو چھوڑ کر ہر جگہ کا کرایہ بڑھ گیا ہے اور ان کے بیچ کا فرق بہت زیادہ ہے، اکثر دوگنے سے بھی زیادہ۔جیسے کشمیر سے کرایہ ایک لاکھ بارہ ہزار، گوہاٹی سے ایک لاکھ دس ہزار اور گیا سے ایک لاکھ آٹھ ہزار جبکہ دہلی اور ممبئی سے جانے والوں کا کرایہ پچاس ہزار کے آس پاس۔ سبسڈی ختم ہونے کے بعد بھی اگر سب سے ایک جیسا کرایہ لیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دہلی اور ممبئی وغیرہ کے حاجی ان حاجیوں کا بوجھ برداشت کریں جن کا کرایہ زیادہ ہے۔ آپ کو یہ بتا دیں کہ حکومت نے سبسڈی ختم کرنے کی شروعات اسی سال سے کر دی ہے۔ اس سال چار سو اسی کروڑ اضافی خرچ آیا مگر حکومت نے صرف دو سو کروڑ ہی دیا۔ ان حالات میں امبارکیشن پوائنٹس کو کم کرنے کا تکلیف دہ مشورہ دیا گیا ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔

مسلمانوں کی طرف سے یہ مانگ رہی ہے کہ ہمیں ایئر انڈیا کے چنگل سے چھٹکارہ ملے اور حج کمیٹی کو یہ اختیار ملے کہ جہاں سے سستی ٹکٹ ملے اس کے ذریعہ حاجیوں کو بھیجا جائے؟

اس سلسلے میں حج کمیٹی سعودی عرب سے کئے گئے معاہدہ کی پابند ہے۔سعودی عرب نے دنیا بھر سے حج ویزا کا جو معاہدہ کر رکھا ہے اس میں یہ شرط شامل ہے کہ پچاس فی صد حاجی ان کے یہاں کی ایئر لائنز کو دیے جائیں گے۔ چنانچہ اس معاہدہ کی رو سے حج کمیٹی صرف پچاس فی صد حاجیوں کو ہی لے جاتی ہے۔ اس کے لئے صرف انہیں ایئرلائنز کا انتخاب کرسکتی ہے جو ہندوستانی ہوں۔ اس وقت ایئر انڈیا اور اسپائس جیٹ کے پاس اس کا لائسنس ہے۔ ہماری سفارش یہ ہے کہ سعودی عرب سے گلوبل ٹینڈر دینے کی اجازت مانگی جائے کیونکہ معاہدہ کی رو سے اس اجازت کے بغیر کوئی غیر ہندوستانی ایئر لائن اس میں شامل نہیں ہو سکتی۔سعودیوں کو یہ سمجھانا پڑے گا کہ ہندوستانی حاجی عموماً غریب اور اوسط آمدنی کے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی زندگی بھر کی کمائی فریضہ حج پر خرچ کر دیتے ہیں۔ گلوبل ٹینڈر کی وجہ سے ٹکٹ سستی ہوگی تو ان پر پڑنے والا بوجھ کچھ کم ہو جائے گا۔

ایئر لائنز پر الزام ہے کہ وہ حج کے زمانے میں کرایہ بڑھا دیتے ہیں؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ حاجیوں سے بھری جہاز سعودی عرب جاتی ہے مگر واپس خالی آتی ہے۔ اسی طرح حاجیوں کو واپس لانے کے لئے جہاز یہاں سے خالی جاتی ہے۔ اس کا خرچ آخر ایئر لائنز والے کہاں ڈالیں گے۔ ہم لوگوں نے سفارش کی ہے کہ سعودی حکّام سے بات کی جائے کہ خالی آنے کی بجائے اس میں عام مسافروں کو لایا جائے تاکہ ایئر لائنز کی آمدنی میں اضافہ ہو اور وہ حاجیوں کی ٹکٹ سستی کر سکیں۔

گویا آپ مانتے ہیں کہ حاجیوں سے ٹکٹ کی جو مہنگی قیمت وصول کی جاتی ہے وہ صحیح ہے؟

 کسی حد تک ہاں۔ مگر میں ان کی دیگر تفصیلات میں نہیں گیا ہوں اس لئے کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتا۔

Photo Credit : @MEAIndia

Photo Credit : @MEAIndia

حاجیوں کے لئے بحری جہاز کا استعمال کس حد تک قابل عمل ہے؟

اگر پانی کا جہاز ملے تو خرچ گھٹایا جا سکتا ہے۔ایسا جہاز جس میں کم سے کم چار ہزار حاجی ایک بار میں جا سکیں۔ ابھی جو جہاز مل رہا ہے اس میں صرف ڈیڑھ ہزار تک کی گنجائش ہے۔ اس سے خرچ کم نہیں ہوگا۔ پھیرے بھی کئی لگانے پڑیں گے۔ وزارت اقلیتی امور نے شپنگ منسٹری سے بات کی ہے۔ سعودی حکّام سے بھی رابطہ قائم کیا گیا ہے۔ وہ لوگ ینبو میں حاجیوں کو اتارنا چاہتے ہیں جو کہ مکّہ سے ساڑھے تین سو کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ ہم لوگ جدّہ کی مانگ کر رہے ہیں جو کہ مکّہ سے 75 کلو میٹر کی دوری پر واقع  ہے اور زمانۂ قدیم سے حاجیوں کے لئے بندرگاہ رہا ہے۔ ایک دوسرا مسئلہ بھی ہے۔ جدّہ کا مدینتہ الحجاج تو اب رہا نہیں جہاں حاجی ایک دن آرام کر کے پھر مکّہ جاتے تھے۔ تو اب ان کی عارضی رہائش کا کوئی متبادل انتظام بھی کرنا ہوگا۔ سمندری راستے سے جانے میں درپیش خطرات کو بھی دیکھنا ہوگا۔

قربانی کا کوپن خریدنا لازمی کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟

نہیں، یہ لازمی نہیں ہوگا۔ یہ دراصل اُنہیں اُن دھوکہ بازوں سے بچانے کی کوشش ہے جو ان سے رقم لے کر بھی ان کی قربانی نہیں کرواتے ہیں۔ مگر جو حاجی نہیں چاہیں گے ان پر کوپن خریدنے کی پابندی نہیں ہو گی۔

محرم کے مسئلہ پر ریویو کمیٹی کی رائے کافی متنازعہ ہو گئی ہے؟

سعودی قانون 45 سال سے اوپر کی عورتوں کو بغیر محرم کے سفر کی اجازت دیتا ہے۔ ہم نے سعودی سفارت خانے سے اس کی تصدیق بھی کر لی ہے۔ ہم نے صاف طور پر کہا ہے کہ جس کا مسلک اس کی اجازت دیتا ہے اسے جانے دیا جائے۔ اگر کسی کے مکتبۂ فکر کے مطابق حج اس پر فرض ہو گیا ہے تو الله کے حکم سے روکنے والے ہم کون ہوتے ہیں۔ کسی دوسرے کا مسلک اس پر کیوں تھوپا جائے۔

70 سال سے اوپر کے لوگ اور فورتھ ٹائمرس، یعنی تین سال سے جو قرعہ میں نہ آئے ہوں، ان کا ریزرویشن کیوں کینسل کیا جانا چاہیے؟

اُن کی وجہ سے نئےلوگوں کو موقع نہیں مل پا رہا تھا۔ کیرالا کی ہی مثال لیجئے وہاں کا سارا کوٹہ ریزرو کیٹگری کے لوگ ہی کھا جاتے ہیں۔ دیگر ریاستوں میں بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے۔اس لئے ہم لوگوں نے سفارش کی ہے کہ ریزرویشن کی ضرورت نہیں۔ جو قرعہ میں آئے گا صرف وہی جائے گا۔باقی لوگ یہ مان لیں کہ الله کی طرف سے بلاوانہیں ہے۔

اپنی سفارشات پیش کرنے سے پہلے آپ لوگوں نے کسی طرح کا  رائےعامّہ بنانے کی کوشش کی؟

بالکل کی۔ اخبار میں نوٹس دیا کے لوگ ہمیں اپنی رائے دیں۔ دینی اور ملی تنظیموں کو میٹنگ کے لئے بلایا۔ مجلس مشاورت، اہل حدیث، جمیعت علما، جماعت اسلامی وغیرہ کے نمائندے آئے۔ سب نے اپنی رضامندی ظاہر کی۔ ہم نے کل 67 میٹنگس کیں۔ نہ صرف دہلی بلکہ کولکاتہ، ممبئی، جدّہ، مکّہ، مدینہ سب جگہ گئے۔

ایک آخری سوال۔ اسلامک بانڈ کی تجویز کیا ہے؟

اسٹیٹ بنک آف انڈیا نے 2016 میں یہ فیصلہ لیا تھا کہ اسلامک بانڈ جاری کیا جائے گا۔ اس کا تعلق حج سے نہیں ہے۔

HajCommitteReco

اگر حج سے تعلق نہیں تو آپ کی سفارشات میں یہ شامل کیوں ہے؟

چونکہ اسے حج کارپوریشن سے جوڑا گیا ہے۔ وزارت اقلیتی امور حج کارپوریشن قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لئے ملیشیا کے دبونگ حاجی جیسے اداروں کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ اب تک حکومت اسٹیٹ بنک کے ساتھ مل کر اس کام پر کافی پیسہ خرچ کر چکی ہے۔ ہم لوگوں نے بس اتنا کہا ہے کہ یہ اچھی کوشش ہے اسے مزید آگے بڑھایا جانا چاہیے۔

اس حج کارپوریشن کا کیا کام ہوگا؟

یہ کافی بڑا کام ہے۔ اس میں حج، عمرہ اور ایران، عراق، اردن اور شام وغیرہ کی زیارت شامل ہوگی۔ 1969 میں جو حج کمیٹی ایکٹ بنا تھا اس میں عمرہ اور زیارت کا سفر شامل تھا مگر بعد میں بہت ہوشیاری کے ساتھ اسے نکال دیا گیا۔ ہم لوگوں نے سفارش کی ہے کہ قانون میں ترمیم کر کے اسے دوبارہ جوڑا جائے۔

(شاہین نظر جدّہ سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ عرب نیوز میں سینئر ایڈیٹر رہ چکے ہیں)