اس مسئلہ میں مسلمانوں کے مذہبی پیشواؤں اور قابل ذکر تعلیمی اداروں اور بیشتر اردو اخبارات کو پہلے تحقیق کرنی چاہئے تھی کہ حج پالیسی میں اس استثنائی جواز سے آیا وہ متاثر ہو بھی رہے ہیں؟
مرکزی حج کمیٹی کی نئی حج پالیسی کی سفارشات مرتب کرنے والے مسلمانوں کے سربرآوردہ شخصیات ہیں ۔جیسے ہی حج پالیسی سامنے آئی اردو اخبارات میں مختلف مذہبی شخصیات اور قابل ذکر تعلیمی ادروں کی جانب سے ”شریعت میں مداخلت“کے تاثرات اور رد عمل سامنے آنے شروع ہو گئے۔ حتیٰ کہ بیشتر اردو اخبارات کے ادار یے بھی اس سلسلے میں لکھے گئے۔ وجہ یہ تھی کہ نئی حج پالیسی میں 45 سال سے زیادہ عمر کی خاتون کا حج میں جانے کیلئے محرم کی شرط کو استثنا قرار دیا گیاہے۔ بس اتنی سی بات کو مسئلہ بناکر نئی حج پالیسی کی دیگر سفارشات کو دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی ۔بعض مذہبی رہنماؤں کے علاوہ عالمی شہرت یافتہ تعلیمی ادارے بھی اس کو شریعت میں حکومت کی مداخلت ما ن کر اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنے لگے۔
حدیث کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہے کہ عورتوں کا بغیر محرم کسی بھی سفر کیلئے نکلنا ممنوع ہے ، اس میں سفر حج کی کوئی قید نہیں ہے۔ لیکن اردو اخبارات کے وہ مدیر حضرات جو اپنی عورتوں کو ملک کے مختلف ہوائی اڈوں سے اندرون اوربیرون ملک کے مختلف شہروں میں بغیر محرم کے سفر کرنے کو بلکہ مال اور شاپنگ میں جانے کی آزادی دی رکھی ہے ، وہ بھی نئی حج پالیسی میں ” شریعت میں مداخلت“ کا شور مچا رہے ہیں ۔ اس دوہرے معیار اور سوچ رکھنے والوں کیلئے اپنے رشتے داروں میں غیر محرم کو محرم بنانے کی حیلہ سازی تو گوارہ ہے لیکن شرط محرم کی کاغذی استثنائی پالیسی گوارہ نہیں۔
جہاں تک مسلمانان ہند کا تعلق ہے وہ اپنی عوتوں کو محرم کے ساتھ ہی سفر حج پر لے جاتے ہیں، سوائے اس مسلک اور انتہائی ضروری صورتحال کے جن کے یہاں بغیر محرم کے عورتوں کا سفر کرنے کا جواز موجود ہے ۔ پالیسی میں یہ شرط نہیں لگائی گئی اور نہ ہی مسلمانوں کو پابند کیا گیا ہے کہ عورتیں بنا محرم کے ہی سفر حج پر جائیں گی۔ مسلمان اپنی عورتوں کو بنا محرم کے اگر سفر حج پر نہیں بھیجنا چاہیں گے تو کیا حکومت انہیں مجبور کرے گی کہ نہیں عورت کو بغیر محرم کے جانا ہی ہوگا؟ یعنی کسی عدم جواز کو اپنے لئے جواز بنانا ہی ایک مسئلہ ہے جو اس وقت عاقبت نا اندیش لوگ اپنی جانوں پر مسلط کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں (انٹرویو) : حج میں محرم کے مسئلے پر تنازعہ غیر ضروری :افضل امان اللہ
اس مسئلہ میں مسلمانوں کے مذہبی پیشواؤں اور قابل ذکر تعلیمی اداروں اور بیشتر اردو اخبارات کو پہلے تحقیق کرنی چاہئے تھی کہ حج پالیسی میں اس استثنائی جواز سے آیا وہ متاثر ہو بھی رہے ہیں؟ بنا محرم کے جب عورتیں سفر حج کی عبادت کے مکلف ہی نہیں ، تو اس پر بحث اور حکومت کی مداخلت کا شور کیوں؟؟ شکر ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے طلا ق ثلاثہ کے معاملہ میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں ہزیمت کے بعد نئی حج پالیسی کے معاملہ میں ہوش کے ناخن لیا ہے۔ بورڈ کے سیکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی کا حج پالیسی پر مذہبی و ملی رہنماؤں اور دارالعلوموں کے ردعمل کے خلاف ان کا دوٹوک بیان سامنے آیا ہے کہ ” مسلک اجازت دیتا ہے تو بغیر محرم کے حج پر جائیں، اس موضوع پر زیادہ بحث یا وضاحت غیر ضروری ہے“۔ بالکل صحیح جس چیز کا جواز نہیں اس کوموضوع بحث بنا نے کا کوئی فائدہ نہیں۔
دراصل مسلمانان ہند کا اس وقت سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کے درمیان کوئی ایسا ادارہ نہیں جس کومسلمانو ں کے جملہ مسالک اور مکتب فکر کا اعتماد حاصل ہو۔ ایک آل انڈیا مسلم پر سنل لاءبورڈ تھا، لیکن اس نے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے نتیجہ میں اپنی معتبریت کو اپنے ہی ہاتھوں ملیا میٹ کر کے رکھ دیا۔ اب کسی بھی دانشمندانہ فکر یا تجویز کی مسلمانوں کے درمیان پذیرآئی یا قبولیت نہیں رہی۔ بلکہ اسے شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے جو یقینا افسوسناک صورتحال ہے اور بورڈ کے اغراض و مقاصد کو ایک بڑا دھچکا ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ جس نئی حج پالیسی کی سفارشات کو مرتب کرنے میں پرسنل لا بورڈ کے نمائندہ کمال فاروقی ، شمیم قیصر اور ریٹائرڈ آئی اے ایس افضل امان اللہ جیسی شخصیات مامور تھیں ان پر بھی مذہبی رہنماؤں اور تعلیمی اداروں کو اعتماد نہ رہا۔ واضح رہے کہ نئی پالیسی میں عورتوں کے سفر حج کیلئے بغیر محرم کی شرط لگائی گئی ہے اور نہ ہی مسلمانوں کو پابند یا مجبور کیا گیاہے۔
جب صورتحا ل شریعت کی حسب منشا ہے ، جس پر تمام مسلمان عمل پیرا ہیں ، تو اس کاغذی استثنائی پالیسی کے خلاف رد عمل ظاہر کر کے اس کی اہمیت بڑھانا دانشمندی نہیں ہے،بلکہ اندیشہ ہے کہ اس بحث سے کہیں میڈیا کو مسلم معاشرہ اور ان کے اسلامی شعائر کو ہدف تنقید بنانے کا موقع نہ مل جائے جیسا کہ طلاق ثلاثہ کے معاملہ میں دیکھا جاتا رہا ہے۔
ہر چند کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا ءبورڈ نے نئی حج پالیسی پر تاخیر سے سہی اپنا موقف ظاہر کیا ہے ۔ لیکن جیسا کہ کہا گیا کہ مسلمانوں کے مختلف قابل ذکر اداروں اور پیشواؤں کی جانب سے اس پر جو شکوک شبہات کھڑے کر دیئے گئے ہیں وہ بورڈ کو دور کرنے میں کیا اور کتنی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے یہ وقت بتائے گا۔
(تنویر احمد پیشے سے انجنیئر ہیں اور سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر