گوری لنکیش کے قتل کے بعد جن لوگوں نے ان کو کتیا بلایا اگر آپ ان جیسے لوگوں پر توجہ دینگے تو ان کو جگہ ملےگی یہی وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بارے میں گفتگو ہو۔
ایک اشتہار آتا ہےداغ اچھے ہیں،تو میرا ماننا ہے ٹرول اچھے ہیں۔ کیونکہ ٹرول کا اصلی مطلب کچھ اور ہے۔ ٹرول ایک گڑیا ہوتی ہے۔ جس کی ایجاد 1959 میں ایک ڈنمارک کے لکڑہارے نے کیا تھا۔ مانا جاتا ہے کہ اس گڑیا کے بال کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر اس گڑیا کے بال کو اپنے بال سے رگڑا جائے تو قسمت اچّھی ہوتی ہے۔ تو اس طرح سے ٹرول اچھے ہیں۔
آج جو ٹرولنگ سوشل میڈیا پر ہو رہی ہے اس کی ابتدا سوشل میڈیا کے ساتھ نہیں ہوئی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے 1992 میں، میں نے ایک پروگرام شروع کیا تھا ‘پرکھ’ نام کا، یہ پروگرام دوردرشن پر آتا تھا۔اس میں ہزاروں خطوط آتے تھے اور اس وقت ٹرول کیا تھا، ایک گروپ تھا۔ جو لال رنگکے بال پین سے صرف گالیاں لکھتا تھا۔ جن گالیوں کو آج سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کہتے ہیں وہ گالیاں تب پوسٹ کارڈ کے ذریعے آتی تھیں۔ اس میں دھمکیاں بھی ہوتی تھیں کہ تمہارے بچّوں اور فیملی کے ساتھ کچھ غلط کر دیا جائےگا۔ ہم نے کبھی ان کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ یہ بس چھوٹےچھوٹے منظم گروپ ہیں۔
آج کی سوشل میڈیا میں جو ٹرولنگ ہو رہی ہے اس کو بھی ہم سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔ ان کا کام بس بولنا ہے۔ آپ اکثر دیکھیںگے ان کے نام بھی صحیح نہیں ہوںگے، پروفائل بھی فرضی ہوگی۔ یہ چھپے ہوئے لوگ ہیں جو سامنے آکر بات نہیں کرتے۔ ان کو سنجیدگی سے لینا ہی نہیں ہے۔
میری جو فوٹو سونیا گاندھی کو گلال لگاتے ہوئے وائرل کی جاتی ہے بار بار، جس میں کہا گیا میں گلال لگا رہا ہوں۔ اصل میں وہ کے پی سنگھ تھے جو کہ کانگریس کے رہنما ہیں۔ ان کی فیملی میں بھی یہ مذاق چلتا ہے کہ ان کی شکل ونود دوا سے بہت ملتی ہے، یہ بات انہوں نے خود بتائی۔ان کے ساتھ کیپٹن پروین ڈاور کھڑے ہیں جو خود ایک سینئرکانگریسی رہنما ہیں۔ کےپی سنگھ تو بریگیڈیئر رہے ہیں، کیپٹن پروین ڈاور ٹینک ریجمنٹ کے کیپٹن رہے ہیں، وہ دونوں کھڑے ہیں اور گلال لگا رہیں ہے۔ بس ہمارے چہرے میں تھوڑی بہت مماثلت ہے۔
ہمیں معلوم ہے یہ سب کہاں سے شروع ہوا، کچھ لوگ ہیں جن کو مقبولیت اور تشہیر چاہیے ہوتی ہے۔ اس طرح کے لوگوں کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں ہے اور جب جب وہ فوٹو وائرل ہوئی ہم نے واضح کر دیا کہ وہ میں نہیں ہوں۔گوری لنکیش کے قتل کے بعد جن لوگوں نے ان کو کتیا بلایا اگر آپ ان جیسے لوگوں پر توجہ دینگے تو ان کو جگہ ملےگی یہی وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بارے میں گفتگو ہو۔ ان کی افادیت اسی سے بڑھتی ہے۔ ان کو کرنے دو وہ جو کر رہے ہیں۔
جو انسان اعتدال پسند اور سیکولر ہوگا جیسے میں خود ہوں وہ کبھی دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔ جن لوگوں نے ایسی تعلیم حاصل کی ہے جو ان کو الگ الگ لوگوں اور مدعوں کو سمجھنے کے لئے قابل بناتی ہے، وہ شخص دہشت گرد نہیں ہو سکتا ہے۔دہشت گرد صرف وہی ہوتا ہے جس کی سوچ بہت خطرناک ہوتی ہے جس کو خاص طور پر سمجھایا جاتا ہے کہ تاریخ کو کیسے سمجھنا ہے، کس طرح سوچنا ہے اورطرز زندگی کیسی ہونی چاہئیے جو ہمارے آباواجداد نے جی۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود سے الگ کچھ بھی دیکھتے ہیں فوراً بے چین ہو جاتے ہیں اور ڈرنے لگتے ہیں۔ ہمیں ان کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔
2014 تک جو حکومت رہی وہ کہنے کو بھی سیکولرتھی اور اپنے کاموں میں بھی اس طریقے سے کچھ نہیں کرتی تھی جیسا آج کل ہوتا ہے جس طرح حالیہ حکومت کے لوگ کرتے ہیں۔ کیونکہ دہشت گرد وہی ہوتا ہے جو اعتدال پسند نہیں ہوتا۔اگر میں کانگریس کے وزیر پر نشانہ سادھتا تھا اپنے پروگراموں میں، عوامی آواز سے لےکر پرکھ تک۔ اس وقت یہ مخالف پارٹیاں بہت خوش ہوتی تھیں اور مجھے ٹرول نہیں کرتی تھی۔ کانگریس والوں میں اتنی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ مجھے کچھ بولیں۔ جب میں نے رام جنم بھومی پر بولنا شروع کیا تب لال قلم والی اور گالیوں والی چٹھّیاں آنی شروع ہوئیں۔
میں نہیں مانتا کہ اصل سماج میں بھی زہر بھر چکا ہے۔ سوشل میڈیا نئےنئے لوگوں کے ہاتھ میں آئی ہے۔ میں 43 سالوں سے مین اسٹریم ٹیلی ویژن میں کام کر چکا ہوں۔ہم لوگ آزادی کے ساتھ ذمہ داری سے میڈیا کو سنبھالتے آئیں ہے۔ ہم جیسے لوگ چیختے چلّاتے نہیں ہیں۔ سنسنی نہیں پھیلاتے ہیں اور اشتہار بازی نہیں کرتے۔
سوشل میڈیا نیا نیا آیا ہے لوگ اس کا اپنے اپنے طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔ نئی نئی دوستیاں بنی ہیں۔ نئےنئے سیلف ہیلپ گروپ بنے ہیں۔ کلب کی طرح بھی اس کا استعمال ہوا ہے۔ جیسے مثال کے طور پر ساڑی گروپ ہے جس کی ممبر میری اہلیہ بھی ہیں۔ اس کے ہر شہر میں برانچ کھل گئے ہیں جس کے ذریعے ہاتھ سے بنے کپڑوں کو بڑھاوا دے سکیں۔
دوسرا استعمال سمجھیے جیسے بندر کے ہاتھ میں استرہ آ گیا ہے جس سے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے، سوشل میڈیا ان کے لئے ویسا ہی ہے۔کسی گھر میں صرف اس گھر کے مالک نہیں رہتے ہیں عموماً کیڑے، چیونٹیاں سب رہتے ہیں جن سے نمٹنے کے لئے آپ کبھی کبھار جراثیم کش اسپرے کرا دیتے ہیں۔ اکثر چھوڑ بھی دیتے ہیں کہ پڑے رہو اپنی جگہ پر۔
رہی بات فیملی کی تو میں نے کبھی فیملی کو اس میں شامل نہیں کیا ہماری فیملی میں سب کی اپنی زندگی ہے۔ فیملی کو کبھی ان سب سے کوئی فرق نہیں پڑا اور جہاں تک بات میرے پیشے کی ہے تو اس پر بھی کوئی فرق کبھی نہیں پڑا۔
یہ ٹرول کرنے والے لوگ پیچھے سے حملہ کرنے والے لوگ ہیں۔
(امت سنگھ سے بات چیت پر مبنی)