گریش کا سماجی تجربہ گلوبل سچائی سے ٹکراتا ہے۔
آج آپ کو ایک شخص سے ملوانا چاہتا ہوں۔ فلمساز گریش مکوانا۔ گریش نے انگریزی میں ایک فلم بنائی ہےدی کلر آف ڈارکنیس (The Colour of Darkness)اس فلم کا ڈائریکشن ، موسیقی، نغمہ نگاری اور اسکرپٹ نگاری گریش ہی کی ہے۔ گریش نے پولیو اور نسلی امتیاز کو جھیلا ہے۔ ان کی ذات کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ سماج کے ایک مغرور طبقہ نے ان کو اور ان کی فیملی کو طرح طرح کےطعنے دیے ہیں ان کو ستایاہے۔ گجرات کے ونکر سماج (ایس سی)سے آتے ہیں۔
گریش نے کہا کہ سماجی،نفسیاتی اور جسمانی طور پر اپنے معذورہونے کو جھیلا ہوں۔ گجرات کے ایک گاؤں سے نکلکر گریش نے گجرات میں مائکروبیایوجی کی پڑھائی کی۔ اس کے بعد بڑودا سے طبلہ میں ماسٹر کیا۔ پھر اسکالرشپ پر آسٹریلیا گئے اور وہاں میوزک پرفارمینس میں پی ایچ ڈی کی۔ آسٹریلیا میں ہندوستانی موسیقی کی خوب تشہیر کی ہے۔ پھر ان کا دل فلم کی طرف بڑھتا ہے تو فلم سازی اور ہدایت کاری کا کورس کرتے ہیں۔
2009-10 میں آسٹریلیا میں کچھ ہندوستانی طلبا کے خلاف تشدد ہوتا ہے۔ اس تشدد کی تفتیش میں گریش وہاں کے سماج میں پائی جانے والی نسل پرستی کی جڑوں کو ٹٹولتے ہوئے فلم لکھنے لگتے ہیں۔ وہاں کی کہانی میں ان کو اپنی کہانی یاد آنے لگتی ہے۔ سنی اور دیکھی ہوئی اصلیت۔ کیسے اندھیرے کا فائدہ اٹھاکر اونچی ذات کے لوگوں نے لاٹھیوں سے گھر والوں کی پٹائی کی تھی۔ نسل پرستی پر بن رہی فلم نسلی امتیاز کو بھی سمیٹ لیتی ہے۔ کہانی گجرات سے لےکر میلبرن کی ہو جاتی ہے۔
آپ اس شخص سے ملیے۔ موسیقی میں مہارت حاصل ہے۔ ان کے کمپوزیشن اور ڈائریکشن سے آپ حیران ہو جائیںگے۔ زندگی میں اتنی تلخی جھیلنے کے بعد بھی فلم کے نغموں میں اتنا پیار ہے کہ اس کو یو ٹیوب اور ساون پر سنکر آپ کی دیوالی مبارک ہو جائےگی۔ نغموں کی شوٹنگ کا بھی قصّہ ہے۔ اے آر رحمن کے اسٹڈیو کا خرچ نہیں اٹھا سکے تو احمد آباد میں سازندوں کو جٹاکر موسیقی تیار کر لی۔ فلم ریلیز ہو گئی ہے۔ گجرات اور ممبئی کے تین سینما گھروں میں لگی ہے۔ جے پور میں بھی لگی ہے۔ باقی جگہ تھیٹرنہیں مل رہا ہے۔
خوددار ہدایت کار ہیں۔ چھوا چھوت جھیلا ہے،اس لئے اچھوت لفظ ہٹا دینے کے سینسر بورڈ کی درخواست کو ٹھکرا دیا۔ فلم انگریزی میں ہے۔ بیس فیصد گجراتی۔ ایپروڈیوسر لارین کا بھی شکریہ جنہوں نےاتنی فیاضی سے پورا نغمہ ہمیں شو کے لئے دے دیا۔ اتنا خوبصورت اور کلاسیکی گانا شاید ہی کوئی پروڈیوسر کسی چینل کو دیتا ہوگا۔ میرے حساب سے یہ اس سال کا بہترین نغمہ ہے۔ نغمے ہندی میں ہیں۔ لارین سے بات ہوئی۔ گریش کی موسیقی میں صلاحیت نے ان کو یقین دلا دیا کہ ان کی کہانی کے پیچھے چلنا چاہیے۔ وہ ہندوستان تک آ گئی ہیں اور نسلی تشدد کو سمجھ رہی ہیں۔
سیراٹ کے ناگ راج منجولے کا اپنا سماجی تجربہ ان کی فلموں میں آتا ہے۔ گریش کا سماجی تجربہ گلوبل سچائی سے ٹکراتا ہے۔ فلم سازی کے معاملے میں بالی ووڈ کے موجودہ تمام فلمسازوں سے سو میل آگے ہیں۔ تب بھی آپ کو کسی میڈیا میں گریش مکوانا پر ایک ڈھنگ کا مضمون نہیں ملےگا۔
2014 میں میلبرن میں گریش مکوانا کی صلاحیت سے متاثر امیتابھ بچن نے ان کو گلے لگا لیا تھا۔
(بہ شکریہ نئی سڑک )
Categories: ادبستان