حقوق انسانی

جھارکھنڈ : انصاف کے لئے بھٹکتی ایک آدیواسی خاتون کی داستان

 جس مڈھ بھیڑ میں پولیس سیکڑوں گولیاں چلانے کا دعویٰ کر رہی ہے، اس میں اکیلا موتی لال ہی کیوں مارا گیا۔

Jharkhand_MotiLalBaskeجھارکھنڈ کے ایک دوردراز گاؤں کی نہایت بےبس قبائلی خاتون پاروتی مرمو کی آنکھوں میں آنسو بھلےہی سوکھ گئے ہوں، لیکن چہرے پر غم اور غصہ ہے۔ اس خاتون کا دکھ یہ ہے کہ پولیس نے ان کے مزدور شوہر موتی لال باسکے کو نکسلی بتاکر کیوں مارا۔ ان کو اپنے شوہر کی موت پر انصاف چاہیے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے معصوم بچّوں کے ساتھ پچھلے چار مہینے سے جاری تحریکوں میں شرکت کر رہی ہے۔ پاروتی مرمو کو یقین اس بات کا ہے کہ بڑی تعداد میں آدیواسی، کسان، مزدور، عوامی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے لوگ اس لڑائی میں شامل ہیں۔

پچھلے 9جون کو جھارکھنڈ میں گریڈیہہ ضلع واقع پارسناتھ پہاڑی پر پولیس اور نکسلی کے درمیان مبینہ تصادم میں اکیلے موتی لال باسکے مارے گئے تھے۔یہ جگہ جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی سے قریب دو سو کلومیٹر دور ہے۔ موتی لال اسی علاقے میں ڈھولکٹّا گاؤں کے رہنے والے ہیں اور جینیوں کے مشہور تیرتھ مقام پارسناتھ (کویل) میں مزدوری کرنے کے ساتھ چاول ، دال اور ستّو کی دوکان چلاتے تھے۔

اس لئے مقامی لوگوں کو پولیس کے ساتھ تصادم کے دعویٰ پر یقین نہیں ہے۔ آدیواسی، مزدور اور سماجی تنظیموں کے ساتھ مختلف سیاسی جماعتوں کا الزام ہے کہ پولیس نے ایک بےقصور آدیواسی کو نکسلی بتاکر مارا ہے۔لہذا اس واقعہ کے خلاف پچھلے چار مہینے سے پورا علاقہ احتجاج کی آنچ میں تپ رہا ہے۔ لوگوں نے باقاعدہ ظلم مخالف مورچے کی تشکیل بھی کی ہے۔

اسی تحریک کے سلسلے میں گریڈیہہ کی پہاڑیوں سے چل‌کر پاروتی مرمو، ظلم مخالف مورچہ اور آدیواسی مزدور تنظیموں کے ساتھ 9 اکتوبر کو جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی پہنچی تھیں۔ وہ لوگ رانچی میں شاہی محل کے سامنے دھرنا پر بیٹھے تھے۔

ظلم مخالف مورچہ اور پاروتی مرمو نے اعلان کر رکھا تھا کہ یہ دھرنا غیرمعینہ مدت ہوگا۔ لہذا کچھ ہی گھنٹوں میں بڑی تعداد میں پولیس وہاں پر پہنچی اور تمام لوگوں کو اس بات پر ہٹایا گیا کہ ان لوگوں نے دھرنا دینے کا سرکاری حکم حاصل نہیں کیا ہے۔پاروتی مرمو مقامی زبان میں پوچھتی ہے، ‘ہر دن جو آدمی پریوار چلانے کی خاطر ہزاروں لوگوں کے درمیان یومیہ کھٹتا تھا، وہ نکسلی کیسے ہو گیا۔ ‘ تین بچّوں اور ان کی بوڑھی ساس کی پرورش کون کرے‌گا، کیا پولیس کے پاس اس کے جواب ہیں؟

گریڈیہ ضلع میں پیرٹانڈ بلاک کے سربراہ سکندر ہینبرم بھی اس لڑائی میں شامل ہیں۔ وہ کہتے ہے، ‘سوال سیدھے سادے آدیواسیوں پر ظلم کا ہے۔ اسی کے خلاف آدیواسی متحد ہو رہے ہیں۔ ‘ہینبرم کا کہنا ہے کہ وہ ایک ذمہ دار پنچایتی نمائندہ ہیں اور اس معاملے میں حقیقت کی انھیں جانکاری بھی ہے۔ موتی لال اپنے گھر سے اسی پہاڑی کے راستے مدھوبن واقع چندرپربھو مندر کی طرف جاتا تھا، جہاں اس کی دکان ہے۔ جب وہ مارا گیا، تو لنگی اور ایک معمولی گنجی پہنے ہوئے تھا۔

تیرتھ یاتری کو ڈولی پر ڈھونے کی وجہ سے اس کے کندھے اور ہتھیلیوں میں گانٹھیں پڑ گئی تھیں۔ کام کم پڑنے پر ستّو اور دال چاول بھی بیچتا تھا۔ آدیواسی اسی بات پر بھی پُرجوش ہیں کہ زندگی کی ان مشکلات میں روزانہ شامل رہنے کے بعد موتی لال باسکے، ہتھیاربند دستے کا مردار ممبر کب اور کیسے ہو گیا۔تحریکات کے بعد بھی اس معاملے میں حکومت یا انتظامی سطح پر کوئی بھروسہ ملتا نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ اس سوال پر ہینبرم کہتے ہیں کہ جب ریاست کی پولیس ڈائریکٹر جنرل واقعہ کے اگلے دن یہاں آکر تصادم میں شامل پولیس والوں کو انعام دینے کے ساتھ چنگھاڑتے ہیں کہ نکسلی کو چن چن کر مارو، تو ظاہر ہے یہ معاملہ ہمارے لئے زخم، جبکہ پولیس محکمہ کے لئے جشن جیسا ہے۔

ہینبرم کا زور ہے کہ قبائلی سماج اور عوامی تنظیم اس معاملے میں پولیس کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرتے ہوئے عدالتی تفتیش کی مانگ کرتے رہے ہیں۔ ساتھ ہی عوامی شنوائی بھی ہو، تاکہ گاؤں کے لوگ اپنی بات کھل‌کر رکھ سکیں۔ظلم مخالف مورچہ سے جڑے دامودر تری کہتے ہیں کہ حالات پر غور کیجئے۔ گاؤں گراؤ سے لوگ جُٹتے ہیں۔ چوڑا ، چنا، ستّو اور روٹی کی پوٹلی باندھے دو سو کلومیٹر کا سفر طے کر کے آواز بلند کرنے کے لئے راجدھانی پہنچتے ہیں اور پولیس ان کو حراست میں لےکر لوٹنے کو مجبور کرتی ہے۔ راستے میں بھی کچھ لوگوں کو روکا جاتا ہے۔

جبکہ اسی معاملے میں کوآڈیشن  آف ڈیموکریٹک آرگینائزیشن کی ٹیم بھی جائزہ لینے ڈھولکٹّا گاؤں آ چکی ہے۔توری کے مطابق گریڈیہہ ضلع کے افسروں سے ان لوگوں  نے گزارش کی تھی کہ وزیراعظم رہائشی اسکیم (پردھان منتری آواس یوجنا) کی پوری رقم باسکے کی بیوی کے نام مختص کی جائے، تاکہ غریب کا گھر بن جائے، لیکن کچھ نہیں ہوا۔ البتہ مخالفت، مظاہرہ سے نمٹنے میں پولیس لگاتار طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔

مدھوبن مندر میں مزدوروں کی تنظیم ہے اور اس سے ہزاروں لوگ جڑے ہیں۔ اس تنظیم کے جنرل سیکریٹری بچّا سنگھ کا کہنا ہے کہ موتی لال باسکے بھی رجسٹرڈ ڈولی مزدور تھا۔ حیرت اس بات کی ہے کہ اس کے خلاف کوئی نکسلی رکارڈ پولیس کے پاس نہیں ہےاسی معاملے پر پچھلے مہینے حزب مخالف جماعت کے جھارکھنڈ مُکتی مورچہ کے سربراہ کے علاوہ دیگر جماعتوں اور تنظیموں کی پیرٹانڈ میں بڑا جلسہ ہوا تھا۔ اس میں گاؤں کے ہزاروں لوگ جمع ہوئے تھے۔

اس سے پہلے سابق وزیراعلیٰ شیبو سورین اور ہیمنت سورین بھی اس معاملے میں سوال کھڑے کر چکے ہیں۔ بھاکپا مالے نے کئی جگہوں پر احتجاجی مارچ نکالا ہے۔آجسو پارٹی کے ایم ایل اے رام چندر سہس بھی واقعہ کا سچ جاننے ڈھولکٹّا گاؤں جا چکے ہیں۔ پارٹی کی طرف سے انہوں نے پاروتی مرمو کو پچاس ہزار کی مدد کی ہے۔سابق وزیراعلیٰ بابولال مرانڈی کہتے ہیں کہ بی جے پی کی حکومت میں جگہ جگہ لوگ زمین، ظلم، نقل مکانی، منتقلی، پولیس فائرنگ کے سوال پر لڑ رہے ہیں، لیکن کسی معاملے میں سماعت نہیں ہوتی۔ لیکن ہماری لڑائی جاری رہے‌گی۔

Motilal-Baske

جھارکھنڈ مُکتی مورچہ کے رکن پارلیمنٹ وجے ہانسدا کہتے ہیں کہ آدیواسی، دلت، غریب، مزدور پر لگاتار ظلم ہو رہے ہیں اور اس سے لوگوں میں غصہ ہے۔ جبکہ پولیس کئی قسم کی کہانی گڑھ‌کر حکومت سے واہ واہی بٹورتی رہی ہے۔جبکہ اسی جماعت کے سینئر ایم ایل اے اسٹیفن مرانڈی کا ماننا ہے کہ یہ لڑائی پولیس کی غلط کارروائی اور حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہے۔ اس لئے انصاف آسانی سے نہیں ملنے والا۔

اس بیچ پاروتی مرمو کو بطور مدد ماسس کے ایم ایل اے نے اپنے ایک مہینے کی تنخواہ بھی دئے ہیں۔ ساتھ ہی مزدور تنظیم نے بھی کچھ ہزار روپیے دئے ہیں انہی پیسے سے وہ فی الحال اپنا گھر چلا رہی ہے۔ماسس کے ایم ایل اے اروپ چٹرجی کا کہنا ہے کہ عوام میں پیدا ہوئی بھاری غصہ اس کی بات کا ثبوت  ہے کہ یہ ایک آدیواسی کی موت کا نہیں، تصادم کے سچ اور جھوٹ کا سوال ہے۔

گریڈیہ ضلع کے سینئر جے ایم ایم رہنما سدویہ کمار سونو اس واقعہ کے فوراً بعد موتی لال باسکے کے گاؤں پہنچے تھے۔وہ بتاتے ہیں کہ پاروتی باسکے کی درخواست کو ان لوگوں نے قومی انسانی حقوق کمیشن کے پاس بھیجا ہے، جس میں انصاف کی دہائی لگائی ہے۔

کمیشن نے پچھلے 12 جولائی کو اس درخواست کے مل جانے کی اطلاع کے ساتھ اس کی ڈائری نمبر 105868/سی آر / 2017 بتایا ہے۔ لیکن اس معاملے میں کسی قسم کی کارروائی کی جانکاری ان لوگوں کو نہیں ملی ہے، لہذا سب کی نظریں کمیشن پر ہے۔ ادھر ریاست انسانی حقوق کمیشن سے کئی دفعہ رابطہ کرنے کے بعد بھی اس معاملے میں کوئی جانکاری نہیں مل سکی۔

غور طلب ہے کہ سرکاری ملازم نے موتی لال کے نام پر وزیر اعظم رہائشی اسکیم (پردھان منتری آواس یوجنا ) کی منظوری بھی دی تھی۔ جے ایم ایم رہنما سدویہ سونو دستاویز دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ موتی لال نے بطور سرکاری مدد پہلی قسط میں 26 ہزار روپے بھی بینک سے نکالے ہیں۔وہ سوال کرتے ہیں کہ ایک نکسلی کے نام اسکیم منظور ہو اور وہ پیسے نکالنے بینک جائے، پھر بھی سرکاری ملازم کو کچھ پتہ نہیں چلے، تو ان کا اطلاعاتی نظام کیسا ہے۔پھر جس مڈھ بھیڑ میں پولیس سیکڑوں گولیاں چلانے کا دعویٰ کر رہی ہے، تو اکیلا موتی لال ہی کیوں مارا گیا۔

اس معاملے میں اتّری چھوٹاناگپور علاقے کے ڈی آئی جی بھینسین ٹوٹی بتاتے ہیں کہ اس تصادم کو لےکر قومی انسانی حقوق کمیشن کے گائڈلائن کے تحت تفتیش کرائی گئی ہے۔ ساتھ ہی سی آئی ڈی تفتیش کا حکم بھی جاری ہو گیا ہے۔افسر کے مطابق پولیس نے ایک گھنٹے تک قریب ساڑھے سات سو گولیاں چلائی ہے، ظاہر ہے تصادم خطرناک تھا۔ اس تصادم میں ایک اور نکسلی کے مارے جانے کا خدشہ ہے، جس کی لاش پولیس بر آمد نہیں کر سکی۔

لیکن متاثرہ پریوار اور تحریک کرنے والوں کا زور اس بات پر ہے کہ موتی لال کے نکسلی ہونے کا کوئی رکارڈ نہیں رہا ہے اور وہ نہایت غریب مزدور تھا، اس پر پولیس کے اعلٰی افسر کا کہنا ہے کہ کئی معاملات میں یہ حقیقت سامنے آتی رہی ہیں کہ معاملہ درج نہیں ہونے پر بھی کئی لوگ نکسلی سرگرمیوں میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ پھر مردہ کے سامنے سے پولیس کی لوٹی گئی ایک رائفل، گولیاں سمیت کئی چیزیں بھی بر آمد ہوئی ہے۔

آدیواسی تنظیم سانوتا سسار بیسی کے بدھن ہینبرم کہتے ہیں کہ ان دعووں پر وہ لوگ اتفاق نہیں رکھتے۔ اسی قبائلی سماج کے ذریعے پچھلے فروری مہینے میں ‘ برانڈ باہا پوروب ‘ تقریب کے انعقاد میں گورنر دروپدی مرمو نے شرکت کی تھی اور اس پروگرام کے انعقاد میں موتی لال باسکے بھی شامل تھے۔ ان کے سوال ہیں کہ کیا پولیسیا اطلاعاتی نظام کو تب بھی پتہ نہیں چلا کہ پروگرام میں نکسلی جٹے ہیں۔

(مضمون نگار فری لانس جرنلسٹ  ہیں اور جھارکھنڈ میں رہتے ہیں)