اس طرح کی غلطیاں کرن بیدی سے پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔لوگوں کو یاد ہوگا کہ انہوں نے فوٹو شاپ کی گئی تصویروں کو اسی سال 27 جنوری کو ٹوئٹ کیا تھا ۔
گزشتہ ہفتے کی اہم فیک نیوز آئینی عہدے پر فائز ایک شخصیت سے تعلّق رکھتی ہے۔ پْڈو چیری کی لیفٹننٹ گورنر کرن بیدی نے 19اکتوبر کو ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا ،جس میں انہوں نے 97 سالہ ضعیف خاتون کی رقص کرتی ہوئی ویڈیوکے بارے میں یہ بتایا کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کی والدہ ہیں، جو دیوالی کے موقع پر مذہبی عقیدت سے ‘گربا’کر رہی ہیں ۔ ویڈیو میں جس طرح وہ ضعیفہ رقص کرتی ہوئی نظر آتی ہے، وہ اپنے آپ میں حیران کر دینے والی ہے ،کیونکہ عمر کے آخری پڑاؤ میں جب انسان میں اٹھنےبیٹھنے کی طاقت نہیں ہوتی ہے، اس پڑا ؤ میں وہ رقص کر رہی ہیں۔ سوشل میڈیا ہوَش سلیرٴ کی تفتیش کے مطابق یہ ویڈیو اسی سال 3 اکتوبر کو اپلوڈ کیا گیا تھا، اور وہاٹس اپپ پر بھی وائرل ہوا تھا۔ اس میں دلچسپ موڑ اس وقت آیا جب کرن بیدی نے اس ویڈیوکو ٹوئٹر پر یہ کہہ کر اپلوڈ کیا کہ رقص کرتی ضعیفہ نریندرمودی کی ماں ہیں۔ حالانکہ بعد میں کرن بیدی کو ایک دوسرے ٹوئٹ کے ذریعہ اپنی غلطی قبول کرنی پڑی ۔ اس طرح کی غلطیاں کرن بیدی سے پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔لوگوں کو یاد ہوگا کہ انہوں نے فوٹو شاپ کی گئی تصویروں کو اسی سال 27 جنوری کو ٹوئٹ کیا تھا ۔
دوسری اہم فیک نیوز کا تعلّق اس تصویر سے ہے جسکو سپریم کورٹ کے جج جسٹس سیکری کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ واضح ہو کہ گزشتہ ہفتہ جسٹس سیکری نےدہلی میں دیوالی کے دوران پٹاخے اور آتش بازی کے دوسرے سامان پر پابندی لگا دی تھی ۔ اس پابندی سے ناراض لوگوں نے جسٹس سیکری کو اس تصویر سے بدنام کیا جس کا استعمال پہلے سینئر صحافی ونود دوا کو بدنام کرنے کے لئے کیا جا چکا ہے۔ تصویر میں ایک شخص کانگریس صدر سونیا گاندھی کے ساتھ ہولی کھیل رہے ہیں ۔لیکن سوشل میڈیا پر بتایا گیا کہ یہ جسٹس سیکری ہیں اور آتش با زی پر پابندی لگا نے کا سبب ان کی کانگریس لیڈران سے نزدیکیاں ہیں !ایسا ہی الزام ونود دوا پر بھی لگایا جاتا رہا ہے۔ سوشل میڈیا ہوَش سلیر ٴ نے واضح کیا کہ وہ تصویر 2008 کی ہے اور سونیا گاندھی کے ساتھ ہولی کھیلنے والے شخص سیاسی رہنما کےپی سنگھ دیو ہیں ۔ اس طرح واضح ہوا کہ وہ نہ تو جسٹس سیکری ہیں اور نہ سینئر صحافی ونود دوا !
جہاں تک روہنگیا پناہ گزینوں کی بات ہے، گزشتہ ہفتے بھی ان کو فیک نیوز نے نشانہ بنا لیا اور اس بار اے این آئی ایجنسی اسی طرح صحافت کے اصولوں سے بھٹک گئی، جس طرح ممبئی بھگدڑ میں دی ہندو کے صحافی !اے این آئی نے اپنی نیوز میں دعویٰ کیا کہ روہنگیا پناہ گزیں جلد ہی ہندوستانی ریاست ناگالینڈ پر حملہ کرنے والے ہیں الٹ نیوز کے صحافی پرتیک سنہا نے جب اے این آئی سے معاملے پر وضاحت طلب کی تو اے این آئی کے مدیر اسمتا پرکاش نے اسکو ایک کاپی ایڈیٹر کی غلطی بتایا اور نیوز کو واپس لے لیا گیا۔ اس خبر کو اے این آئی نے ڈیلیٹ کر دیا لیکن اس سے پہلے ہی پوسٹ کارڈ نیوز اور انڈیا ٹائمز نے اسے اپنی سائٹ پر شا ئع کر دیا جس کو ٹوئٹر پر خوب پھیلایا گیا !اس کے علاوہ الٹ نیوز کی تفتیش میں معلوم ہوا کہ کسی وہاٹس اپپ گروپ پر یہ فرضی خبر وائرل کی گئی تھی جسے اے این آئی نے اپنی سائٹ پر استعمال کیا !
اگلی فیک نیوز بھی ایک میڈیا ہا ؤس سے تعلّق رکھتی ہے۔ ری پبلک ٹی وی نے دن میں دو بار فیک نیوز کرنے کا یہ کارنامہ انجام دیا ! 16 اکتوبر کو ری پبلک ٹی وی کے آفیشل ٹوئٹر پر ایک تصویر ٹوئٹ کی گئی،جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نےہی سب سے پہلےیہ Exclusive جاری کی ہے۔اس تصویر میں جیش محمد نام کی دہشت گرد تنظیم کے دو دہشت گردوں کی شناخت کی جا چکی ہے۔ ری پبلک نے جو تصویر اپلوڈ کی تھی اس میں انہوں نے اپنا واٹر مارک بھی لگا دیا !
حالانکہ الٹ نیوز کے معاون بانی پرتیک سنہا نے اپنے ٹوئٹ کے ذریعہ واضح کیا کہ وہ تصویر کسی بھی اعتبار سے نئی نہیں ہے اور ری پبلک کی اس خبر میں کچھ بھی Exclusiveنہیں ہے۔ایک دوسری ویب سائٹ پترکا نیوز نے اسی تصویر کو تقریباً ایک مہینہ پہلے پوسٹ کیا تھا۔ ری پبلک ٹی وی نے کچھ ہی گھنٹوں میں اس ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کر دیا ،لیکن ابھی تک معافی نہیں مانگی ہے !
اسی دن ری پبلک ٹی وی نے دوسری فیک نیوز ٹوئٹر اور اپنی ویب سائٹ پر شایع کی اور اس بار پاکستان کے سابق کرکٹر اور سیاسی رہنما عمران خان ری پبلک کے نشانے پر تھے۔ ری پبلک نے دعویٰ کیا کہ آسٹریلیا کی ماڈل لارا وردنگٹن(Lara Worthington) جن کا خاندانی نام لارا بنگل (Lara Bingle)رہا ہے، ان کو عمران خان نے جنسی طور پر ہراساں کیا ہے ! دی قوئنٹ نے بھی اس طرح کی ا سٹوری کو اپنی ویب سائٹ پر شا یع کیا !
اس معاملے میں حقیقت یہ تھی کہ جس ٹوئٹ کا سہارا لے کر ری پبلک نے دعویٰ کیا تھا وہ دراصل ایک جعلی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کیا گیا تھا، جس کے پانچ ہزار فا لور ہیں، جبکہ لارا وردنگٹن(Lara Worthington) کے ٹوئٹر پر تقریبا ً ایک لاکھ تیس ہزار فا لور ہیں اور اس ٹوئٹر اکاؤنٹ کو نیلے نشان کی سند بھی ملی ہوئی ہے۔جس ٹوئٹر سے عمران خان کے خلاف فیک نیوز جاری کی گئی اسکو اب سسپنڈ کر دیا گیا ہے اور ری پبلک نے اپنی نیوز کو بھی ہٹا لیا ہے جو آرکائیوز میں یہاں موجود ہے۔
گزشتہ ہفتے کی چھٹی اہم فیک نیوز وزیر اعظم نریندر مودی سے تعلّق رکھتی ہے۔ سوشل میڈیا پر مودی کے خلاف یہ پھیلایا گیا کہ 1973میں گجرات کا واد نگرا سٹیشن شرو ع ہوا تھا اور مودی کی پیدائش1950 میں ہوئی۔ یعنی مودی پہلے پیدا ہو چکے تھے اور اسٹیشن بعد میں شروع ہوا ۔ تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ مودی نے 6سال کی عمر میں اس اسٹیشن پر چاےٴ بیچی ہوگی !
یہ پتا لگانا کہ مودی نے چاےٴ بیچی ہے یا نہیں ، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اس فیک نیوز میں جو اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ وادنگر کی ریل لائن انگریزوں کے زمانے میں ہی 1887میں شروع ہو چکی تھی ۔بوم لائیو نے اپنی تفتیش میں ان دستاویزوں کو عام کیا جو اس بات کی سند ہیں کہ واد نگر میں ریل خدمات 1887 سے ہی موجود ہیں ۔
(مضمون نگار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں پبلک ایڈمنسٹریشن کے موضوع پر تحقیق کر رہے ہیں،اورعوام انڈیاکے بانی مدیر ہیں۔)
Categories: خبریں