آج میں ہر بدیسی حکومت کو برا سمجھتا ہوں اور ساتھ ہی ہندوستان کی ایسی غیر جمہوری حکومت کو بھی جس میں کمزوروں کا حق حق نہ سمجھا جائے یا جو حکومت سرمایہ داروں اور زمینداروں کے دماغوں کا نتیجہ ہو، یا جس میں مزدوروں اور کسانوں کا مساوی حصہ نہ ہو ، یا باہم امتیاز و تفریق رکھ کر حکومت کے قوانین بنائے جائیں ۔
جب یورپ کی فضا پر ہلال کے ارد گرد عیسائیت کا طوفان اٹھ رہا تھا ۔ جب خلافت کے جھنڈے کو سر نگوں کرنے کے لیے یورپ کے تثلیث پرست جمع ہو رہے تھے۔ جب آل عثمان کے کمزور و نحیف جسم کے چاروں طرف عیسائی زاغ وزغن مجتمع ہو رہے تھے ۔ جب یوروپی چودھری کبھی آرمینیا کو اور کبھی بلغاریا اور سر ویا والوں کو اٹلی کے ذریعے سامان حرب پہنچا پہنچا کر اشتعال دلا رہا تھا کہ جو پاؤ لے لو ، جو ملے اسے نہ چھوڑو، معصوم ترکوں کا خون تمہارے لیے حلال ہے ۔ اٹلی طرابلس کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے ، وہاں روزانہ نت نئے مظالم ڈھائے جانے لگے ہیں ۔
اس وقت ایک درد بھرے دل کی پکارساحل مغرب سے بلند ہوتی ہے اور جب وہ ہمالیہ کی بلند دیواروں سے ٹکراتی ہے تو اس کی آواز کی بازگشت ہندوستان میں سنائی دیتی ہے ۔ محض وادی نیل کے مسلمان ہی اس سے بے چین نہیں ہوتے، بلکہ گنگ و جمن کے دو آبہ کے کلمہ گو مسلمان بھی اور بلاد ہند کے کلمہٴ لاالہ الاللہُ پڑھنے والے بھی متحیر رہ جاتے ہیں کہ یہ آواز تو ہم جیسی ہے صرف لہجہ دوسرا ہے ، غرضے کہ وہ بھی لبیک کہتے ہیں اور خدا کے شیر یہاں بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر وہاں انور بے اور شکری پاشادست ِ حق پرست میں تلوار لے کر میدان میں کو د پڑتے ہیں تو ادھر بھی اہل دل گردن میں جھولیاں ڈال کر بھیک مانگنے کے لیے نکل پڑتے ہیں ، در در پھرتے ہیں اور روپیہ سے ان کا خزانہ پُر کر دیتے ہیں۔ یوں باہمی اخوت اور اتحاد اسلامی کی بنیاد پڑ جاتی ہے اور بھولا ہوا وعدہ یاد آ جاتاہے، کھوئی ہوئی منزل دکھائی دینے لگتی ہے، بھائی بھائی ملتے ہیں، پروپیگنڈا ہوتا ہے، جس کا اثر نوجوان مسلمانوں پر پڑتا ہے اور وہ یہ عزم لے کر اٹھتے ہیں کہ اٹلی ، جو اس وقت مسلمانوں کا سخت ترین دشمن تھا ، کا مال جلا دیا جائے۔
ترکی خواتین کی حب الوطنی، نوجوان ترکوں کی سرفروشیوں اور طلبہ کی قربانیوں کی ولولہ انگیز داستانیں میرے اندر ایک نئی اسپرٹ پیدا کر دیتی ہیں ۔ میری والدہ جو باقاعدہ تعلیم یافتہ ہیں ، اخبار کی مستقل خریدار بن گئیں اور اس طرح میں بھی اخبار پڑھنے لگا ۔اس وقت میری سمجھ میں آیا کہ مسلمان اور بھی کہیں ہیں ۔ کیوں کہ اس وقت میں جغرافیہ سے نا واقف تھا اور ہندوستان ہی کو مکمل دنیا سمجھتا تھا جیسے مینڈک کنوئیں ہی کو ساری دنیا سمجھتا ہے۔
میں چوں کہ پٹھان تھا اور یہ قوم عام طور پر جاہل خیال کی جاتی ہے گو میں (بحمد اللہ ) اب ایسا نہیں ہوں ، ان خیالات میں ڈوب گیا اور روزوشب یہی دعا کرتا کہ ترک ہندوستان کو فتح کر لیں اور یہاں بادشاہ بن جائیں۔ ہم خلیفہٴ وقت کی رعایا بن جائیں گے اور اگر افغانستان نے حکومت قائم کر لی تو بھی کیا ہے ، ہم پھر بھی حقدار ہیں ، انگریزوں سے نفرت پیدا ہو گئی ۔ میرا تو یہ خیال تھا کہ یہی بانی فساد ہیں اور ان کی حکومت نیست و نابود ہو جانی چاہیے۔ اور یہ اس طرح ہو کہ افغانستان یا ترکی کے لوگ حملہ کر دیں اور ہم بغاوت کر یں۔انگریزوں کی سلطنت درہم برہم ہو جائے ۔ ہم بجائے عیسائیوں کی رعایا کے مسلمانوں ہی کی رعایا بن جائیں ۔ ممکن ہے بعض ہندوؤں کے خیالات بھی ایسے ہی ہوں کہ چین یا جاپان میں سے کوئی ایک یہاں آ جائے تو بہت اچھا ہو ۔ اگرچہ بنگال میں قربان گاہِ وطن پر قربانیاں چڑھائی جانی شروع ہو گئی تھیں ، جس کے قصے میں سنا کرتا تھا۔ مگر ویسی ہی رنگ آمیزی کے ساتھ جیسے کہ ہمارے قصے اور ہمارے کیس کے واقعات دوسروں کی زبانوں پر آج ہیں۔
ویڈیو:شہید اشفاق اللہ خاں کی زبانی انقلاب کی کہانی
بہر حال میرا اس وقت کا یہ خیال آج مجھے بہت ذلیل معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک کا حلقہٴ غلامی اتار کر دوسرے کی غلامی کا جوا پنے کندھوں پر رکھنے میں مسرت سی محسوس کرتے تھے۔ خیر وہ میری نا سمجھی کا زمانہ تھا ۔ ہاں میرا خیال اس زمانے میں ہندوؤں کے بہت خلاف تھااور بعد کو اس میں اور اضافہ ہو گیا۔ کیوں کہ ہمارے کرم فرما ایک ماسٹر صاحب تھے جن کا اگر میں نام لوں گا تو ان کو مفت میں شرمندگی اٹھانی پڑے گی ۔ وہ میرے اس وقت ماسٹر تھے جب میں گورنمنٹ اسکول میں پڑھتا تھا۔ وہ ہندو مسلم میں بہت امتیاز کرتے تھے ۔ اب میں کہوں کہ استاد کا یہ طریقہٴ کار کمینہ پن ہے اور فی الحقیقت اسی قسم کے لوگ ملک و وطن کے دشمن ہیں ۔ مگر آج میرا دل ایک ہندو کے لیے بھی ایسا ہی کشادہ ہے جیسا کہ ایک مسلمان کے لیے۔ خیر اس وقت کے لیڈر آج بھی اتحاد اسلامی پر عمل کرتے ہیں گو کہ ایک حد تک میں بھی ان سے اتفاق کرتا ہوں ، بھائی سمجھنے میں کوئی نقصان نہیں ، مدد کرنا ہمارا فرض ہے ۔کیوں کہ ہم فیاض ملک کے فیاض باشندے ہیں لیکن کسی کی حکومت اپنے اوپر مسلط کر لینا پست ہمتی اور بد بختی کی بات ہے۔ یہ کسی طرح ہمارے شایانِ شان نہیں!
دنیا میں انقلاب و تغیرات کتنی تیزی سے ہواکرتے ہیں ، کل میں کیا تھا اور آج کیا ہوں؛ کل میں ترکوں کی حکومت اپنے اوپر باعثِ صد نازو افتخار اور ذریعہٴ بخشش سمجھتا تھا اور آج بد ترین ذلت۔ آج میں ہر بدیسی حکومت کو برا سمجھتا ہوں اور ساتھ ہی ہندوستان کی ایسی غیر جمہوری حکومت کو بھی جس میں کمزوروں کا حق حق نہ سمجھا جائے یا جو حکومت سرمایہ داروں اور زمینداروں کے دماغوں کا نتیجہ ہو، یا جس میں مزدوروں اور کسانوں کا مساوی حصہ نہ ہو ، یا باہم امتیاز و تفریق رکھ کر حکومت کے قوانین بنائے جائیں ۔ میں تو کہوں گا کہ اگر ہندوستان آزاد ہوا اور ہمارے گورے آقاؤں کی بجائے ہمارے وطنی بھائی حکومت کی باگ ہاتھ میں لیں اور امیر و غریب اور زمینداروں کاشتکارمیں تفریق و تمیز باقی رہے ۔ تو اے خدا !مجھے ایسی آزادی اس وقت تک نہ دینا جب تک تیری مخلوق میں مساوات قائم نہ ہوجائیں۔ میرے ان خیالات سے اگر مجھے اشتراکی یا کمیونسٹ سمجھا جائے تو مجھے اس کی فکر نہیں۔
میرا خدا پر ایمان ہے اور میں اسے مانتا ہوں ۔ وہ سب کو ایک ہی صورت میں پیدا کرتا ہے اور ایک ہی صورت پر مارتا ہے۔ اس کے خوانِ کرم سے سب کو کھانے کے لیے ملتا ہے ۔ بدمعاش بدمعاشی سے، لٹیرا لوٹ سے اور ظالم ظلم سے اپنا پیٹ پالتے ہیں ۔ وکیل مؤکلوں سے ،زمیندار کسانوں سے اور سرمایہ دار مزدوروں سے جونک کی طرح چمٹ کر ان کا خون چوستے ہیں۔ کیوں کہ وہ کمزور اور مریل ہیں اس لیے لٹ جاتے ہیں۔ یہ سب قانونِ خداوندی کے خلاف ہے۔ اس کا خاتمہ کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے خلاف جنگ فرض ہے۔ یہاں میرا مقصد مختصراََ نوٹ لکھنا ہے ۔ دیکھیےکل کیا ہو؟ اپنی رائے، اگر موقع ملا تو تفصیل کے ساتھ بعد میں لکھوں گا۔
بہر حال میں ایک عرصہ تک اتحاد اسلامی کا مؤید رہا ۔ مگر یہ وہ زمانہ تھا جب مجھے زندگی کا شعور حاصل نہیں ہوا تھا ۔ یہ زمانہ اس زمانے کے قریب کا ہے ، جب خودی رام بوس اور کہنائی لال دت نے اپنی قربانی سے بنگال کو ہلا ڈالا تھا اور جس سے تمام ہندوستان کانپ اٹھا تھا ۔ کبھی کبھی کہانیاں سننے میں آتی تھیں اور بنگالی بموں کا حال سنتے تھے تو دل میں خواہش پیدا ہوتی تھی کہ ہم بھی ایسے ہی ہوتے۔ مگر یہ معلوم نہ تھا کہ ایک دن ہم بھی خودی رام بوس اور کہنائی لال دت کی طرح پھانسی کی کوٹھری میں بند ہوں گے اور ہمارا تذکرہ بھی طلبہ میں اسی طرح ہوگا جس طرح کبھی ہم لوگ ان کا ذکر کیا کرتے تھے۔ اور پھر کیا معلوم کہ ہمارا ذکر کرنے والے بھی اسی طرح اس کوٹھری کوآباد کریں۔
ایک دن میں اسکول جا رہا تھا کہ یکایک سنا کہ دہلی میں وائسرائے بہادر پر کسی نے بم مار دیا اور اسکول بند ہو گیا ۔ یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی ، چلو ایک پنتھ دو کاج، چھٹی ملی اور ایک نیا واقعہ بھی ظہور میں آگیا ۔ اس کے بعد بازاروں میں خوب گپیں سنیں جیسی کہ اب ہم پر باہر ہوتی ہے ۔ آپ مہاتما شری داس بہاری بوس کی کیفیت سے تو بخوبی واقف ہوں گے۔ میں بھی واقعات سمجھنے کے قابل تھا اور وہ جگہ بھی دیکھی جہاں وہ ایام ِ فراری میں رہتے تھے۔ خیر وہ کامیاب ہو کر باہر نکل گئےاور ہم کوٹھری میں بند ہیں۔
(اشفاق اللہ خاں شہید : حیات و افکار،کاکوری کیس کا ہیرو،ترتیب و تالیف،ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری ،خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری ،پٹنہ سے ماخوز)