کیا کوئی اپنےایک گال میں پان کا بیڑادباکر اپنی گائیکی سے ہماری سماعتوں میں رس گھول سکے گا؟
کشوری امونکر کے بعد ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کے بنارس گھرانے کو چھوڑ کر ایک اور ستارا چلا گیا۔پدم وی بھوشن فن کارہ گرجا دیوی کا گزشتہ شب منگل کو انتقال ہو گیا ۔وہ 88سال کی تھیں،انہیں ٹھمری کی ملکہ کہا جاتاہے۔چیتی،کجری دادراوغیرہ کے لیے بھی ان کی شہرت تھی ۔ان کے جانے کی خبر سے ذہن پر یادوں نے دستک دی ،وہ آپ سب سے شیئر کر رہا ہوں۔
~
ہم نے کتنابے رحم سماج بنا ڈالا ہے،اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ 1992 یا 1993 کے سال میں، میں اور رام جی بھائی اپنا جھولا اٹھاکر بنارس پہنچے۔ اس کی ترغیب ہمیں پنڈت گُدئی مہاراج کے کہے اس جملے سے ملی تھی کہ ؛’ہمیں چا ہیےلےدار سماج ‘۔تال سمراٹ ایسا کیوں کہہ گئےاورخالص بنارسی موسیقار اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ یہ سب سوال لےکر اور یہ سوچکر کہ موسیقاروں کا نجی ماحول اور اس میں ان کی موجودگی کیسی ہے، یہی وجہ تھی پھکڑوں کی سر زمین پر پھکڑوں کی طرح اتر پڑنے کی۔ وہ ہمارے لیے بنارس کاایک یادگارسفر تھا۔
آنند کرشن رائے اور ان جیسے دوسرےفن شناسوں ، جمال پسندوں کے علاوہ ہم استاد بسم اللہ خاں، این راجم، پنڈت کشن مہاراج اور چھنّولال مشر سے بھی ملے۔
اب باری تھی گرجا دیوی کی۔ ہمارے پاس ان تک پہنچنے کے لیے ڈھنگ کا پتا تک نہیں تھا۔ پرانے لوگوں سے ان کے جس محلّے کا نام پتا چلا تھا ،وہاں جانے پر معلوم ہوا کہ وہ کسی نئی کالونی میں شفٹ ہو گئی ہیں، جس کا نام نرالا شہر یا ایسا ہی کچھ تھا۔
ہم نرالا شہر پہنچے،لیکن وہ کوئی ایسا علاقہ نہ تھا جہاں لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ پھر بھی پوچھ گچھ کی ،اس سے تو ہمارا خدشہ اور مضبوط ہوا۔ کوئی ان کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔
ویسے تو گرجا دیوی کی شہرت ایسی تھی کہ ہمارے مطابق، جیسے ہی ہم بنارس کی زمین پر قدم رکھتے تو ان کے بارے میں ہرکوئی بتانے کو تیار ہو جاتا۔
ہم نے سوچا کالونی کے پوسٹ آفس سے پتا کر لیتے ہیں، پھر غور کیا تو اس دن اتوار تھا۔ہارکر ہم پاس کے پولیس تھانے پہنچے۔داروغہ چارپائی پر لیٹا تھا ۔ اس کے نیم برہنہ جسم کی مالش ایک حولدار کر رہا تھا۔ ہمارے پہنچنے سے ان لوگوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ ہم نے پوچھا کہ ادھر گرجا دیوی جی کا گھر کون سا ہے،ہمارے پاس پتا نہیں ہے،اس لئے یہاں آ گئے ہیں۔ حوالدار نے پوچھا پورا نام کیا ہے؟ ہم نے کہا گرجا دیوی۔ حولدار بولا ایسے تو بہت گرجا دیوی ہوگی ادھر۔ ہم نے کہا وہ بہت فیمس ہیں، بڑی موسیقار ہ ہیں۔ اس پر حولدار ایک چھتری مسکراہٹ کو ہنسی کی کٹوری میں پھٹکتے ہوئے بولا : اچھا اچھا منے بائی جی ہیں؟
اس کے بعد اس نے جو پتا بتایا اس کی ڈور پکڑکر ہم گرجا دیوی جیکے گھر پہنچ تو گئے تھے، لیکن وہ کلکتہ گئی ہوئی تھیں۔ کیئر ٹیکر نے ہماری مناسب مہمان نوازی کی۔ کھانا کھلایا۔اس تلاشکے آخر میں ہمیں بار بار ‘ بائی جی ‘ لفظ اور حولدار کا مسرور چہرہ یاد آ رہا تھا۔
پٹنہ میں 1988 سے لےکر ابھی گزشتہ سال دلی تک میں گرجا دیوی جی کو گاتے بولتے دیکھنا بہت اطمینان بخش رہا۔ ان کے جانے سے موسیقی کی دنیا کا ایک سہل پھکّڑ نام ہمارے درمیان سے وداع ہوگیا۔ کیا کوئی اپنےایک گال میں پان کا بیڑادباکر اپنی گائیکی سے ہماری سماعتوں میں رس گھول سکے گا؟
(ایس ایم عرفان ،براڈ کاسٹ جرنلسٹ اور مشہورٹیلی ویژن پروگرام گفتگو کے اینکر ہیں۔)