مجاہد آزادی اور بیباک صحافی گنیش شنکر ودیارتھی،جنگ آزادی کے دوران نہ صرف انقلابیوں کے ساتھ سرگرم تھے، بلکہ اپنے اخبار ‘پرتاپ ‘میں بھی آزادی کا جذبہ جگا رہے تھے۔ یوم پیدائش کی مناسبت سے ان کامضمون ملاحظہ کیجیے ۔
ملک میں کہیں کہیں قومیت کے احساس کو سمجھنے میں گہری اور بھدی بھول کی جا رہی ہے۔ آئے دن ہم اس بھولکے کئی ثبوت پاتے ہیں۔ اگر اس احساس کے معنی ٹھیک ٹھیک سمجھ لئے گئے ہوتے تو اس موضوع پر بہت سی بےلغواورمبہم باتیں سننے میں نہ آتیں۔ قومیت نسل پرستی نہیں ہے۔ قومیت مذہبی اصولوں کا دائرہ نہیں ہے۔ قومیت سماجی رشتوں کا گھیرا نہیں ہے۔ قومیت کا جنم ملک کی شکل و صورت سے ہوتاہے۔ اس کی سرحدیں ملک کی سرحد یں ہیں۔ قدرتی خصوصیت اور تنوع ملک کو دنیا سے الگ اور واضح کرتی ہے اور اس کے باشندوں کو ایک خاص بندھن ، یعنی یکسانیت کے بندھن سے باندھتی ہے۔
ملک غلامی کے پالنے میں نہیں پلتا۔ آزاد ملک ہی قوموں کی زمین ہے ، کیونکہ بغیر دم کے جانور ہوں تو ہوں،لیکن اپنی حکومت اپنے ہاتھوں میں نہ رکھنے والے ملک نہیں ہوتے۔ قومیت کا احساس انسانی ترقی کی ایک سیڑھی ہے۔ اس کا عروج مکمل طور پر فطری روایت سے ہوا۔ یوروپ کے ملک میں یہ سب سے پہلے پیدا ہوا۔ انسان اسی وقت تک انسان ہے، جب تک اس کی نظر کے سامنے کوئی ایسا اعلیٰ و ارفع اصول ہے، جس کے لئے وہ اپنی روح تک دے سکے۔ وقت کی رفتار کے ساتھ آدرشوں میں تبدیلی ہو۔
مذہب کے اصول کے لئے لوگوں نے جان دی اور تن کٹایا۔ لیکن دنیا کے مختلف قسم کے مذا ہب کی نفرتیں ، ایک ایک ملک میں کئی مذاہب کے ہونے اور مذہبی جذبات کی ترجیحات سے ملک کے کاروبار، فن و ہنر اور تہذیب کی ترقی میں رکاوٹ پڑنے سے، آخر میں آہستہ آہستہ مذہب کی جانبداری کم ہو چلی اور لوگوں کے سامنے حب الوطنی کا فطری آدرش سامنے آ گیا۔
جو قدیم دور میں مذہب کے نام پر کٹتےمرتے تھے، آج ان کی اولاد ملک کے نام پر مرتی ہے۔ پرانے اچھے تھے یا یہ نئے، اس پر بحث کرنا فضول ہی ہے، پر ان میں بھی زندگی تھی اور ان میں بھی زندگی ہے۔ وہ بھی قربانی دینا جانتے تھے اور یہ بھی ، اور یہ دونوں ان بدقسمتوں سے لاکھ درجہ اچھے اور خوش قسمت ہیں جن کے سامنے کوئی آدرش نہیں اور جو ہر بات میں موت سے ڈرتے ہیں۔ یہ پچھلے آدمی اپنے ملک کے بوجھ اور اپنی ماں کی کوکھ کے کلنک ہیں۔
حب الوطنی کا جذبہ انگلینڈ میں اس وقت بیدار ہوا تھا، جب اسپین کے کیتھولک راجا فلپ نے انگلینڈ پراجے جہازی بیڑے آرمیڑا کے ذریعے چڑھائی کی تھی، کیونکہ انگلینڈ کے کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ، دونوں قسم کے عیسائیوں نے ملک کے دشمن کا ایک سا استقبال کیا۔ فرانس کے ریاستی انقلاب نے قومیت کو پوری شان و شوکت سے کھلا دیا۔ اس روشن اور چمکدار شکل کو دیکھکر گرے ہوئے ملک کو امید و یاس کا خوشگوار پیغام ملا۔
19ویں صدی قومیت کی صدی تھی۔ موجودہ جرمنی کا طلوع اسی صدی میں ہوا۔ ماتحت یا غلام اٹلی نے خودمختار آسٹریا کے بندھنوں سے آزادی پائی۔ یونان کو آزادی ملی اور بالکن کے دیگر ملک بھی قبروں سے سر نکالکر اٹھ پڑے۔ پستی میں پڑے مشرق نے بھی اپنی عظمت دکھائی۔ باہر والے اس کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے۔ اسے شعور حاصل ہوا۔ اس نے انگڑائی لی اور چوروں کے کان کھڑے ہو گئے۔ اس نے دنیا کی رفتار کی طرف نظر پھیری۔ دیکھا، دنیا کو ایک نئی روشنی مل گئی ہے اور جانا کہ خودغرضی کے اس اندھیرے کو بنا اس روشنی کے پار کرنا ناممکن ہے۔ اس کے دل میں ہلچل پیدا ہوئیں اور اب ہم ان لہروں کے رتن دیکھ رہے ہیں۔
جاپان ایک رتن ہے ، ایسا چمکتا ہوا کہ قومیت اس کو کہیں بھی پیش کر سکتی ہے۔ لہر رکی نہیں۔ بڑھی اور خوب بڑھی۔ افیم چی چین کو اس نے جگایا اور خودمختار ہندوستان کو اس نے خبردارکیا۔ فارس میں اس نے بیداری پھیلائی اور ایشیا کے جنگلات اور غاروں تک میں قومیت کی گونج اس وقت کسی نہ کسی شکل میں اس نے پہنچائی۔ یہ دنیا کی لہر ہے۔ اس کو روکا نہیں جا سکتا۔ وہ خودمختار اپنے ہاتھ توڑ لیںگےجو اس کو روکیںگے اور ان مردوں کی خاک کا بھی پتا نہیں لگےگا جو ا س کے پیغام کو نہیں سنیںگے۔
ہندوستان میں ہم قومیت کی پکار سن چکے ہیں۔ ہمیں ہندوستان کے بلند اور وروشن مستقبل کا اعتماد ہے۔ ہمیں اعتماد ہے کہ ہماری باڑھ کسی کے روکے نہیں رک سکتی۔ راستے میں روکنے والی چٹانیں آ سکتی ہیں۔ چٹانیں پانی کی کسی باڑھ کو نہیں روک سکتیں، لیکن ایک بات ہے، ہمیں سوچ سمجھ کر بیوقوف نہیں بننا چاہیے۔اوٹ پٹانگ راستے نہیں ناپنے چاہیے۔
کچھ لوگ ‘ہندو ملک ‘-‘ہندو ملک ‘ چلّاتے ہیں۔ ہمیں معاف کیا جائے، اگر ہم کہیں-نہیں، ہم اس بات پر زور دیں کہ وہ ایک بڑی بھاری بھولکر رہے ہیں اور انہوں نے ابھی تک ‘ راشٹر’ لفظ کے معنی ہی نہیں سمجھے۔ ہم نجومی نہیں، مگر یہ حالت ہم سے کہتی ہے کہ اب دنیا میں ‘ ہندو راشٹر’ نہیں ہو سکتا، کیونکہ ملک کا ہونا اسی وقت ممکن ہے، جب ملک کی حکومت ملک والوں کے ہاتھ میں ہو ۔ اور اگر مان لیا جائے کہ آج ہندوستان آزاد ہو جائے، یا انگلینڈ اس کو نوآبادیاتی حکومت دے دے، توبھی ہندو ہی ہندوستانی ملک کے سب کچھ نہ ہوںگے اور جو ایسا سمجھتے ہیں دل سے یا صرف لوگوں کو خوش کرنے کے لئےوہ بھولکر رہے ہیں اور ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
وہ لوگ بھی اسی طرح کی بھولکر رہے ہیں جو ترکی یا کابل، مکہ یا جدہ کا خواب دیکھتے ہیں، کیونکہ وہ ان کی جنم بھومی نہیں اور اس میں کچھ بھی تلخی نہیں سمجھی جانی چاہیے، اگر ہم یہ کہیں کہ ان کی قبریں اسی ملک میں بنیںگی اور ان کے مرثیے-، گر وہ اس لائق ہوںگے تو اسی ملک میں گائے جائیںگے، لیکن ہمارا مخالف ، نہیں، قومیت کا مخالف منھ بچکاکر کہہ سکتا ہے کہ قومیت خود غرضیوں کی کان ہے۔ دیکھ لو اس جنگ عظیم کو اور انکار کرنے کی جرات کرو کہ دنیا کے ملک پکےمطلب پرست نہیں ہے؟ ہم اس مخالف کا استقبال کرتے ہیں، لیکن دنیا کی کس چیز میں برائی اور بھلائی دونوں باتیں نہیں ہیں؟
لوہے سے ڈاکٹر کا زخم چیرنے والا چاقو اور ریل کی پٹریاں بنتی ہیں اور اسی لوہا سے قاتلوں کا چھرا اور لڑائی کی توپیں بھی بنتی ہیں۔ سورج کی روشنی پھولوں کو رنگ برنگا بناتی ہے مگر وہ بیچارا مردہ لاش کا کیا کرے، جو اس کے لگتے ہی سڑکر بدبو دینے لگتی ہے۔ ہم قومیت کے حمایتی ہیں، مگر وہی ہماری سب کچھ نہیں، وہ صرف ہمارے ملک کی ترقی کی تدبیربھر ہے۔
Categories: ادبستان