ادبستان

انٹرویو : میں نے اپنا کیریئر فلاپ فلموں سے بنایا ہے : منوج باجپئی

منوج باجپئی بالی ووڈ کے ان گنے چنے فنکاروں میں سے ہیں جو ہٹ یا فلاپ کی فکر کئے بغیر اپنا کام کرتے ہیں۔ اپنی فلم ‘رخ’ سے وہ ایک نئی شکل میں ناظر سے روبرو ہوں‌گے۔

Manoj-Bajpayee-1

بہار کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے دلّی آئے منوج باجپئی نے کئی سال مسلسل اسٹیج پر فعال و سرگرم رہنے کے ساتھ ٹی وی سیریلوں میں بھی کام کیا ہے۔ ہنسل مہتا کی ہدایت میں بنے سیریل ” کلاکار” کے علاوہ وہ مہیش بھٹّ کی ہدایت میں بنے سیریل سوابھیمان (1995) میں اہم کردار نبھا چکے ہیں۔

اس بیچ سال 1994 میں منوج نے گووند نہلانی کی فلم ‘ دروہ کال ‘ میں ایک منٹ کے سین کے ساتھ بالی ووڈ میں قدم رکھا۔ اسی سال وہ فلم ‘بینڈٹ کوئین’ میں ڈاکو مان سنگھ کے چھوٹے سے کردار میں نظر آئے۔ اس کے بعد آئی رام گوپال ورما کی فلم ‘ ستیا’ کے بھیکو مہاترے کے کردار نے ان کو بالی ووڈ میں ایک مقام دلایا۔ ان کا سفر جاری ہے۔پیش ہے ان سے خاص بات چیت۔

جلد ریلیز ہونے والی فلم ‘رخ’، آتنو مکھرجی کی پہلی فلم ہے۔ اس فلم کو کیوں چنا اور یہ کس بارے میں ہے؟

رخ کی کہانی کو انوکھے طریقے سے کہا گیا ہے۔ ایسی کہانی جس کو دیکھتے ہوئے یا جس کی اسکرپٹ کو پڑھتے ہوئے کسی ناول کے پڑھنے کا احساس ہوتا ہے۔ اس میں ڈرامہ ہے، ڈرامائیت بھی ہے، سس پینس ہے۔ اس میں باپ اور بیٹے کا رشتہ ہے۔ یہ ماں اور بیٹے کے تعلق پر بھی مبنی ہے۔ یہ فلم ان رشتوں کی پیچیدگی کی کہانی ہے۔اور دوستوں کے درمیان کبھی کبھی جو دھوکہ ہوتا ہے اس پر بھی اس فلم کا  اپناایک نظریہ  ہے۔ یہ ایک سیدھی ا ور معمولی کہانی ہے۔ ایک متوسط طبقےکی زندگی کے سارے گوشوں کو اس میں اچھے سے پرویا گیا ہے۔

رام گوپال ورما کی فلم ستّیا (1998) کے بھیکو مہاترے کے کردار نے آپ کو بالی ووڈ میں کھڑا کیا۔ آپ نے ان کے ساتھ کئی فلمیں کی ہیں۔ ” شیوا، رنگیلا، کمپنی، شول اور سرکار جیسی فلمیں بنانے والے رام گوپال ورما آج کل جو فلمیں بنا رہے ہیں ان کو دیکھ‌کر کیا ایسا لگتا ہے کہ وہ راہ بھٹک چکے ہیں؟

دیکھئے، نہ میں کوئی نجومی ہوں، نہ کوئی ٹریڈ پنڈت ہوں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ انسان وہی ہے، اس کی سمجھ بھی وہی ہے، اس کا فلموں کے تئیں جنون بھی وہی ہے۔ فلمیں بنانے کا اس انسان کا جو پریم ہے، سب کچھ ویسے کا ویسا ہے۔ہر وقت ایک جیسا نہیں ہوتا۔ میرا اپنا ماننا ہے کہ جس رام گوپال ورما کی آپ بہت زیادہ قدر کرتے ہیں، اس کے بارے میں تنقید بھی ہے، جس کا استقبال بھی ہونا چاہئے۔

وہ رام گوپال ورما کسی بھی وقت واپس آ سکتا ہے۔ فلم سرکار 3 میں میں مہمان کردار میں تھا۔ ان کے جنون میں، ان کے جوش میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اگر کہیں کچھ چھوٹ رہا ہے تو لگتا ہے کہ کہیں کسی سطح پر چیزیں بکھر جا رہی ہیں۔ نہیں تو ہدایت کار وہی ہے، اس کے کام کرنے کا طریقہ بھی وہی ہے، جس دن ان کے پاس اچھی اسکرپٹ ہوگی اس دن رام گوپال ورما کی واپسی ہو جائے‌گی۔

17 سال کی عمر میں بہار کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے آپ دلّی آ گئے تھے؟ اتنی کم عمر میں آپ کو کیسے پتا چل گیا کہ اداکار ہی بننا ہے؟

مجھے بچپن سے معلوم تھا۔ شاید بچپن میں ہی خدا نے طاقت دے دی تھی کہ یہ جاننے کی کہ میں کیا بننا چاہتا ہوں۔ کافی عمر تک زیادہ تر لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا ہے کہ ان کو آگے کرنا کیا ہے۔ اس معاملے میں، میں زیادہ خوش قسمت رہا ہوں کہ تیسری چوتھی کلاس میں ہی مجھے پتا چل گیا تھا کہ مجھے کیا بننا ہے۔میرے دماغ میں یہ بات چلتی رہتی تھی کہ مجھے کہاں جانا ہے اور اس کو لےکر میں ریسرچ کرتا رہتا تھا۔ تحقیق کے دوران مجھے نصیرالدین شاہ، اوم پوری، انوپم کھیر یا پھر راج ببّر ان سب کے انٹرویوز نے بتایا کہ راستہاین ایس ڈی سے ہوکر جا سکتا ہے۔

اس کے بعد میرا پہلا پڑاؤ تھا دلّی۔ تین-چار سال تک میرا ایڈمیشن این ایس ڈی  میں ہوا نہیں، لیکن میں نے تھیئٹرکرنا چھوڑا نہیں۔ مسلسل دس سال تک تھیئٹر کرنے کے بعد دلّی شہر میں میرا ایک مقام بن گیا تھا۔میں نے تھیئٹر ڈائریکٹربیری جان کے ساتھ بہت کام کیا۔ میں نے تھیئٹر کی 250 سے 300 ورکشاپ منعقد کروائی ہیں۔ 200 سے 300 ورکشاپ میں مَیں خود شامل ہوا ہوں۔ ایسا کہیں کہ لوگوں کو جو نظم وضبط این ایس ڈی کے اندر سے ملتا ہے، اس کو میں نے اپنے لئے باہر سے بنایا تھا۔

کسی بھی ادارے کی سب سے دولت وہاں کا نظم وضبط ہوتا ہے۔ کوئی بھی اپنے گھر میں، اپنے اندر نظم وضبط بنا لے تو اس کو کسی بھی ادارے میں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہی میں نے کیا تھا۔ گرو میں نے باہر میں کھوجا اور نظم وضبط میں نے اپنے گھر میں بنایا۔ شاید اسی وجہ سے میں یہاں تک پہنچ پایا۔

ManojBajpayeeCollage2

دلّی سے بالی ووڈ تک کا سفر کیسے طے کیا؟ اس سفر میں کیا مشکلات آئیں؟

یہ سوال تو میری آپ بیتی کا موضوع ہے۔ کیا کیا مشکلیں رہیں، کیا کیا پڑاؤ رہے ہیں اور کیا کیا رکاوٹیں آئیں؟ بہت سارے ہچکولے کھائے ہیں۔ فلم بینڈٹ کوئین (1994)سے دستک (1996) تک پوری ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ستّیا (1998) سے لےکر راج نیتی (2010) تک پوری ایک کتاب ہو سکتی ہے اور فلم راج نیتی سے لےکر ابتک ایک کتاب ہو سکتی ہے۔دیکھئے، یہ ایک انڈسٹری ہے اور جب ہم انڈسٹری کی بات کرتے ہیں تب اس کا لینا دینا کاروبار سے زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس پورےتجارتی صنعت میں آپ کی فلموں کی کوالٹی باکس آفس نمبر (کاروبار) سے طے کی جاتی ہے۔ چاہے آپ نے کتنی بھی گھٹیا فلم کیوں نہ بنائی ہو، اگر وہ 100 کروڑ روپے بنا لیتی ہے تو اس کو اچّھی فلم بھی مانتے ہیں اور ہٹ فلم بھی۔

اس طرح کی انڈسٹری میں اپنے طریقے کی فلموں کو کرتے ہوئے اپنی جگہ بنا پانا، بڑا مشکل کام ہے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ آئی میڈ اے کریئر آؤٹ آف فلاپ فلمس (میں نے اپنا کریئر فلاپ فلموں سے بنایا ہے)۔یہ بہت ہی حیران کرنے والا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیسے ہوا، کیونکہ میں نے جتنی فلاپ فلمیں دی ہیں اتنی شاید بڑے بڑے اسٹار کی ہٹ فلمیں ہوتی ہوں‌گی۔ اور بڑے اسٹار کی جتنی فلاپ فلمیں ہوتی ہیں اتنی ہی میری ہٹ فلمیں ہیں۔پھر بھی میں آپ سے بات کر رہا ہوں، آپ لوگ مجھ سے بات کر رہے ہیں، اس کے لئے میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

این ایس ڈی میں ایڈمیشن لینے کے دوران آپ تین یا چاربار ری جیکٹ کر دیے گئے تھے۔ ایسا سنا گیا ہے کہ مایوس ہوکر آپ خودکشی کرنا چاہتے تھے۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟

ہنستے ہوئے،وہ کیا ہے نا، میں جو بھی بات بولتا ہوں، لوگ اس کے الگ الگ مطلب نکالتے ہیں۔ گاؤں سے جب میں دلّی آیا تھا تو 12ویں پاس تھا اور دلّی یونیورسٹی میں رہتے ہوئے میں نے بہت تھیئٹرز کیے۔تھرڈ ایئر کمپلیٹ کرنے کا میں بہت زیادہ خواہش مند تھا، کیونکہ تھرڈ ایئر کے بعد میں این ایس ڈی میں ایڈمیشن کے لئے کامپیٹشن دینے کے قابل ہو سکتا تھا۔ میرے پاس میں کوئی ‘ پلان بی ‘ نہیں تھا۔ ‘ پلان اے ‘ ہی تھا کہ نیشنل اسکول آف ڈرامہ کے اندر چلا جاؤں‌گا۔

لیکن میں نے یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ میرا ایڈمیشن اس میں نہیں ہوگا۔ اس میں نہیں جانے کی وجہ سے مجھے بہت زیادہ مایوسی ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ میرے دوستوں کو میرے ڈپریشن سے یہ اندازہ لگنے لگا کہ میں سوسائڈ کر لوں‌گا۔تو جو میرے دوست تھے بیچارے، وہ میرے ارد گرد ہی رہتے تھے۔ ایک مہینے تک میرے دوستوں نے مجھے سنبھال‌کر رکھا، یہ سوچ‌کر کہ منوج باجپئی سوسائڈ کر لے‌گا۔ ایک مہینے کے بعد اس حالت سے میں نے خود کو کسی طرح اٹھایا۔

یہ کب کی بات ہوگی۔ کس سن کی؟

میں سن کی بات ہی نہیں کرتا سر! میں اپنی عمر آپ کو بتاؤں‌گا ہی نہیں۔ بہت جوان لگتا ہوں میں ابھی بھی۔

فلم ستّیا (1998) کے بھیکو مہاترے اور گینگس آف واسعپور (2012) کے سردار خان اور علی گڑھ (2016) کے پروفیسر رام چندر سراس کے کرداروں کا مقابلہ کیا جائے تو تینوں میں سے کون سا کردار نبھانا آپ کے لئے مشکلوں سےبھرا رہا؟

دیکھئے، میں کہوں‌گا کہ میرا سب سے اچھا کردار کون سا ہے یا دل کے قریب کون سا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ فلم عکس (2001) کا کردار ہے یا پھر بدھیا سنگھ کے ٹرینر کا کردار قریب ہے۔ دراصل، یہ لوگوں کی اپنی پسند پر ہے۔ میں نے اتنی ساری فلمیں کر دی ہیں، بہت سارے اچھے اچھے کردار کئے ہیں، بہت سارے نیشنل ایوارڈ وننگ میں نے فلمیں کی ہیں۔

یہ تو میں نے لوگوں پر چھوڑ دیا ہے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ اگلے 10 سال تک اتنا  کام کر دوں کہ لوگ کشمکش میں پڑ جائیں کہ منوج باجپئی کی پانچ اچّھی فلمیں کون سی ہیں۔ یہ چننے میں لوگوں کو محنت لگے۔ یہی میرا مقصد ہے۔ تو میں اسی سمت میں کام کر رہا ہوں۔

Manoj_Bajpayee_Special-26

ہدایت کار نیرج پانڈیہ کے ساتھ آپ نے اسپیشل 26 (2013)، سات اچکّے (2016)، نام شبانہ (2017)اور شارٹ فلم آؤچ (2016) کی ہے۔ ان کے ساتھ آپ کی فلم عیّاری (2018) آنے والی ہے۔ اس فلم اور نیرج پانڈیہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔

میں صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ عیّاری کی نیرج پانڈیہ نے ہدایت کاری کی ہے۔ نیرج کے ساتھ کام کرنا مجھے اس لئے اچھا لگتا ہے کیونکہ میرے حساب سے وہ ہمارے وقت کے سب سے علیٰحدہ ہدایت کار ہیں۔ ان کے پہلے یا ان کے بعد مجھے یاد نہیں آتا کہ کوئی ہدایت کار الگ الگ موضوعات کو اس کی حقیقت سے سمجھوتہ کئے بغیر اہم رجحان کی فلموں میں لےکر آتا ہے۔

فلم سازی کا یہ جو طریقہ انہوں نے ایجاد کیا ہے میرے خیال میں بڑا عجیب ہے، بہت ہی انوکھا ہے۔ وہ جو بھی کردار مجھے دیتے ہیں وہ میری تکنیک اور انداز کو چیلنج دیتا ہے۔ ان کا جو حکم ہے وہ اس سے بھی سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں۔ان کے سوچنے کا طریقہ بالکل الگ ہوتا ہے۔ آپ پوری دنیا کے ہدایت کار کے ساتھ کام کیجئے اور نیرج پانڈیہ کے ساتھ کام کیجئے، آپ کا تجربہ بالکل الگ ہوگا کیونکہ ان کی نظر میں جو اچّھی ایکٹنگ ہیں وہ بالکل الگ ہے۔ان کی نظر میں اچّھی اسکرپٹ کی سمجھ بالکل الگ ہے۔ دو لوگوں کے رشتے کا جو اصول ہوتا ہے، اس کو لےکر ان کی سمجھ بالکل الگ ہے۔ ان کے ساتھ کام کرنے سے ایسا لگتا ہے کہ ہر دن چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے۔

ManojBajpayee-Collage

آپ کو پنجر (2003) فلم کے لئے نیشنل فلم ایوارڈ ملا ہوا ہے۔ فلم علی گڑھ (2016) کے لئے اٹکلیں لگائی جا رہی تھیں کہ اس کو بھی قومی انعام مل سکتا ہے لیکن ایسا ہوا نہیں۔ ایک فنکار کے لئے قومی انعام کتنا معنی رکھتا ہے؟

کچھ نہیں معنی رکھتا۔ اس انعام کے پیچھے جو لوگ بھی رہیں‌گے ان کا دل ٹوٹتا رہے‌گا۔ کیونکہ ہمارے ملک میں ہر انعام کے پیچھے کہیں نہ کہیں ایک لابی ہے، کہیں نہ کہیں یہ انعام اپنے لوگوں کو خوش کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔جب تک انعام بغیر کسی جانبداری کے، بغیر کسی ایجنڈے کے دئے جا رہے تھے تب تک ٹھیک تھا لیکن اب ہر انعام پر انگلی اٹھ رہی ہے۔ ہر انعام پر انگلی اٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس اچھا کام کرنے کے علاوہ کوئی چارا ہے نہیں۔

مطلب، اچھا کام کرنے کے بعد، اس کی ریلیز  کے بعد آپ آگے بڑھیے۔ انعام اگر کسی دوسرے کو ملتا ہے تو اس سے آپ خوش ہوئے اور آگے بڑھئے۔ اس کو لےکر فکر کرنا یا شکایت کرنا کہ آپ کے ساتھ ظلم ہو گیا، اس سے  وقت کی بربادی اور کوئی ہے نہیں۔آپ اچھے کام تلاش کیجئے اور آگے بڑھ جائیے کیونکہ ہر انعام آج سوالوں کے گھیرے میں ہے۔

بطور سینسر بورڈ چیئرمین پہلاج نہلانی کافی تنازعات میں رہے۔ ابھی پرسون جوشی کو چیئرمین بنایا گیا ہے۔ سینسر بورڈ کے کام کاج کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

دیکھئے، جب تک سینسر بورڈ کے اصول و ہدایتبدلیں‌گے نہیں، پرسون جوشی بھی کچھ نہیں کر پائیں‌گے۔ ان کے بھی ہاتھ بندھے رہیں‌گے۔ یہ امید کرنا کہ پرسون جوشی جی کوئی انقلابی تبدیلی لائیں‌گے، ممکن نہیں۔

ایسا سوچنا بھی نہیں چاہئے۔ شیام بینیگل کی رہنمائی میں سینسر بورڈ میں اصلاح کے لئے جو کمیٹی بنی تھی اور اس نے جو سجھاؤ دئے تھے، یہ سجھاؤ اگر نافذ نہیں ہوں‌گے تو سینسر بورڈ ایسے ہی چلتا رہے‌گا، چاہے کوئی بھی حکومت آئے۔حکومت کا سینسر بورڈ سے لینا دینا نہیں ہے۔ جو ہدایات و اصول ہیں، اس کا لینا دینا ہے سینسر بورڈ سے۔ ان ہدایات و اصول کے الگ کوئی بھی چیئرپرسن یا کمیٹی ممبر نہیں جا سکتا ہے۔شیام بینیگل کے سجھاؤ جتنی جلدی نافذ ہوں‌گے فلم والوں کے لئے اتنا ہی اچھا رہے‌گا۔

ابھی کے سیاسی ماحول کو لےکر آپ کچھ خیال رکھتے ہیں؟

سیاست میں میرا خیال بالکل نہیں رہتا۔ کیونکہ سیاست کے بارے میں میں اتنا پڑھتا-وڑھتا نہیں ہوں۔ یہ بڑا پکاؤ اور تھکاؤ کام لگتا ہے۔ اب دیکھئے، مجھے بہت سارے لوگ سیاست سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ میرے اوپر سے نکل جاتا ہے۔بہت سارے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ مجھے سیاست کے بارے میں بہت معلوم ہے، لیکن مجھ میں یہ بالکل ہی نہیں ہے۔ کتنی بار لوگ سیاسی باتیں کرتے ہیں تو میں اپنی رائے دیتا ہی نہیں۔ میں جانتا ہی نہیں کہ اس کی باریکیاں کیا ہوتی ہیں۔

آپ نے اداکارہ نیہا سے شادی کی ہے، جو کہ مسلم ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں آج بھی لو میرج کو برا مانا جاتا ہے۔ ایسے میں کسی اور مذہب کی لڑکی سے شادی کرنا آپ کے لئے کتنا آسان رہا؟ یہ قدم تب کتنا مشکل ہوتا جب آپ سنیما نہیں کسی اور پیشے میں ہوتے؟

نہیں-نہیں میرے لئے یہ بالکل مشکل نہیں رہتا کیونکہ میں بڑا ضدّی ٹائپ کا انسان ہوں۔ انقلابی انسان ہوں۔ مجھے اپنی زندگی میں جو بھی تبدیلی لانا ہے، میں لاکر رہتا ہوں۔ ہمارے علاقے میں تو اداکار ہونے کو بھی اچھا نہیں مانا جاتا، لیکن میں اداکار ہوں اور اداکار کی شکل میں روزی-روٹی کما رہا ہوں۔میرا یہ کہنا ہے کہ جس کو جو دل آئے کرے، لیکن وہ قانوناً ہونا چاہئے۔ باقی سب صحیح ہے اور اس کے بعد آپ کو کسی چیز کی فکر نہیں کرنی چاہئے۔

آپ کی ایک اور سائکولاجیکل تھریلر فلم ‘ان دی شڈو’ آ رہی ہے؟ اس میں کس طرح کا کردار ہے؟

ہندی میں اس کا نام ہے گلی گلیاں۔ ہندوستان میں یہ اسی نام سے ریلیز ہوگی۔ ان دی شیڈو نام سے یہ بسان فلم فیسٹیول، مامی (ممبئی فلم فیسٹیول)، شکاگو فلم فیسٹیول اور بھی کچھ بڑی فلم فیسٹیولوں میں ریلیز ہوگی، جن کا نام میں ابھی نہیں بتا سکتا۔ان دی شیڈو… میرے حساب سے یہ میری زندگی کا بیسٹ پرفارمنس ہے۔ یہ سائکولاجیک تھریلر سے زیادہ سائکولاجکل ڈرامہ ہے۔ ایک انسان پرانی دلّی کی گلیوں میں اتنا پھنسا ہوا ہے کہ کبھی باہر نکلا ہی نہیں۔

اس کی زندگی میں ایسے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ اس کو باہر نکلنے میں ڈر لگتا ہے۔ وہ باہر کی دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ایسے کردار کے دماغ میں گھس‌کر ویسا ہی اداکاری کرنا، میرے لئے مشکل کام تھا۔مطلب،آپ سمجھ لیجئے کہ میں دلّی میں ہی شوٹنگ کر رہا تھا اور دلّی میں میرے پریوار والوں کو اور سسرال والوں کو نہیں پتا تھا کہ میں یہاں دلّی میں ہوں۔ میں نے اپنے آپ کو بالکل کاٹ لیا تھا۔اس فلم کو جب میں نے دیکھا تو مجھے لگا کہ یہ میری سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اس طرح کے پراگندہ اور پیچیدہ دماغ کو پرفارم کرنا میرے لئے مشکل تھا۔