مرکزی حکومت کے 1.35 لاکھ کروڑ قیمت کے سرکاری بانڈوں کی شکل میں بینکوں کو اضافی سرمایہ دینے کے فیصلے کا مطلب ہے کہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے بینکوں اور بقائےدار کارپوریٹ گروپوں کو بچایا جا رہا ہے۔
1.35 لاکھ کروڑ قیمت کے سرکاری بانڈوں کی شکل میں بینکوں کو اضافی سرمایہ دینے کے مرکز کا فیصلہ اور کچھ نہیں، ٹیکس دہندگان کے پیسے سے ہندوستان کے عوامی شعبے کے بینکوں کی ڈوبتی کشتی کو بچانے جیسا ہے۔ 50 بڑے کارپوریٹ گروپوں پر بینکوں کے بقائے کی وجہ سے ان بینکوں کے سرمایہ کی بنیاد ہل گئی ہے۔
حکومت، بھلے یہ کہہ رہی ہے کہ اس قدم سے مالیاتی نقصان نہیں بڑھےگا، کیونکہ اس میں نقد نکاسی نہیں ہو رہی ہے، لیکن بینکوں کو جاری کئے گئے بانڈوں پر حکومت کو زیادہ سود چکانا پڑےگا، جس کا حکومت کے مالیاتی نقصان کو بڑھانے والا ہوگا۔
حکومت کے چیف اقتصادی صلاح کار اروند سبرمنیم نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اس سے سرکاریادھار بڑھےگا اور تکنیکی طور پر پرائیویٹ سیکٹر کو باہر دھکیل دیا جائےگا۔ لیکن انہوں نے یہ امید جتائی کی کہ تازہ سرمایہ پانے کے بعد بینک پیداواری شعبوں کو زیادہ قرض دیںگے جس سے پرائیویٹ سیکٹر کے باہر نکلنے کا اثر نہیں پڑےگا۔
آر بی آئی کے سابق گورنر وینو گوپال ریڈی نے دی وائر کو کہا کہ اگر بینک ایکویٹی سرمایہ کی جگہ، سرکاری ضمانتیں (سکیورٹیز) رکھتے ہیں، تو ایسی حالت میں مرکز اس کو تب اچھا فیصلہ قرار دے سکتا ہے، جب حکومت کو بینکوں سے ملا سود، بانڈوں پر حکومت کے ذریعے چکائے گئے سود سے زیادہ ہو۔اجمالی طور پر کہیں، تو بینکوں کو مناسب منافع کمانا چاہیے اور حکومت کو سود دینا چاہیے۔ اس سے ہی سرکاری بانڈوں کے ذریعے بینکوں کو اضافی سرمایہ دستیاب کرانے کے فیصلے کو مناسب ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ حکومت کے پاس یہی ایک اختیار بچا تھا کیونکہ عوامی بینکوں نے قریب قریب نجی شعبے کو قرض دینا بند کر دیا تھا، کیونکہ کارپوریٹوں کے ذریعے لیے گئے بڑےبڑے قرض نہیں چکانے سے بینکوں کے پاس زیادہ سرمایہ نہیں بچا تھا۔بینکوں کو سرمایہ دستیاب کرانا اس لئے بےحد ضروری ہو گیا تھا۔ لیکن یہ صاف نہیں ہے کہ بڑا قرض نہیں چکانے والے کارپوریٹ گروپس پر مناسب نکیل کسی گئی ہے یا نہیں اور ان کو ان کی غلطیوں اور غلط رویے کا حرجانہ بھرنے کے لئے مجبور کیا گیا ہے یا نہیں۔
اس تناظر میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ان میں سے کچھ مشہور کارپوریٹ گروپس کو خواہش مند بقایہ دار اعلان کر دیا جائے، کیونکہ اس بات کے کافی ثبوت ہیں کہ انہوں نے بینکوں سے ملے پیسوں کو ان منصوبوں کے بدلے، جن کے لئے ان کو یہ قرض دئے گئے تھے، دوسرے مقاصد کی طرف موڑ دیا۔حال ہی میں وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے صاف گوئی کے ساتھ یہ قبول کیا کہ ڈوبے ہوئے قرض (بیڈ لون) کا مسئلہ بڑے پیمانے پر 50 کے قریب بڑے کارپوریٹ گروپس تک محدود ہے، جنہوں نے اسٹیل اور بنیادی ڈھانچے، خاص کر بجلی کے شعبے میں منصوبوں کی تعمیر کرنے کے لئے غیر ذمّےدارانہ طریقے سے، آگے پیچھے دیکھے بنا بینکوں سے قرض لئے۔
بینکنگ سسٹم میں تمام این پی اے اور نقصان دہ اثاثوں میں اکیلے ان گروپوں کا حصہ 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق تمام این پی اے اور نقصان دہ سرمایہ 13 لاکھ کروڑ سے 14 لاکھ کروڑ کے دائرے میں ہے۔ اور یہ سیاسی لحاظ سے رسوخ دار کارپوریٹ فیملی ہیں، جو انتخابی چندہ دینے والوں میں آگے ہیں۔اس لئے، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ 1.35 لاکھ کروڑ کے سرکاری بانڈوں سے پہلے زمرے میں عوامی شعبے کے کن بینکوں کو اضافی سرمایہ دستیاب کرایا جاتاہے۔
یہ اس لئے اہم ہے، کیونکہ 22 کے قریب عوامی بینکوں میں 8-10 بڑے بینکوں نے کنسٹوریم کے حصے کے طور پر ان منصوبوں کے لئے جو پٹری سے اتر گئے ہیں اور جن کی وجہ سے کافی بقایا جمع ہو گیا ہے، دل کھولکر قرض دیا ہےوزارت خزانہ نے اس بارے میں زیادہ جانکاری نہیں دی کہ یہ سرمایہ کن بینکوں کو مہیّا کرایا جائےگا، لیکن ارون جیٹلی نے یہ ضرور واضح کیا کہ سرمایہ دینے کے ساتھ ساتھ بینکنگ اصلاح بھی کئے جائیںگے۔ساتھ ہی ایسے ماحول تیار کئے جائیںگے، جس سے ‘ یہ یقینی بنایاجا سکےگا کہ ایسے حالات پھر پیدا نہ ہوں۔ ‘
جیٹلی نے ڈوبے ہوئے قرض میں بھاری اضافہ کے لئے پچھلی حکومت کو قصوروار ٹھہرایا۔ لیکن، جیٹلی نے چالاکی کے ساتھ یہ بات چھپا لی کہ ان کی حکومت نے بھی اس بحران کے حل کی سمت میں شروعات کرنے میں پورے تین سال کا وقت لگایا، جس دوران بینکوں کی بیلینس شیٹ اور خراب ہوتی گئی۔عوامی بینکوں کا مجموعی این پی اےتین سال میں نیٹ بینک کریڈٹ کے 4 فیصد سے بڑھکر آج تقریباً 9 فیصد تک ہو گئے ہیں، یعنی نیٹ بینک کریڈٹ کے تناسب کے حساب سے تین سال میں یہ دو گنے سے زیادہ ہو گئے ہیں۔
مئی، 2015 تک عوامی بینکوں کی بازار قیمت میں اتنی زیادہ گراوٹ نہیں آئی تھی۔ اس وقت بھی یہ بات سب کو پتا تھی کہ بینکوں کو 2.5 لاکھ کروڑ کے نئے سرمائے کی ضرورت پڑےگی۔ لیکن، کن اسباب سے این ڈی اے حکومت اس فیصلے کو ٹالتی رہی۔بینکوں کو ایک بار میں سرمایہ کی بڑی خوراک کی درکار تھی، لیکن اس کی جگہ پر وزارت خزانہ شیرینی تقسیم جیسی پالیسی پر چلتا رہا اور تھوڑی تھوڑی مقدار میں سرمایہ دیتا رہا۔ اگر وزارت خزانہ مالیاتی نقصان کو لےکر فکرمند تھا، تو اس کو 2015 کے ہی بجٹ میں وہ کام کر دینا چاہیے تھا، جو اس نے اب کیا ہےیعنی اس طرح سے سرمایہ مہیّا کرانا کہ اس کی مالیاتی حالت پر زیادہ اثر نہ پڑے۔
لیکن ضرورت کے مطابق بڑی مقدار میں سرمایہ مہیّا نہ کراکر وزارت خزانہ نے بینک سرمایہ کے مسئلہ کو اور بھیانک ہونے دیا اور مارچ، 2017 تک عوامی شعبوں کے بینکوں کی بازار قیمت تقریباً 50 فیصد تک گر گئی۔ یہ گراوٹ ہماری آنکھوں کے سامنے آ رہی تھی۔ اسی مدت میں ذاتی بینکوں اورغیر بینکنگ مالی کارپوریشنز (این بی ایف سی) نے مجموعی قرض تقسیم کی دو تہائی سے زیادہ پر قبضہ جما لیا۔
جنوری، 2016 میں دی ٹائمس آف انڈیا نے خبر دی تھی کہ صرف ایک نجی بینک ایچ ڈی ایف سی کی ا سٹاک قیمت اسٹیٹ بینک سمیت 21 قومی بینکوں کی شامل اسٹاک قیمت کے برابر ہو گئی۔ بازار میں بقایا قرض کے معاملے میں ان بینکوں کا حصہ 70 فیصدی تھا، جبکہ یہ ایچ ڈی ایف سی کے لئے صرف 6 فیصد ہی تھا۔ لیکن، اس کے باوجود ایچ ڈی ایف سی کی ا سٹاک قیمت، 21 عوامی بینکوں کی شامل اسٹاک قیمت کے برابر تھی۔ یہ عوامی بینکوں کی صحت صحیح نہیں ہونے کی پہلی بڑی تنبیہ تھی۔غالباً آج حالت اور بگڑ گئی ہے۔ 2017 کی شروعات میں یہ امید کی جا رہی تھی کہ نوٹ بندی سے کافی کالا دھن ختم ہوگا، جس سے بینکوں کو بڑی مقدار میں تقریباً 3 لاکھ کروڑ کاسرمایہ دستیاب کرانے کا راستہ صاف ہو جائےگا۔ لیکن، ویسا نہیں ہو سکا۔
نوٹ بندی کے نویں مہینے میں عوامی بینکوں کے ذریعے دیا جانے والا قرض کئی دہائیوں میں سب سے نچلی سطح پر آ گیا تھا۔اس محاذ پر ناکام ہونے کے بعد، وزارت خزانہ اب ہنگامی تدبیر کے طور پر بینکوں کو سرمایہ دستیاب کرانے کے راستے پر چل رہا ہے۔اس لئے واضح طور پر وزارت خزانہ کے ذریعہ اٹھایا گیا یہ بڑا قدم، تین سال کی تاخیرسے اٹھایا گیا ہے۔ وزارت خزانہ بینکوں سے حکومت کے ذریعے دستیاب کرایا جا رہا سرمایہ کے علاوہ بازار سے 56،000 کروڑ روپے کا سرمایہ جٹانے کی امید کر رہا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ آئی پی او بازار میں صرف ایک شعبہ کے ذریعے جاری کی جانے والی ایکویٹی کو کھپانے کےلائق کافی خواہش ہوگی۔
کل ملاکر کہانی یہ ہے کہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے بینکوں اور بقایادار کارپوریٹ گروپوں کو بچایا جا رہا ہے، جن کے پرموٹر آج بھی بینکوں پر ہنستے ہوئے ہی پائے جائیںگے۔
Categories: فکر و نظر