کیا ہوتا اگر ترقی پسند تحریک کی پہلی کل ہند کانفرنس کے لیے پریم چند کے مشورے پر ’قوم پرست ‘کنھیالال منشی کی صدارت منظور کر لی جاتی ؟
جب میں نے منشی(پریم چند) جی کو مجوزہ کانفرنس کی صدارت کے لیے لکھا تو پہلے انہوں نے معذوری ظاہر کی ۔انہوں نے لکھا کہ اس وقت ان کے پاس لاہور کے ہندی سمیلن اور حیدرآباد دکن کی ہندی پرچار سبھا کی صدارت کے دعوت نامے آئے ہیں ۔مزید بر آں مسٹر کنھیا لال منشی کی تحریک پر وردھا میں گاندھی جی کی ایک کل ہند ادبی اجتماع (بھارتیہ ساہتیہ پریشد)اپریل میں ہی کرنا چاہتے ہیں ۔اس میں بھی انہیں شریک ہونا ہے ۔حسن اتفاق سے منشی پریم چند کے وہ خطوط جو انہوں نے مجھے اس سلسلے میں لکھے تھے ،میرے پاس محفوظ رہ گئے ۔اور وہ نیاادب (مارچ،فروری 1940)میں شائع کیے گئے تھے ۔15مارچ کے خط میں انہوں نے مجھے لکھا؛
’صدارت کی بات ٗمیں اس کا اہل نہیں ۔عجز سے نہیں کہتا میں اپنے میں کمزوری پاتا ہوں۔مسٹر کنھیا لال منشی مجھ سے بہت بہتر ہوں گے ،یا ڈاکٹر ذاکر حسین ،پنڈت جواہر لال نہرو تو بہت مصروف ہوں گے۔ورنہ وہ نہایت موزوں ہوتے۔اس موقع پر سبھی سیاسیات کے نشے میں ہوں گے ۔اور ادبیات سے شاید ہی کسی کو دلچسپی ہو لیکن ہمیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے ۔اگر مسٹر جواہر لال نہرو نے دلچسپی کا اظہار کیا تو جلسہ کامیاب ہوگا۔
میرے پاس اس وقت بھی صدارت کے دو پیغام ہیں ایک لاہور ک ہندی سمیلن کا دوسرا حیدرآباد دکن کی ہندی پرچار سبھا کا ۔میں انکار کر رہا ہوں ۔لیکن وہ لوگ اصرار کر رہے ہیں ۔کہاں کہاں پریسائڈ کروں گا۔ہماری انجمن میں کوئی باہر کا آدمی صدر ہوتو زیادہ موزں ہے۔مجبوری درجہ میں تو ہوں ہی ۔کچھ رو گالوں گا۔اور کیا لکھوں ۔تم ذرا پنڈت امرناتھ جھا کو تو آزمائو۔انہیں اردو ادب سے دلچسپی ہے اور شاید وہ صدارت منظور کرلیں۔‘(15مارچ 1936)
لیکن ایک دو اور خطوں کے بعد بالآخر منشی پریم چند نے ہماری درخواست منظور کر لی اور مجھے لکھا؛
اگر ہمارے لیے کوئی لائق صدر نہیں مل رہا ہے تو مجھی کو رکھ لیجیے۔مشکل یہی ہے کہ مجھے پوری تقریر لکھنی پڑے گی ۔۔۔۔میری تقریر میں آپ کن مسائل پر بحث چاہتے ہیں اس کا کچھ اشارہ کیجیے۔میں تو ڈرتا ہوں میری تقریر ضرورت سے زیادہ دل شکن نہ ہو۔آج ہی لکھ دو تاکہ واردھا جانے سے قبل اسے تیار کرلوں۔(19مارچ 1936)
اب یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ پریم چند نے ہماری کانفرنس کی صدارت کے لیے کنھیا لال منشی کو اپنے سے بہتر سمجھاتھا۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس شروع زمانے میں ہمارے اور ان کے خیالات میں کئی باتون میں فرق تھا۔لیکن ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ کنھیا لال منشی 1936میں ایک قوم پرست اور گجراتی زبان کے اہم ناول نگار کی حیثیت سے ہمارے سامنے آئے تھے۔جب دو سال بعد صوبہ بمبئی میں وہ کانگریس کے وزیر داخلہ بنے اور انہوں نے عوام کی شہری آزادیاں سلب کرنا شروع کیں اور سرمایہ داروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہڑتالی مزدوروں پر گولی چلوائی تب ہی لوگوں کو ان کی ’قوم پرستی ‘اور بھارتی’ کلچر ‘سے ’دلچسپی ‘کی اصلی حقیقت معلوم ہوئی ۔
رفتہ رفتہ منشی صاحب نے کانگریس سے بھی علیحدگی اختیار کر لی اور مالدار فرقہ پرستو ں سے علانیہ مل گئے ۔بعد کو انہیں دوبارہ کانگریس میں شامل کر لیا گیا۔بہر حال اس وقت بھی ترقی پسند انجمن کے بیشتر اراکین کنھیالال منشی سے اپنی کانفرنس کی صدارت کے لیے درخواست کرنے کو تیار نہ تھے ۔رہ گئے پنڈت جواہر لال نہرو اور ڈاکٹر ذاکر حسین تو ملک کے معزز اور ترقی پسند قومی اور تعلیمی راہ نماہونے کی حیثیت سے ہم اپنی تحریک کے واسطے ان کی ہمدردی کئ خواہش مند ضرورتھے جو ہمیں حاصل ہوگئی تھی ۔لیکن ہماری نظر میں ادیبوں کی کانفرنس میں ادیب ہی کی صدارت سب سے اچھی تھی۔
Categories: ادبستان