آزادی کی لڑائی کے دور میں گاندھی، ساورکر، امبیڈکر، نہرو سب نے ایک مثالی ہندوستان کانقشہ رکھا، جس کے بطن سے عدم تشدد، صبروتحمل کا شہد نکلتا ہے، جو دنیا میں کہیں اور نہیں ہے۔
ہندوستان کی روح بھٹک رہی ہے۔ جانے کب اس نے عہد زریں دیکھا لیا تھا، جس کو واپس لانے کے لئے جب تب کوئی گھوڑسوار تلوار لےکر آ جاتا ہے اور للکارنے لگتا ہے۔ کوئی اس زمانے میں لے جانے کا خواب دکھاتا ہے تو کوئی اس زمانے کو دوبارہ لانا چاہتا ہے۔ اس بھٹکتی ہوئی روح کے پاس گھوڑا ایک ہی ہے۔ وقت وقت پر گھوڑسوار بدل جاتے ہیں۔ ہندوستان کو اسی بھٹکتی ہوئی روح کی آہ لگ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم اور آپ تشدد کی بات کرنے والے ہیروں کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہم سب کو وہ عہد زریں چاہیے جو کبھی تھا ہی نہیں۔ ماضی کی مثال پسندی اتنی یکطرفہ ہےکہ کئی بار لگتا ہے کہ اس عہد زریں میں کبھی کسی نے جھوٹ ہی نہ بولا ہو، کسی کا قتل نہ کیا ہو، کوئی ہیرا پھیری نہ ہوئی ہو۔ جو بھی تھا ، خدائی تھا۔ ایسا دوراس زمین پر صرف ہندوستان میں ہی ہوا اور کہی نہیں ہوا۔ عدم تشدد کو بہتر طور پرسمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم تشدد کو بہتر طریقے سے سمجھیں۔ تشدد کو لےکر ایماندار ہوں۔
قدیم ہندوستان کی ستائش آج تک جاری ہے۔آزادی کی لڑائی کے دور میں ہوا۔ موجودہ دور اتنا کھوکھلا ہو چکا تھا کہ ماضی سے خود اعتمادی تلاشنے کی ہوڑ سی مچ گئی۔آزادی کے بعد قدیم ہندوستان کو سمجھنے کےلئے کتنی ہی گہری کوشش ہوئی مگر ان سب کو کبھی مارکسی تو کبھی وطن پرست، کبھی قدامت پسند تو کبھی کچھ اور کہہکر خارج کیا جانے لگا۔ تاریخی رجحانات کا آپسی تصادم مذہب کے نام پر احمقانہ مفروضے کے لئے جگہ بناتا رہا۔ سیاسی اقتدار کی حمایت سے مذہب کا لبادہ اوڑھے لوگ قدیم ہندوستان کے بارے میں کچھ بھی اعلان کر سکتے ہیں۔ اس اعلان میں آخری سچ ہونے کا دعویٰ بھرا رہتا ہے۔اس کا اتنا اثر رہتا ہے کہ آپ بی ڈی چٹّوپادھیائے، سویرا جیسوال، کے ایم شریمالی، ڈی این جھا، رامشرن شرما، رومیلا تھاپر، کم کم رائے، کنال چکرورتی، نین جوت لاہری، اپندر سنگھ جیسوں کو پڑھنے سے پہلے ان کو رجیکٹ کرنے لگتے ہیں۔ ویسے ان کا لوہا ماننے والے بھی کم نہیں ہیں۔ کلاس روم میں انہی کا کام بولتا ہے۔
پولیٹکل وار روم میں انہی کو چیلنج دیا جاتا ہے۔ ان کے لکھے اور ان کے دئے موضوعات کو لےکر نہیں بلکہ حکومت کے دم پر۔ تاریخ کو پڑھنا ہمیشہ کسی نتیجہ پر پہنچنا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس وقت کو دیکھنا اور جاننا ہوتا ہے۔ پڑھنے سے جو باقی بچتے ہیں وہی پڑھے لکھے کو سرے سے خارج کر دیتے ہیں۔ ان دنوں قدیم ہندوستان کی مثالیت پسندی پھر سے تھوپی جا رہی ہے۔ ایک وزیر اعظم کا ظہور ہوا ہے جو خود بھی اور ان کے اثر سے دیگر عوام بھی پلاسٹک سرجری سے لےکر پھولوں سے آرستہ ہوائی جہاز تک کو تمام سائنسی دریافتوں پر چھوڑ دیتے۔ قدیم ہندوستان کا سائنسی تجربہ یا طریقہ بھی اسی طرح مشتبہ اور ادھورا ہے جس طرح قدیم ہندوستان کے فلسفوں اور سماجی منظرنامے کی مثالیت پسندی، ان کی شان و شوکت ادھوری ہے۔
آزادی کی لڑائی کے دور میں گاندھی، ساورکر، امبیڈکر، نہرو سب نے قدیم ہندوستان سے مثالیت پسندی اٹھائی۔ اپنے اپنے اثرات کی توسیع کی اور دنیا کے سامنے ایک مثالی قدیم ہندوستان کانقشہ رکھا جس کے بطن سے عدم تشدد، صبروتحمل کا شہد نکلتا ہے، جو دنیا میں کہیں اور نہیں ہے۔ اس بات کو لےکر بحث ہو سکتی ہے اور اس میں دم بھی ہے کہ ان سبھی کی سوچ صرف قدیم ہندوستان کے رجحانات سے متاثر نہیں تھی۔ مغرب کے کئی رجحانوں اور اس وقت کا منظرنامہ بھی ان کو عدم تشدد کی طرف دیکھنے کے لئے اشارہ کر رہا تھا۔
مؤرخ اپندر سنگھ کی ایک کتاب آئی ہے۔ اسی کے متعلق میں یہ سب باتیں کر رہا ہوں۔ کتاب کا نام ہے Political Violence in Ancient India۔ ہاورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی ہے اور 598 صفحات کی اس کتاب کی قیمت ہے 45 امریکی ڈالر۔ ہندوستانی روپے میں قیمت کا پتا نہیں چل سکا۔ میں کسی بھی کتاب کے بارے میں لکھتے وقت ناشر، قیمت اور صفحات کی تعداد ضرور لکھتا ہوں،تاکہ پڑھنے کے بعد لوگ نہ پوچھیں کہ کتنے کی ہے اور کہاں سے خریدیں۔ اس کے بعد بھی لوگ یہ سوال کرتے ہیں۔ اس کتاب کو اس کو پڑھنیاچاہیے جو ہندو مسلم کی بحث کو دور سے دیکھ رہا ہے۔ جس کی قدیم ہندوستان میں دلچسپی ہے۔ وہ تو کبھی نہیں پڑھےگا جو ہندو-مسلم ڈبیٹ صرف ایک طرفہ مقصد سے کرتا یا کرواتا رہتا ہے۔
یہ کتاب قدیم ہندوستان میں تشدد اور عدم تشدد کو لےکر مباحث کی جڑوں کی تلاش کرتی ہے۔ دیکھنے کی کوشش ہے کہ کب اور کہاں سے عدم تشدد کے عناصر حاوی ہونے لگتے ہیں۔ اسی کے ساتھ اپندر سنگھ نے تشدد کے عناصر کو بھی سامنے لانے کی کوشش کی ہے تاکہ ہم اس دور کے تشدد اور اس کی شکل کو سمجھ سکیں۔ ریاستی اقتدار کے دائرے میں تشدد کی شکل الگ الگ رہی ہے۔ کتاب کا پہلا چیپٹر راج گیر اور ویشالی سے شروع ہوتا ہے۔ مگدھ کی راجدھانی راج گیر جو نہ صرف سیاسی اقتدار کا مرکز تھا بلکہ قربانی اور عدم تشدد پر زور دینے والے مفکرین کا بھی مرکز رہا ہے۔ ہم کم ہی بات کرتے ہیں کہ شروعاتی دنوں میں بیٹے نے کرسی کے لئے والد کا قتل تک کیا ہے۔ بمبسار کا قتل اجات شترو نے کیا۔ اس کے بعد کے چار جانشینوں کو بھی پدرکش کہا گیا ہے۔ پدر کش کا مطلب والد کا قتل کرنے والا۔ ہریانکاخاندان سلاطین (HARYANKA DYNASTY) کا خاتمہ لوگوں نے کیا۔ اس کے راجہ کو کرسی سے اتار دیا اور اس کے سپاہی ششوناگ کو گدی سونپ دی۔ یہ تشدد کی دوسری شکل ہے۔ عوام بھی راجہ طے کرتا تھا۔ ششوناگ خاندان کا خاتمہ تشدد سے ہوتا ہے اور اس کی جگہ نند خاندان آتا ہے۔ جو خود کو کامل ششتریوں کا مسمار کنندہ اعلان کرتا ہے۔ موریہ خاندان بھی روایتی اور عالی نسب شتریوں یا حکمراں طبقے کو پلٹتے ہوئے اپنی ریاست اور فوجی اقتدار کی توسیع کرتا ہے۔ اپندر سنگھ ان سب قصّہ کو تشدد کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ سمجھنا چاہتا ہے کہ ان سب کے درمیان تشدد اور عدم تشدد کو لےکر کس طرح کا نظریہ سماج سے لےکر شاہی حکومت تک ابھر رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چھٹی اور پانچویں قبل مسیح کےبعد کی صدی سے تشدد اور عدم تشدد کو لےکر ہونے والی بحثیں جارحانہ ہونے لگتی ہیں۔ اسی عہد میں قدیم ہندوستان کے خیالات کی تاریخ سب سے زیادہ زرخیز تھی۔ مذہب کا مطلب بھی وقت کے ساتھ بدلتا ہے۔ پہلے مذہبی رسوم و رواج تک محدود تھا پھر اس کو سیاسی طور پر دیکھا جانے لگا اور اس کے بعد اخلاقی طور پر۔ اس دور میں اقتدار اور علم کو لےکر خوب بحث ہوتی ہے۔ اتنی کہ اس کی نشانی یا پھر وہ بحثیں آج تک چلی آ رہی ہیں۔ یہیں سے ہندوستانی تہذیب میں قربانی کو لےکر کافی زوردار بحث ہونے لگتی ہے۔ قربانی کے مطلب میں شامل تھا اقتدار اور معنی میں لالچ کو چھوڑ دینا۔ عدم تشدد کو لےکر بھی بحث ہوتی ہے۔ مؤرخ اپندر سنگھ تلاش کر رہے ہیں کہ ہم کہاں سے تشدد کی ستائش کی تنقید کے ذرائع تلاش سکتے ہیں اور کہاں سے دیکھ سکتے ہیں کہ تشدد سے بیزاری ہو رہی ہے اور عدم تشدد کا اصول قائم ہو رہا ہے۔
اس کے تین جواب ہیں۔ ویدی فرقے کے اندر بھی عدم تشدد کا پتا چلتا ہے۔ غیر ویدی صوفی روایت میں، جس کو جین اور بدھ روایت کہا جاتا ہے، عدم تشددپسند مرشد ملتے ہیں۔ ایک تیسرا رجحان ہے جو برہمنیت، بدھ مذہبی پیروکار اور جین روایت کے متوازی ارتقا پذیرہوتی ہے۔ میں ابھی اس کتاب کو پڑھ رہا ہوں۔ یہ کتاب قدیم ہندوستان کے حوالے سے ہماری سمجھ کو ثروت مند کرتی ہے۔ ثروت مند کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ایک فریق کی جیت اور ایک فریق کی ہار کا اعلان کرتا ہے۔ بلکہ بتاتی ہے کہ زندگی کو اس طرح دیکھا ہی نہیں جا سکتا ہے۔ زندگی کو ہی نہیں، اپنی تاریخ کو بھی نہیں۔ جو ایسا نہیں کرتے ہیں وہی ماضی پر اپنی ناسمجھی تھوپ دیتے ہیں اور ہندوستان کی روح کو بےچین کر دیتے ہیں۔
سماج کے اندر تشدد کی روایت کو سمجھنا چاہیے تبھی ہم آج کے تناظر میں اقتدار کے تشددپسند کردار کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہمارے سماج میں ذاتی تشدد کا غیر انسانی دائرہ آج بھی جاری ہے۔ اقتدار کے تشدد آمیز قصّوں کو ہم بھوگ رہے ہیں مگر بولتے وقت اپنی سیاسی عقیدت کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ جی این سائی بابا کو نکسل حامی ہونے کے الزام میں جیل میں بند کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی بیوی کو خط لکھا ہے کہ ان کے ساتھ ایسا برتاؤ ہو رہا ہے جیسے کوئی جانور اپنے آخری دنوں میں تڑپکر مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جی این سائیں بابا 90 فیصدی معذور ہیں۔ آپ معذور کہہ لیجئے تو اس خدائی ودیعت کے ساتھ یہ برتاؤ ہو رہا ہے کہ سردی سے کانپ رہا ہے مگر کمبل نہیں دیا جا رہا ہے۔ ایک پہلو یہ ہے۔ دوسراپہلو یہ ہوگا کہ آپ کہیںگے کہ نکسلیوں نے جوانوں کو مارا جن کا کوئی قصور نہیں تھا۔ ایک تیسرا پہلو یہ ہے کہ آدیواسیوں کے ساتھ ریاستی اقتدار نے تشدد کیا، ان کو بےدخل کر کے ان کی زمین اور جائیداد بڑے صنعتی گھرانوں کو سونپ دی۔ تشدد کا یہ دائرہ تینوں نقطہ نظر سے ظالمانہ ہے۔ ایک چوتھا فرقہ ہے، یہی اقتداری فرقہ جوان سے لےکر شہری جس کو جب چاہے اٹھاکر جیلوں میں بند کر سکتا ہے اور آپ کو سالوں کورٹ کا چکر لگوا سکتا ہے۔
ہم سب تشدد کے شکار ہیں۔ ہم ہر طرح کے تشدد کے عادی ہو چکے ہیں۔ بيوقوف ہو چکے ہیں۔ ہم سب تشدد آمیز ہیں اور تشدد کے دائرے میں ہی جینے کے لئے ملعون ہیں۔ اس لئے عدم تشدد کی حمد وثنا کرنے سے پہلے اس تشدد کا چہرہ دیکھ لیجئے جو ہم سب کا ہے۔ تشدد کو سہنا بھی تشدد ہے۔ تشدد کو ہوتے ہوئے دیکھنا بھی تشدد ہے۔ تشدد کرنے والی ریاست کا عدم تشدد کا ڈھونگ کرنا بھی تشدد ہے۔ آپ یہ کتاب اپنی دلچسپی کو دھیان میں رکھتے ہوئے پڑھ سکتے ہیں۔ ہم نے جو مثال دیے ہیں وہ پورے نہیں ہیں۔ تقریباً 600 صفحات کی کتاب کے بارے میں رائے اس کو پڑھنے کے بعد ہی بنائیے نہ کہ میرے تجزیہ کے بعد۔ کاہلی بھی تشدد ہے دوست۔