گزشتہ ہفتے ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی جھوٹی تصویریں سوشل میڈیا میں عام کی گئیں۔ انتخابات کے دور میں افواہیں اور فیک نیوز کافی بڑھ جاتی ہیں ۔ غالباً ان تصویروں کا مقصدسیاسی مقابل پارٹی کو نقصان پہنچانا تھا۔ایک تصویر میں نریندر مودی کو جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید سے ہاتھ ملاتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور دوسری تصویر میں گجرات کے ڈی جی پی کو راجناتھ سنگھ کے قدموں میں بیٹھا ہوا دکھایا گیا ہے !یہ تصویریں کانگریس کے کارکنوں عالمگیر رضوی اور ارشد چشتی نے ٹوئٹر پر اپلوڈ کی تھیں اور افسوس ظاہر کیا تھا کہ جب ایسے حالات ہوں گے تو الیکشن میں بدعنوانی کی امید کیوں نہ کی جائے ! کانگریس کے ترجمان سنجے جھا نے بھی عالمگیر رضوی کی پوسٹ کو ریٹوئٹ کیا !
آلٹ نیوز کے مطابق یہ دونوں تصویرں جھوٹی ہیں اور سوشل میڈیا ہوَش سلیرٴ نے پندرہ دن پہلے ہی ان تصویروں کو رد کر دیا تھا۔ تقریباً ایک سال سے یہ تصویرں وقتاً فوقتاً عام کر دی جاتی ہیں !تفتیش میں معلوم ہوا کہ اصل تصویر میں نریندر مودی پاکستان کے سابق پرائم منسٹر نواز شریف سے ہاتھ ملا رہے تھے ۔ اس تصویر میں نواز شریف کے چہرے پر حافظ سعید کا چہرہ لگا کر مودی کو بدنام کرنے کی پرزور کوشش کی گئی!دوسری تصویر ایک فلم “کیا یہ سچ ہے”سے لی گئی تھی اور اس میں بھی سیاسی رہنما کا کردار ادا کرنے والے فنکار کے منہ پر راجناتھ سنگھ کا چہرہ لگا دیا گیا ! جب ان تصویروں کی صداقت ثابت ہو گئی تو سنجے جھا نے اپنا ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دیا ۔
دوسری فیک نیوز کا تعلّق اتر پردیش کے ضلع بھدوہی سے ہے۔ بھدوہی میں سوامی وویکا نند کی مورتی کو دماغی طور پر معذور کسی شخص نے نقصان پہنچایا تھا۔ اس نے مورتی کا سر قلم کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہاں کے شہری ناراض تھے اور انتظامیہ سے مطالبہ کر رہے تھے کہ سوامی جی کی نئی مورتی جلد از جلد لگائی جائے۔ اس خبر کو دینک جاگرن اور پترکا نے چھاپا تھا۔ لیکن اس تصویر کو سوشل میڈیا پر مذہبی اور فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا۔ شنکھ ناد نامی ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ اور دوسری فرقہ پرست ویب سائٹوں نے اسکو مسلمانوں کی سازش بتایا۔ ان ویب سائٹوں نے مسلمانوں کی تشبیہ عالمی دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ سے بھی کر ڈالی !
اس پر بوم لائیو ویب سائٹ نے تفتیش کی اور بھدوہی کے ایس پی (پولیس) سے بات کی۔ پولیس نے واضح کیا کہ مورتی کا سر قلم کرنے کا کارنامہ نیرج گوتم نامی شخص نے انجام دیا تھا، یہ شخص دماغی طور پر صحت مندنہیں ہے ۔ پولیس نے بتایا کہ مجرم کے خلاف ضروری اقدام اٹھاۓ جا چکے ہیں ۔
ہفتے کی تیسری اہم فیک نیوز کا تعلّق ایک سرکاری اسکیم یا پالیسی سے ہے۔ ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر (Direct Benefit Transfer) یعنی ڈی بی ٹی (DBT)کی اسکیم کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سرکار کی طرف سے ملنے والی مالی مدد کو براہ راست عوام کے بینک کھاتے میں منتقل کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بچولیوں اور دلالوں سے آزادی مل جاتی ہے اور حقداروں کو رقم پوری اور وقت پر مل جاتی ہے۔ نریندر مودی نے ہندوستانی ریاست کرناٹک میں ایک ریلی میں دعویٰ کیا کہ ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر کی پالیسی انہوں نے شروع کروائی ہے جسکی وجہ سے کچھ لوگ اور انکے دلال ان کے خلاف رہتے ہیں ! ویڈیو دیکھئے:
My govt has saved Rs. 57,000 crore of public money from middlemen through DBT. This is one of the reasons corrupt parties hate me : PM Modi pic.twitter.com/D54O5eSYWG
— BJP (@BJP4India) October 30, 2017
الٹ نیوز نے اس دعوے کی سچائی جانی اور تفتیش میں پایا کہ ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر اسکیم منموہن سرکار نے شروع کی تھی اور فروری 2013 کے بجٹ میں اس کا ذکر ہے !اس کے علاوہ پریس انفارمیشن بیورو(پی آئ بی-PIB)کے 27 فروری والے پریس ریلیز میں اسکیم کے افتتاح کی بات کی گئی ہے !خود نریندر مودی نے 31 اگست 2017 کو دو ٹوئٹ کئے تھے جن میں اس بات کی تصدیق ہے کہ ڈی بی ٹی کی پالیسی منموہن سنگھ نے کی تھی ! یہ اس بات کو پختہ کرتا ہے کہ نریندر مودی نے غلط دعویٰ کیا تھا !
اکتوبر کے آخری ہفتے میں ایک ویڈیو بہت وائرل ہوا۔ ویدوں میں دکھایا گیا تھا کہ وو ویڈیو گجرات صوبے کا ہے جہاں راہل گاندھی کی ریلی میں عوام کو پیسے بانٹے جا رہے ہیں۔ ایک طریقے سے الزام لگایا گیا کہ کانگریس ووٹ خریدنے کے لئے اس طرح کے ہتھکنڈے گجرات میں اپنا رہی ہے ! بوم لائیو نے تفتیش کے لئے کانگریس کے ترجمان سے رابطہ کیا لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ بعد میں بوم لائیو نے پایا کہ وہ ویڈیو حالانکہ کانگریس سے ہی متعلق ہے لیکن وہ گجرات صوبے کا نہیں ہے، غالباً وہ نارتھ ایسٹ کے صوبوں کا ہے ۔ ویڈیو میں تبدیلی کرکے راہل گاندھی کی آواز کو جوڑا گیا ہے تاکہ کانگریس کو بدنام کیا جا سکے اور الیکشن سے وابستہ مفاد کو پورا کیا جا سکے ! اصلی ویڈیو یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
پچھلے ہفتے ہی راہل گاندھی کی ایک تصویر بہت وائرل ہوئی۔ تصویر میں دکھایا گیا تھا کہ راہل گاندھی نے اپنے بایئں ہاتھ سے قومی پرچم کو سلام کیا تھا۔ بوم لائیو کے مطابق یہ فوٹو چنڈ یگڑھ کے ایک وکیل اجے جگا نے لیا تھا۔ اجے نے اپنے اس ٹوئٹ میں سبرامنین سوامی کو بھی ٹیگ کیا تھا۔ سوامی نے اس ٹوئٹ کو ریٹوئٹ بھی کیا !
دراصل اس تصویر کی حقیقت یہ ہے کہ یہ تصویر راہل گاندھی کی کوئی پرانی تصویر ہے جس میں وہ ترنگے کو سلام کر رہے ہیں اور دائیں ہاتھ سے ہی کر رہے ہیں۔ لیکن اس تصویر کو فلپ کرکے تصویر کو الٹا رخ دے دیا گیا اور راہل گاندھی کے نام پر جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا !اس کی تصدیق اس ویڈیو میں ہو جاتی ہے۔ سوشل میڈیا ہوَش سلیر نے بھی بوم لائیو کی تفتیش کو صحیح مانا ہے۔
(مضمون نگار علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات میں ریسرچ اسکالر ہیں۔)