دھومل اتنے’سادہ مزاج‘تھے کہ اہل خانہ تک کو ان کے بڑے شاعر ہونے کا ’علم ‘تب ہوا، جب ریڈیو پر موت کی خبر آئی!
کیا آزادی صرف تین تھکے ہوئے رنگوں کا نام ہے، جن کو ایک پہیہ ڈھوتا ہے یا اس کا کوئی مطلب ہوتا ہے؟عوام کےاکثرسارےضروری سوالوں پر خاموشی اختیار کرنےوالی پارلیامنٹ پر اپنے خاص طنزیہ مزاحیہ اسلوب میں نظم کہنے والے اور ہندی شاعری میں ینگری ینگ مین کے نام سے مشہور سداما پانڈے ’دھومل ‘کم وبیشچار دہائی پہلے یہ سوال پوچھاتھا۔
پھرکون کہہ سکتا ہے کہ ان کے دل و دماغ میں نئی پرانی سامراجیت، تھیلی شاہوں اور مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں اسپانسرملک کی جمہوریت کو پریشان کرنے والی ان کارستانیوں کے اندیشے نہیں تھے، جن کو آج ہم جھیل رہے ہیں؟
جلی ہوئی جمہوریت کے ساتھ عام آدمی کی مجبوری اور اعلیٰ متوسط طبقوں کی مجرمانہ سیرت کو تبھی پہچان لینے والے دھومل کی پیدائش 9 نومبر، 1936 کو اتّر پردیش کے وارانسی ضلع کے کھیولی گاؤں میں ہوئی تھی۔ابھی وہ ٹھیک سے ہوش بھی نہیں سنبھال پائے تھے کہ ان کے سر سے والد شیونایک پانڈے کا سایہ اٹھ گیا اور وارانسی کے ایک انٹر کالج میں چل رہی ان کی تعلیم رہ گئی۔
اتناہی نہیں، 13 سال کے ہوتے ہوتے ان کی شادی کر دی گئی ۔اپنی ذمہ داری نبھانے کے لئے ان کولکڑی تاجر کے یہاں نوکری شروع کرنی پڑی۔ بعد میں انہوں نے ایک تربیتی مرکز سے بجلی سے متعلق کاموں کا ڈپلومہ کیا اور اسی ادارے میں انسٹرکٹرمقرر ہو گئے۔
نوکری ملی تو اس کے چکر میں ان کو سیتاپور، بلیا اور سہارن پور وغیرہ کی ہجرت بھی کرنی پڑی، لیکن ان کا دل بنارس میں لگتا تھا یا پھر کھیولی میں، جس سے اپنی وابستگی انہوں نے ختم نہیں ہونے دی ۔ان کا رہن سہن اتنا سادہ تھا کہ برین ٹیومر کے شکار ہوکر 10 فروری، 1975 کو وہ اچانک موت سے ہارے تو ان کےگھر والوںتک نے ریڈیو پر ان کی موت کی خبر سننے کے بعد ہی جانا کہ وہ کتنے بڑے شاعر تھے۔
بنارس کے منیکرنکا گھاٹ پر ان کی تجہیز و تکفین کے وقت صرف کنورنارائن اور شری لال شکل پہنچے تھے۔اپنیآپ بیتی میں وہ اپنی جس موت کو غیر یقینی لیکن دن میں سیکڑوں بار ممکن بتاتے تھے، وہ اس دن آئی ہیکچھ ایسے دبے پاؤں تھی!
سینئرافسانہ نگارکاشی ناتھ سنگھ بتاتے ہیں کہ رسمی اعلیٰ تعلیم سے محروم دھومل بعد میں نظم سیکھنے اور سمجھنے کے لیےایسے’ مضطرب’ہوئے کہ زندگی بھر طالب علم بنے رہے۔ انہوں نے اپنے پڑوسی ناگانند اورلغات کی مدد سے انگریزی بھی سیکھی، تاکہ اس کی نظمیں بھی پڑھ اور سمجھ سکیں۔البتہ، باضابطہ مطالعے کی کمی کو انہوں نے اس شکل میں زندگی بھر جھیلا کہ کمیونسٹ ہونے کے باوجود نہ عورتوں کو لےکر اپنی پدری سوچ سے آزاد ہو پائے اور نہ گاؤں اور شہروں کے درمیان کسی ایک چن پائے۔
اشوک واجپئی کا مجموعہ ‘شہر اب بھی سنبھاونا ہے ‘آیا تو انہوں نے یہ کہہکر اس کی تنقید کی کہ شہر تو ایک فرنٹ ہے، وہ امکان کیسے ہو سکتا ہے؟لیکن اس کا ایک فائدہ بھی ہوا۔’غیر رسمی معلومات ‘ نےان کےبنے بنائےترقی پسندنظریہ کی قید سے نکلنے میں آسانی فراہم کی اور وہ سچّے معنوں میں کسان کی زندگی کی تکلیفوں اور جدو جہد کے ترجمان اور جاگیر دارانہ نظام سے لڑنے والی جمہوریت کے جنگجو شاعر بنکر نکھر سکے۔
کھائےپئے اور اگھائے لوگوں کی ‘انقلابی’ذہنی جگالیوں میں گہرے عدم اعتمادکا اظہار کرنے میں انہوں نے ‘عمومیت’ اور ‘ بے سمت اندھے غصے کی تقلید ‘جیسے سنگین الزام بھی جھیلے لیکن پوچھتے رہے کہ ‘مشکلیں اور جدو جہد سے الگ ‘ لوگ انقلابی کیسے ہو سکتے ہیں؟ان کا یقین تھا کہ ‘چند ٹچّی سہولتوں کے لالچی /مجرموں کے مشترکہ خاندان ‘ کے لوگ ایک دن ختم ہو جائیںگے اور اسی اعتماد کی طاقت سے انہوں نے اپنے اندر’انتشار’کوقبول کرکے بھیاخلاصکیتک بندی اخلاص سے نہیں کی ۔
نظموں میں ممنوعہ موضوعات کی دریافت کرنے اور فریب دینے والےنظام کیپروردہروایات،تہذیب، ذوق و شوق، ادب اور شرافت کی ایسی تیسی کرنے والے دھومل نے اپنا تخلص اتنا رومانی کیوں رکھا؟
بنارس میں ان کے ہم عصر شاعر تھے-سداما تیواری۔ وہ ابھی بھی ہیں اورسانڈبنارسیکے نام سے مزاحیہ نظمیں لکھتے ہیں۔دھومل نہیں چاہتے تھے کہ نام کی یکسانیت کی وجہ سےان کی پہچان میں کنفیوزن ہو۔ اس لئے انہوں نے تخلص کی تلاش شروع کی اور چونکہ نظم کی تہذیب ان کو رومانویت کےستون میں سے ایک جئے شنکر’پرساد’کے گھرانے سے ملی تھی، جس سے ان کے خاندانی رشتے تھے، اس لئے تلاش ‘ دھومل ‘ پر ہی ختم ہوئی۔
دھومل نے اپنی چھوٹیسی عمر میں ہی ہندی تنقید کی روایت سے کہانیوں کی طرف چلا آ رہا منھ گھماکر نظموں کی طرف کر لینے میں کامیابی پا لی تھی۔یہ اور بات ہے کہ ان کی پہلی شائع شدہ تخلیق ایک کہانی ہی تھی، جو اپنے وقت کے مشہور رسالہ ‘ کلپنا ‘ میں چھپی تھی۔ وہ بنارس میں ادیبوں کی خودداری کی علامت مانے جاتے تھے اور جس میں بھی اوچھا پن دیکھتے اس کے خلاف ہو جاتے۔
کچھ لوگ الزام لگاتے ہیں کہ وہ نامور سنگھ کے لٹھیت کی طرح کام کرتے تھے۔ اس میں کم از کم اتنا صحیح ہے کہ وہ نامور کے خلاف کچھ بھی سننا پسند نہیں کرتے تھے۔لیکن ان کے مزاج کے مدنظر اس سے بھی زیادہ سچّی بات یہ ہے کہ جس بھی لمحہ ان کو لگتا کہ نامور ان کو استعمال کر رہے ہیں، وہ ان کو چھوڑ دیتے۔دھومل کے زندہ رہتے 1972 میں ان کی نظموں کا ایک ہی مجموعہ شائع ہو پایا تھا-سنسد سے سڑک تک۔ ‘ کل سننا مجھے ‘ ان کی موت کے کئی سال بعد چھپا اور اس پر 1979 کاساہتیہ اکادمی انعام ان کو بعدوفات دیا گیا۔ بعد میں ان کے بیٹے رتن شنکر کی کوششوں سے ان کا ایک اور مجموعہ چھپا-سداما پانڈے کا پرجا تنتر۔
ان کی اس مقبول عام نظم کو یاد کریں؛
ایک آدمی روٹی بیلتا ہے
ایک آدمی روٹی کھاتا ہے
ایک تیسرا آدمی بھی ہے
جو نہ روٹی بیلتا ہے، نہ روٹی کھاتا ہے
وہ صرف روٹی سے کھیلتا ہے
میں پوچھتا ہوں
یہ تیسرا آدمی کون ہے
اور
میرے دیش کی سنسد مون ہے
تو اب، جب پارلیامنٹ کی خاموشی کئی دہائی لمبی ہو گئی ہے، یہ حقیقت اور صاف ہو گئی ہے کہ عوام مخالف سیاست کی اصلی مخالف جماعت دھومل کی نظموں میں ہی بستی ہے۔
پریہ درشن ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ مکتی بودھ اور رگھوویر سہائے کے بعد دھومل ہمارے پیچیدہ وقت کے تالے کھولنے والی تیسری بڑی آواز ہیں۔ جو بم مکتی بودھ کے اندر کہیں دبا پڑا ہے اور رگھوویر سہائے کے یہاں ٹکٹک کرتا نظر آتا ہے، دھومل کی نظم تک آتےآتے جیسے پھٹ پڑتا ہے۔ کچھ اس طرح کہ اس کی کرچیں ہماری روحوں تک پر پڑتی ہیں۔
یقیناًدھومل کو ایک بار پھر نئے سرے سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ یاد رکھتے ہوئے کہ کچھ طاقتوں کو ان سے اور ان کی شاعری سے بہت پریشانی ہے۔ 2006 میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ان کی ‘موچی رام ‘نظم کو این سی ای آر ٹی کی نصابی کتاب میں شامل کئے جانے کو لےکر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور اس کو بدلواکر ہی دم لیا تھا۔
(مضمون نگارسینئر صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔)
یہ مضمون 9نومبر 2017کو شائع کیا گیا تھا۔
Categories: ادبستان