گراؤنڈ رپورٹ : بہار سے الگ ریاست بننے کے بعد لگا تھا کہ جھارکھنڈ اقتصادی ترقی کی نئی تعریفیں رقم کرےگا لیکن 17 سال بعد بھی ریاست سے مبینہ طور پر بھوک سے مرنے جیسی خبریں ہی سرخیاں بن رہی ہیں۔
اگر آپ جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں ہیں تو ریاست کی یوم تاسیس کی سرکاری تیاریاں ایک ٹک نہار سکتے ہیں۔ بڑے بڑے ہورڈنگس، سڑکوں پر رنگ و روغن۔سرکاری عمارتوں اور خاص کراس مقام پرجہاں تقریب ہونا ہے، لٹو کی طرح ناچتی رنگ برنگی بتیاں۔ اقتدار میں قابض بی جے پی کے لیڈروں کے کٹ آؤٹ کے ساتھ وعدے اوردعوے کے سلوگن یہ احساس کرانے کی کوشش کریںگے کہ الگ ریاست کی خوشیاں، جوش، امنگ سے عوام شرابور ہے۔
لیکن راجدھانی سے کچھ کلومیٹر فاصلے پر گاؤں، قصبات اور آدیواسی، دلت علاقوں کی زمینی حالات کی جانچ کریںگے تو مایوسی و ناامیدی کی آواز سنائی پڑیںگی۔ بھوک، غریبی، بےروزگاری، بے بسی، بیماری، ہجرت، پانی ، جنگل، زمین پر بڑھتے خطرات یہ سوال کریںگے کہ بِرسا کی زمین میں ان کے اُل گُلان (تحریک یا بغاوت) کے خواب کب شرمندہ تعبیر ہوںگے۔15 نومبر کو بِرسامنڈا کی سالگرہ ہے۔ طویل جدو جہد اور تحریک کے بعد سال 2000میں پندرہ تاریخ کو بہار سے بٹوارے کے بعد جھارکھنڈ الگ ریاست بنی تھی۔
الگ ریاست بننے کے بعد ہر کسی نے یہی سوچا تھا اب خوشیاں، امیدیں، توقعات کے پنکھ لگیںگے۔ لیکن جغرافیائی اور انتظامی اختیارات ملنے کے بعد بھی متوازن، مجموعی ترقی اور بہتر مستقبل کے بھروسے پر شک و شبہ کے تاثر نظر آتے ہیں۔حالانکہ ان دنوں حکومت کا ایک سلوگن پر زور ہے ‘ ہو رہے ہیں سپنےساکار، یہ ہے رگھوبرسرکار ‘۔ حکومت نے بتایا ہے کہ یوم تاسیس کی تقریب کے ساتھ 2500کروڑ کی اسکیمیں شروع ہوں گی اور ضرورتمندوں کے درمیان پانچ ہزار کروڑ کی اثاثہ جات بانٹی جائیںگی۔ راجدھانی کے مورابادی میدان میں ہونے والے اس تقریب میں ملک کے صدر رام ناتھ کووند شرکت کریںگے۔
انہی خوشیوں میں الگ الگ جگہوں پر نئے پروجیکٹ کی بنیاد رکھنے اور وعدوں اوراعلان کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کھونٹی میں حکومت نے ڈیفنس یونیورسٹی اور دھنباد میں ایک نئی یونیورسٹی کا افتتاح کیا ہے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ تعلیم سمیت دیگر شعبوں میں 50 ہزار تقرری جلد ہوں گی۔ان کے علاوہ پندرہ نومبر کو جن اسکیموں کی شروعات کو لےکر بی جے پی حکومت زور شور سے تشہیر کر رہی ہے ان میں وزیراعلیٰ صحت بیمہ اسکیم، 108 ایمبولینس اسکیم، جوہار پروگرام نمایاں طور پر شامل ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ اسکیمیں غریبوں کی زندگی میں بہار لےکر آئےگی۔ ظاہر ہے تقریب کو لےکر بی جے پی میں جوش ہے۔
الگ ریاست کے 17 سالوں میں یہاں لگ بھگ بارہ سال بی جے پی اور بی جے پی نظریے کی حکومتیں رہیں۔ حالانکہ اکثر بی جے پی خیمے سے یہ باتیں نکلتی رہی ہیں کہ پہلے اتحاد کی وجہ سے حکومت چلانے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اب بی جے پی اور حکومت دونوں یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ جھارکھنڈ میں مکمّل اکثریت کی حکومت ہونے سے ترقی کا پہیا بھی تیز گھوم رہا ہے۔وزیراعلیٰ رگھوبر داس دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ان کی حکومت بےداغ ہونے کے ساتھ لگاتار مفاد عامہ پر مضبوط فیصلے لیتی رہی ہے۔حکومت کو اس کا بھی گمان ہے کہ جھارکھنڈ کی ترقی کی شرح بڑھکر 8.6 فیصد ہو گئی ہے، جو گجرات کے بعد ملک میں دوسرے نمبر پر ہے اور16-2015 میں فی شخص آمدنی بڑھکر 62 ہزار 818روپے ہو گئی ہے۔
سڑک تعمیر کے ساتھ بنیادی ڈھانچہ کھڑے کرنے میں تین سالوں میں جتنے کام ہوئے وہ پہلے 14 سال میں نہیں ہو سکے۔ ترقی کی یہی رفتار رہی، تو اگلے پانچ سال میں ریاست ملک کی خوشحال اور مضبوط ریاست ہوگی۔ غریبی مٹ جائےگی اور کوئی بے گھر نہیں ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سال کے آخر تک ریاست سے انتہاپسندی ختم ہوجائےگی۔لیکن ریاستی حکومت کی اقتصادی سروےرپورٹ یہ بتاتی ہے کہ پانچ سالوں میں ترقی کی شرح کے اعداد بڑھتے رہے ہیں لیکن اب بھی فی شخص آمدنی کے لحاظ سے قومی اوسط کے قریب آنے میں جھارکھنڈ کو 18 سال لگیںگے۔
کئی موضوعات کے جان کار جھارکھنڈ کے سینئر صحافی رجت کمار گپتا کہتے ہیں کہ راجدھانی میں بڑی تقریب اور اعداد و شمار کی بازیگری عام آدمی کی زندگی میں راحت نہیں پہنچاتی۔ سچ یہ ہے کہ بڑی تقریب کر کےحکومت اور ان کے لوگ خود کو خوش کر رہے ہیں۔ جبکہ بی جے پی میں او پر بیٹھے لوگوں کو بھی زمینی حالات پتا ہیں۔لیکن مرکزی رہنما اور وزیر اکثر ریاستی حکومت کے کام کاج پر پیٹھ تھپتھپاتے رہے ہیں، اس سوال پر گپتا کہتے ہیں کہ یہ سیاسی مجبوریاں ہو سکتی ہے۔
رجت گپتا کا کہنا ہے کہ بے شک چھوٹی اور نئی ریاست کی نظریاتی ترقی، بہترین حکومت اور عمدہ کام کی گارنٹی ہو سکتی ہے، لیکن جھارکھنڈ اس پیمانے پر ناکام رہا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پہلے اتحاد کی حکومت میں کئی قسم کی رکاوٹیں آتی رہی، لیکن اب مضبوط حکومت ہونے کے بعد بھی نوکرشاہی قابو سے باہر ہے۔وہ کہتے ہیں کہ تین سال میں تبدیلی کو لےکر جتنے دعوے کئے جا رہے ہیں، اس سے دس گنا بہتر کام ہو سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بھوک سے ہونے والی اموات کو قبول کرنے کی حالت میں حکومت نہیں ہے۔
دی وائر کے لئے ہم برسا منڈا کی جائےپیدائش اولیہاتو اور آس پاس کے کئی دوردراز گاؤں میں آدیواسیوں سے روبرو ہوئے۔صبح کے آٹھ بجے ہیں۔ اولیہاتو جانے کے راستے روگڑی گاؤں میں ایک قبائلی خاتون نندی اپنے کچّے اور دھنسے مٹی کے گھر کے باہر سہجن کے ڈنٹھل سے ساگ نکال رہی تھیں۔ بیٹا کنور اور بیٹی بیرسی پانی میں گھلا باسی چاول کھا رہے ہیں۔ نندی بتاتی ہے کہ یہی تو روز کی زندگی ہے۔گھر کے اندر جھانکنے بھر سے غریبی ، بے بسی، بد سے بدتر نظر آتی رہی۔ بجلی، بیت الخلا، صاف پانی، دوائیاں، جوتے ، چپل اور بھرپیٹ کھانا اس پریوار کے لئے خواب جیسا ہے۔ حالانکہ حکومت کی طرف سے بیس کلو اناج ان کو ضرور ملتے ہیں۔
نندی بتانے لگی کہ ان کے شوہر اچو منڈا لکڑی بیچنے اور دہاڑی پر کام کرتے ہیں۔ اسی کے سہارے وہ کسی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ اکثر چاول اور جنگلی ساگ ہی ان کا نوالہ ہوتا ہے۔ جمعہ کو سیکو بازار سے آلو خریدا گیا تھا۔ اس رات پورا پریوار چاول اور ترکاری کھاکر خوش تھا۔اس بیچ جنگلوں اور پہاڑوں سے گزرتے برسا کے نغموں کی صوتی لہریں بھی سنائی پڑتی ہیں۔ راستے میں ایک نغمہ کے بارے میں پوچھنے پر نوجوان سنیکا منڈا بتاتے ہیں کہ پندرہ تاریخ کو برسا کا جنم دن جو ہے۔ ہم لوگ ان کو بھگوان مانتے ہیں اور اب بھی ان کے لوٹنے کا انتظار کرتے ہیں۔سنیکا بتانے لگے کہ اس علاقے میں زمین کےبیٹوں کو پتا ہے کہ پندرہ نومبر کو ہی جھارکھنڈ الگ ریاست بنی تھی لیکن ابوا دیشوم، ابوا راج (اپنا ملک، اپنی حکومت) کی خوشیاں کہیں گم ہے۔
غور طلب ہے کہ اسی تناظر میں تیرہ نومبر کو رانچی میں ایک پروگرام میں اولیہاتو گاؤں اور آدیواسیوں کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے گورنر دروپدی مرمو نے بھی آسانی سے کہا : سوچیں، کیا جھارکھنڈ میں ابوا دیشوم اور ابوا راج ہے؟حالانکہ حکومت نے اولیہاتو پہنچنے کے لئے چوڑی اور پکّی سڑکیں بنوا دی ہے۔ وہاں برسا کامپلیکس کی بھی تعمیر کرائی گئی ہے۔ بجلی پہنچا دی گئی ہے۔ ان کے علاوہ کئی اور سہولتیں دستیاب کرائی گئی ہیں۔ لیکن ان سب کے درمیان آدیواسیوں کے سینے میں کسک ہے۔اولیہاتو میں ہی بڑی تعداد میں گاؤں کے مرد و خواتین اور نوجوان روایتی طور پر گرام سبھا کی میٹنگ کرتے دکھے۔ ان کے ہاتھوں میں تختیاں صاف تاکید کرتی رہی کہ حکومت کی پالیسیوں اور رخ سے وہ خوش نہیں ہیں۔مکھیا نیجن منڈا اور وارڈ ممبر ساموئیل پورتی بتاتے ہیں کہ پچھلے ستمبر مہینے میں یہاں بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ سمیت کئی رہنما آئے تھے، تب گرام پردھان سمیت پنچایت کےنمائندوں کو نظرانداز کیا گیا تھا۔
برسا منڈاکی اولاد سکھرام منڈا، نیلشن منڈا، سمن پورتی، فلومنی ٹوپّو کی فکر ہے کہ پانی، جنگل، زمین پر خطرہ بڑھے ہیں۔ پورے گاؤں کے لوگ یہ نہیں چاہتے کہ پہلےسے طےشدہ پروگرام کے تحت چودہ نومبر کو بی جے پی کے لوگ برسا کی زمین سے مٹی لے جانے کے لئے یہاں آئیں۔اولیہاتوکے بالکل قریب لاترڈیہہ اور توبید گاؤں ہیں۔ یہاں پہنچنے کے لئے پکّی سڑک نہیں ہے۔ بجلی کا انتظار بھی قبائلی دہائیوں سے کرتے رہے ہیں۔ توبید گاؤں کے بزرگ مورا منڈا مسکراتے ہوئے پوچھتے ہیں کس کی حکومت اور کیسی حکومت۔ بس حکومت سے اناج مل جانے سے زندگی تو نہیں بدلتی۔ وہ لوگ اپنی محنت اور تقدیر کے بوتے پر جیتے ہیں۔
لاترڈیہہ گاؤں کی قبائلی خاتون پالو مقامی منڈاری زبان میں کہتی ہیں کہ حکومت کے لوگ برسا کی جائے پیدائش تو آتے رہتے ہیں لیکن اس علاقے کے بارے میں وہ لوگ جاننے کی کوشش کرتے تو اچھا ہوتا۔وہ لوگ سیدھے اور بھولے ہیں لیکن اتنا تو سمجھتے ہیں کہ سب کو برسا کے نام سے مطلب ہے ان کی زمین سے نہیں۔آخر کیا چاہتی ہیں آپ، اس سوال پر پالو کہتی ہیں کہ بجلی، سڑک، بیت الخلا، پانی کے لئے ترسنا پڑے تو کیسا لگےگا آپ ہی بتائیں؟ روزگار کے لئے کم سے کم بکری پالن، خنزیر پالن کے مواقع تو دیجئے۔ ہم اتنےسےہی خوش ہو جائیںگے۔ہمارا اگلا پڑاؤ نام سیلی گاؤں ہے۔ سنجے منڈا اور ان کی بیوی دلو اپنی بیٹی دویا کے ساتھ کھیت سے کام کرکے لوٹ رہے ہیں۔ دلو کو اس کی فکر ہے کہ پچھلے تین مہینے سے آنگن باڑی مرکز میں دن کا کھانا ملنا بند ہے۔چھان بین کرنے پر پتا چلا کہ پوری ریاست میں آنگن باڑی مراکز میں کم وبیش یہی حالت ہے۔ نام سیلی گاؤں کے لوگوں کو وزیراعظم رہائشی اسکیم کا فائدہ ملنے اور بجلی آنے کا بھی انتظار ہے۔
سرد ہواؤں کے درمیان ننگے جسم سنیکا پاہن بھی کھیتوں سے کام کر کےلوٹ رہے تھے۔ بتایا کہ کئی دفعہ بجلی کے لئے درخواست دیا لیکن نہ جانے سرکاری فائلوں میں کہاں گم ہو جاتی ہے۔ان کا کہنا تھا پٹھاری علاقے میں لوگ کھیتوں میں سینچائی کے لئے ہاڑتوڑ محنت کرتے ہیں۔ ڈاڑی-چوان سے ساجھا طور پر محنت کر کے وہ لوگ کسی طرح پانی لاتے ہیں۔ آب پاشی کی کوئی بھی چھوٹی-بڑی اسکیم زمین پر نہیں اتری ہے، لہذا دہاڑی کھٹنا اور زراعت کرنا ہی آدیواسیوں کا اہم پیشہ ہے۔غور طلب ہے کہ جھارکھنڈ میں 38 لاکھ ہیکٹیر زمین زراعت کےلائق ہے اور 17 سالوں میں اربوں خرچ کرنے کے بعد بھی 29 فیصدی علاقے میں ہی سینچائی کی سہولت دستیاب کرائی جا سکی ہے۔
انہی حالات کے مدنظر کھانے کے حقوق، منریگا سمیت کئی موضوعات پر کام کرتے رہے مشہور ماہر اقتصادیات جیاں دریج کہتے ہیں کہ جھارکھنڈ جیسی ریاست میں منریگا مضبوطی کے ساتھ روزگار مہیّا کرائے اور اسکیمیں زمین پر اترے، اس کی خاصی ضرورت ہے۔بقول دریج منریگا میں پہلے سے تھوڑا کام سدھرا ضرور ہے لیکن سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ اب بھی ثالثی-ٹھیکیدار گٹھ جوڑ سے اس کو آزاد نہیں کرایا جا سکا ہے۔ لہذا ضرورتمندوں کا حق مارا جاتا رہا ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ18-2017 میں ریاست میں منریگا کے 41.19 لاکھ جاب کارڈ جاری کئے گئے ہیں۔ اس کے تحت تمام 76.32 لاکھ مزدور ہیں۔ لیکن 20. 99لاکھ جاب کارڈ اور27. 25 لاکھ مزدور فعال ہیں۔ البتہ فی ہاؤس ہولڈ کو اوسط 34.16 دن روزگار مہیّا کرائے گئے ہیں۔ سو دن کا کام پورے کرنے والے پریواروں کی تعداد محض ایک لاکھ 51 ہزار 65 ہے۔ان کے علاوہ صحت، ذریعہ معاش، سماجی تحفظ پروگرام اور روزگار کے میدان میں تمام قواعد کے بعد بھی حالت اطمینان بخش نہیں ہے۔فکر یہ کہ رانچی میں ریاست کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال ریمس میں روز ڈھائی سے تین سو مریضوں کا علاج فرش پر ہوتا ہے۔ایسے حالات میں حکومت کے ذریعے منعقد جشن اور تقریب پر بھی سوال اٹھتے رہے ہیں۔ اس سال فروری مہینے میں ملک اوردنیا کے سرمایہ کاروں کو رجھانے کے لئے ریاستی حکومت نے مومینٹم جھارکھنڈ پروگرام کا انعقاد کیا تھا۔ اس انعقاد کی تشہیر پر اکیلے چالیس کروڑ خرچ کئے گئے تھے۔
اب ریاست کو اس کا انتظار ہے کہ سرمایہ کاری کے نام پر 3.10 لاکھ کروڑ کی تجاویز پر ہوئے سمجھوتہ میمورنڈم (ایم او یو) سطح پر کب تک اترتے ہیں۔ستمبر مہینے میں حکومت کے ایک ہزار دن پورے ہونے اور اس کے بعد اکتوبر میں مائننگ-منیرلس سمٹ اور اب الگ ریاست یوم تاسیس تقریب کے انعقاد میں بھاری تام جھام پر ہر طبقے میں سوال کھڑے ہو رہے ہیں۔ حالانکہ حکومت اس کو کامیابیوں میں شمار کرتی ہے۔
جھارکھنڈ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور صنعت اور تجارت کی اچّھی سمجھ رکھنے والے وکاس سنگھ کہتے ہیں کہ پہلی دفعہ اکثریت کی حکومت تو بنی لیکن حکومت کے وزیر کے پاس تجربے کی بےحد کمی ہے۔یہاں کی چھوٹی صنعتوں کو بچانا ، بڑھانا شاید حکومت بھول چکی ہے۔ سچ کہیے تو دےآر ونلی لوکنگ فار بیگر ماڈل (وہ لوگ صرف بڑے ماڈل دیکھ رہے ہیں) اور ان کے پیچھے جو دماغ کام کرتے رہے ہیں ان کو ریاست کے مفادات سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ان لوگوں کو دکھ اس کا ہوتا ہے کہ کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔ لگاتار ہوتے بڑی تقریب اور جشن کے برعکس اس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ وکاس سنگھ کہتے ہیں کہ ہزاروں کروڑوں کے ایم او یو تو پہلے بھی ہوئے، ان کا کیا حشر ہوا، ریاست نے دیکھا ہے۔ بجلی اور سرکاری سسٹم کی حالت سے لوگ یہاں آگاہ ہیں۔
ادھر سرکاری تقریب اور حکومت کی پالیسیوں اور رویے کے خلاف حزب مخالف جماعتوں نے مورچہ کھول رکھا ہے۔ اس سے سیاست بھی گرم ہے۔12نومبر کوراج بھون کے سامنے بھاکپا مالے نے عوامی اجلاس کیا۔ اس میں بھوک کے سوال پر ہلّا بولا گیا۔ پارٹی کے جنرل سکریٹری دیپنکر بھٹّاچاریہ کا کہنا ہے کہ عوام کے پیسے کی بربادی جھارکھنڈ میں جس طرح سے ہو رہی ہے، وہ لوگوں کی تکلیف کو اور بڑھاتی ہے۔اس کے اگلے ہی دن تیرہ نومبر کو تمام حزب مخالف جماعتوں نےراج بھون کے سامنے میٹنگ کی اور گاؤں میں حکومت کی پالیسی کے خلاف ساجھا تحریک کا اعلان کیا۔
سابق وزیراعلیٰ بابولال مرانڈی کہتے ہیں حکومت جشن منا رہی ہے اور گاؤں میں ماتم ہے۔ جبکہ سابق مرکزی وزیر سبودھ کانت سہائے کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر بھوک سے ہوتی موتیں، کسانوں کی خودکشی، تحریکات کے خلاف پولیس فائرنگ جیسے سوالوں پر حکومت کو تقریب میں اپنی طرف داری رکھنی چاہیے۔اس کے اگلے دن 14نومبر کو اہم حزب مخالف جماعت جھارکھنڈ مکتی مورچہ نے راج بھون کے سامنے ہی زمینی حصول کی مخالفت میں بڑا جلسہ کرکے حکومت پر حملے کئے۔ سابق وزیراعلیٰ ہیمنت سورین کہتے ہیں کہ عوام کے پیسے کی بربادی کر کےحکومت جھوٹی سرخیاں بٹورنے میں جٹی ہے۔
جبکہ بی جے پی کے ترجمان بھی لگاتار حزب مخالف جماعتوں کے الزامات پر پلٹ وار کر رہے ہیں۔ لکشمن گیلوا، نیلکنٹھ سنگھ منڈا جیسے ریاست کے سینئر رہنما کہتے رہے ہیں کہ مرکز اور ریاست کی حکومت کے افادی پروگراموں سے مخالف پریشان ہے۔
17 سال بعد ریاست کی مجموعی صورت حال :
گاؤں میں ادارہ جاتی ولادت اب بھی صرف 57.3 فیصدی ہو رہے ہیں۔
6-23 مہینے کے 67 فیصدی بچّوں کو ہی مناسب کھانا ملتا ہے۔
پانچ سال کے 45 فیصدی بچّے ناٹے ہیں۔
15-49 سال کی 65.2 فیصدی خواتین انمیا سے متاثر ہیں۔
(نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-4)
ریاست میں 15.79 فیصدی آدیواسی اَور 19.62 فیصدی دلت پریوار ایک کمرے کے کَچّے مکان میں رہتے ہیں ۔
آدیواسیوں کے 80 فیصدی اور دلتوں کے 82 فیصدی پریواروں کی آمدنی فی مہینے پانچ ہزار روپے سے کم ہے۔
آدیواسیوں میں 53 فیصدی لوگ حاشیائی ورکر ہیں (جِن کو چھے مہینے سے کم کام ملتا ہیں)
قبائلی خواتین کے درمیان اب بھی خواندگی شرح 46.2 فیصد ہے۔
دیہی علاقوں میں تقریباً ایک ہزار صحت کے مراکز کی اپنی عمارت نہیں ہے۔
دیہی علاقوں میں ضرورت کے حساب سے 41 فیصدی ہیلتھ سینٹرکی کمی ہے۔
7.63 فیصدی ہیلتھ سینٹر میں ولادت کے لیےکمرے نہیں ہیں۔
42 فیصدی رورل ہیلتھ ینٹر میں بجلی نہیں۔ساتھ ہی 35.8 فیصدی صحتی عملے کی کمی ہے۔
(اقتصادی سروےرپورٹ17-2016)
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور جھارکھنڈ میں رہتے ہیں۔)
Categories: خبریں, گراؤنڈ رپورٹ