آج اگر فیض کی قرٲت ہورہی ہے توکچھ توہے جوکلامِ فیض کو تعصبات سے پرے قبولیت عطاکررہی ہے۔
نئی پوپھٹی تورات کا خیال آیا۔داغ داغ اجالے اورشب گزیدہ سحرنے مایوس کیا۔ذہن جھنجلایا۔دل کوغصہ آیا۔سپاٹ صبح سے تو بہتر ہے کہ رات کی اتھاہ گہرائی اوراس کے تحیر میں ڈوب جایاجائے۔زندگی منزل کا حصول نہیں،مسلسل سفرکانام ہے۔’راہ رو ہوگا کہیں اورچلاجائے گا‘۔تولیجیے ’کہیں اور‘کاسلسلہ اکیسویں صدی تک آپہنچاہے۔یہ سند باد جہازی کا سفرہے، نہ قصہ چوتھے درویش کا۔
ظلم کی روداد سنانے کا یہ موقع نہیں۔احتجاج کی داستان بڑی طویل ہے۔اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ہم قدم رکھ چکے ہیں۔شاعری کی روح سے سمجھوتا کیے بغیررات،احتجاج اور صبح کو ایک سلسلے میں رکھ کرایک ایسے شاعر پرگفتگوکرنی ہے جس کی شاعری ایک خوش حال نئی صبح [سرخ سویرا]کی تلاش اورخارجی و داخلی کشاکش سے عبارت ہے۔یہ ہیں فیض احمد فیض۔
ایک طبقے کا ایمان ہے کہ ایک دن انقلاب ضرور آئے گااور پھر نئی صبح ہوگی۔نیادستورہوگا۔استحصال کی روایت جل کرراکھ ہوجائے گی۔ہرحق دار کو اس کا حق مل جائے گا۔اگر میں غلط نہیں ہوں توشاید یہی یوٹوپیا کہلاتی ہے۔اب ن۔م۔راشد کی کہی ہوئی بات یاد آتی ہے؛ فیض نظریات کے نہیں،احساسات کے شاعر ہیں۔
نئی صبح کا ترقی پسند نظریہ/یوٹوپیافیض کی شاعری کابھی ایک جزہے۔[درد آئے گادبے پاوں لیے’سرخ چراغ‘]وہ اگر صرف محسوسات کے شاعرہوتے توسردارجعفری کو ان سے کوئی شکایت نہ ہوتی۔ ان کی ترقی پسند ادبی تحریک سے وابستگی خود ایک بڑاسوال ہے؟ایک عرصہ گزرجانے کے بعد جب ہم کسی شاعریاتخلیق کار پرگفتگوکرتے ہیں تو اس کاپوراکلام اور پوری ادبی کارگزاری سامنے ہوتی ہے۔
اس لیے فیض کو محض نظریات یاصرف محسوسات کاشاعرکہنامناسب نہیں۔ایسا قطعی نہیں کہ وہ کوئی نظریہ نہیں رکھتے تھے،اور رکھتے بھی تھے تو شاعری میں اس کے اظہار سے احترازکرتے تھے۔وہ خود کہتے ہیں کہ
ایک اچھے ادیب کواپنے ارادے اور اپنی قوت تخلیق پر یقیناً اتنی قدرت ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ لکھے اپنے فلسفے،اپنے نظریے کے مطابق لکھے۔
فیض کی خوبی یہ ہے کہ وہ اکثر فنی اظہار پرنظریے کو حاوی ہونے نہیں دیتے۔سماجی ترقی اورافادیت کے نظریے پریقین رکھتے ہوئے بھی اصلاحی شاعری نہیں کرتے۔ان کے یہاں اس زورکاطوفان کبھی نہیں آیا،جس سے کسی مخصوص طبقے کاشیرازہ بکھرجائے۔ان کے یہاں احتجاج کی منطق دیگرترقی پسندوں سے مختلف ہے۔
اگر کہاجائے کہ ان چند شعرا کے نام بتائیے جنھیں بلا جھجک دنیا کی کسی بھی زبان کی شاعری کے سامنے پیش کیاجاسکتاہوتوہم بلاتامل ایک تثلیث سامنے رکھ دیں گے۔میر،غالب،اقبال۔بعض حضرات ایک قدم آگے بڑھاکر اس فہرست میں فیض کوبھی شامل کرتے ہیں۔ہمیں کوئی اعتراض نہیں،کیوں کہ ہرشخص کو اپنی پسند کے انتخاب کاحق ہے،لیکن ہم تواسی تثلیث پرقائم ہیں۔
فیض ہمارے اہم شاعر ہیں۔اردو والوں کے مزاج میں ایک بات عام ہے،کہ وہ کسی بھی سرپرعظمت کاتاج رکھ دیتے ہیں۔اہم ہونے اورعظیم ہونے میں فرق ہے۔بیسویں صدی میں اقبال کے بعد اگر فیض ہی سب سے بڑے شاعر ٹھہرتے ہیں،توہمیں غورکرناپڑے گا۔فانی،یگانہ،راشد،میراجی،ناصرکاظمی،مجروح،مخدوم….،اور فراق؟ان ناموں سے فیض کا مقابلہ مقصودنہیں۔
ہمیں تومحض یہ کہناہے کہ فیض کاکمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنا توانا اسلوب اختراع کیا۔کوئے یار سے سوئے دارتک کے سفر میں کافی نشیب و فراز ہیں۔ذاتی زندگی میں وہ کیاتھے،اس کارشتہ ان کی شاعری سے نہیں۔کسی نے چٹکی لی کہ فیض جتنی بارجیل گئے،اتنے بڑے شاعرہوئے۔یہ بھی کہاگیا کہ ان کے مناصب نے بھی ان کی شہرت میں اہم رول اداکیے۔انھیں انعام واکرام سے بھی نوازاگیا۔
وہ بہت دردمندانسان تھے۔ساری باتیں اپنی جگہ؛دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان کی شعری پوٹیشیل کتنی بھرپورہے؟ان کی زبان پر اعتراض کوئی اہم واقعہ نہیں۔شعرگوئی پرقدرت ہونابھی کوئی بڑی بات نہیں۔وزن سے درست،بندش میں چست اورنک سک کے اعتبار سے ٹھیک ٹھاک ہونا ہی شاعری کی معراج نہیں۔وہ جو کہتے ہیں کہ شعر چیزے دیگراست،تواس کے اسرارکی اہمیت تسلیم کرتے ہیں۔
فیض کی شاعری سے لذت یاب ہوناقاری کی ذوقی سطح پرمنحصر ہے۔ان کی شاعری کو پڑھنے اورسمجھنے میں کلاسکی ربط اورعصری تناظرکالحاظ ضروری ہے کہ یہاں لفظ نرالفظ نہیں۔گل وبلبل، محض گل وبلبل نہیں؛کچھ اور بھی ہیں۔لیکن کیا یہ صفت فقط فیض سے مختص ہے؟استعارہ کلام کاجوہرہے۔جدلیاتی الفاظ کے بغیر شاعری نرابیان ہویانہ ہو،اس کی جہات محدود ضرورہوجاتی ہیں۔ایسی صورت میں اچھی شاعری کے نمونے خال خال ملتے ہیں۔اس لیے فیض کے یہاں لفظوں کے نظام پرتوجہ کی ضرورت ہے۔
عجیب بات ہے کہ فیض کی وفات کے 33برس گزرجانے کے بعد بھی یہ سوال قائم ہے کہ فیض ترقی پسند تھے یا نہیں؟یعنی ان کا شاعرہوناکافی نہیں۔حیرت تو اسی بات پر ہے کہ آج نہ تو فیض موجود ہیں اور نہ سردار جعفری کی ڈکٹیٹرشپ؛پھربھی فیض کی شاعری کو خانوں میں تقسیم کرنے کا رویہ ختم نہیں ہوا۔فیض کے بعض معاصرین بھی اب نہیں رہے۔انقلاب کا نعرہ بھی مدھم پڑگیا۔ایک نظریے نے شب خون مارا۔
اصلاحی اور’انقلابی‘شاعری کو سزاے موت سنائی گئی۔چیخنے کی سیاست ختم ہوئی۔خاموشی کو قوتِ گویائی ملی۔آج نہ توعہدِ فیض کی زباں بندی ہے اور نہ کوئی تخلیقی منشور۔قدریں اور تفہیم کے پیمانے بدل چکے ہیں۔فیض کا شخصی حوالہ ان کے عہد کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔اگرکچھ بچاہے تو ان کا کلام۔ان کی تحریر۔کوئی شعر ترقی پسند،جدید یا مابعد جدیدنہیں ہوتا۔شاعری باطن کی کرید کانام ہے۔شاعری رات کا بدن ہے:
یہ رات اس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
فیض کی نظم ’ملاقات‘ کے ان دومصرعوں نے مجھے عجیب کیفیت میں مبتلا کردیا۔شاعری،رات، اورپراسرارذات، کی کڑیوں کوجوڑنا،خود کو ذہنی ہلاکت میں ڈالناہے۔نتیجے میں ایک ہی شے ہاتھ لگتی ہے،سوچ۔سوچ اور مسلسل سوچ!سوچ کتھا کے استعاروں کا سراغ جیون کو پرکشش ضرور بناتاہے،ساتھ ہی اسے پیچیدہ بھی کردیتاہے۔ابہام شاعری کے خمیرمیں ہے۔رات اس ابہام کادبیز سایہ ہے۔یہ رات میرکوبھی عزیزہے،ناصرکاظمی کوبھی۔
فیض اس رات کی پرورش نہ کرسکے۔جب جب وجود پرسکوت کی مہرلگی۔جب جب ضمیرکوزہردیاگیا۔دورسناٹے میں کوئی چیخ دب کررہ گئی تورات نے زبان کھولی۔گویا،رات وجودکے سلگنے کا استعارہ ہے۔رات احتجاج کا چہرا ہے۔اس کے سناٹے میں کتنا شورہے،اس کا اندازہ صبح کی بیداری اوردن کاگونگابہرا،اژدہام نہیں لگاسکتا۔سارا شگفتہ نے کہا تھا،’میں جب مری تومیرانام رات رکھ دیاگیا۔‘[نظم’پرندے کی آنکھ کھل جاتی ہے‘۔مشمولہ:آنکھیں]
یہ کوئی معمولی بیان نہیں۔یہاں رات موت کی علامت بن گئی ہے اور موت احتجاج کی۔فیض کی شاعری کوپڑھتے وقت تین بنیادی الفاظ کی طرف ذہن جاتاہے….رات،احتجاج اورصبح۔ ان تینوں تصورات پرگفتگوکرتے ہوئے ن۔م۔راشد کی اس رائے پرنگاہ ٹھہرتی ہے جوانھوں نے ’نقش فریادی‘کے دیباچے میں دی تھی۔انھوں نے کہاتھا،”یہ ایک شاعر کی نظموںغزلوں کا مجموعہ ہے جو رومان اور حقیقت کے سنگم پر کھڑاہے۔“
آج تک یہ بیان ہمارے ناقدین ڈھورہے ہیں۔فیض تنقید میں یہی خیال چولے بدل بدل کرباربار آتاہے۔ایک پہلو اوراہم ہے ۔وہ یہ کہ روایتی الفاظ کوفیض نے سیاسی معنی پہنائے،یاکلاسکی سیاق کو نیا تناظر عطاکیا،لیکن،اس سے آگے بھی کچھ ہے یا نہیں؟اورہے توکیاہے؟
فیض کے یہاں رومان کا تصورذرابدلاہوا ہے۔ان کے تصورِانقلاب پربحث کی کافی گنجائشیں ہیں۔بھوک اگرشاعری سے مٹ جاتی تو دنیاکاہر شخص شاعرہوتا۔انقلاب اگرنظموں سے آجاتاتودنیاکے تمام انقلابی، شاعرہوتے۔انقلاب کاغذ پرنہیں،ذہنوں میں آتاہے۔فیض کاخیال ہے کہ کلچراجتماعی زندگی کے بغیرممکن ہی نہیں،لیکن اس سے کون انکارکرتاہے۔وہ کہتے ہیں کہ کلچر کی بنیاد کسی قوم کے سیاسی اوراقتصادی نظام پرہے۔اگراس نظام میں تبدیلی آتی ہے توانقلاب لازمی ہوجاتاہے:
جب بھی کسی ادارے، کسی نظریے یاکسی مادی شے کی سیاسی اور اقتصادی اہمیت کم ہوجاتی ہے توہم اسے عزیزرکھنا ترک کردیتے ہیں۔ہمارے نظام اقدار میں اس کارتبہ گرجاتاہے۔یادوسرے الفاظ میں ہمارے کلچرکی ترکیب بدل جاتی ہے۔موجودہ ادب میں انقلاب کی بنیادی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس دور میں ادیبوں کانقطہ نگاہ حقیقت پسند ہوگیاہے بلکہ یہ کہ اس دور میں حقیقت کسی موہوم،ان دیکھی ،فوق الفطرت چیز کانام نہیں ہے اس کے لیے حقیقت کے معنی ہیں۔ہمارامجموعی سماجی نظام اور اس کے تمام مظاہر۔اس حقیقت میں ہمارے دیکھتے دیکھتے یہ تبدیلی واقع ہوئی ہے کہ اس میں پہلی دفعہ عوام ایک بہت ہی اہم اورنمایاں عنصر کی حیثیت سے داخل ہوگئے ہیں۔
زندہ رہنے کے لیے انسان کو محض روٹی نہیں چاہیے۔ہرشخص اقتدار کابھوکانہیں ہوتا۔اس لیے ہم کلچرکومحض سیاسیات اوراقتصادیات کی روشنی میں نہیں دیکھتے۔کلچر ہمہ گیر مظہرہے۔محسوس یاغیرمحسوس طریقے سے جنم لینے والازندگی کاہرتجربہ کلچر کی تشکیل میں کرداراداکرتاہے۔انقلاب محض سیاسی یااقتصادی نہیں ہوتا۔اس کے بطن میں جلنے والالہوکسی ایک واقعے کامرہون منت نہیں۔اس لیے تبدیلی محض سیاسی یااقتصادی نہیں ہوتی۔فکری تغیربھی کوئی شے ہے۔
سڑکوں پرانقلاب لانے سے توبہترہے کہ کسی کی زندگی میں انقلاب لایاجائے۔ادب وژن پیداکرتاہے۔کسی بھی تجربے کی روح کشیدکرتاہے۔ہماری زندگی میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کی اقتصادی/سیاسی اہمیت نہیں ہوتی یابہت کم ہوتی ہے۔پھربھی ہم انھیں عزیز رکھتے ہیں۔دردِ دل کی شناسائی مادی فوائد نہیں دیکھتی۔محض مادی حقیقت سے انقلاب کانغمہ نہیں پھوٹتا۔روحانیت بھی کوئی شے ہے۔کوئی جملہ،کوئی شعر؛کسی ایک کہانی سے کبھی کبھی کسی کے ذہن میں بھونچال آجاتاہے۔
مادی اعتبارسے ادب توسراسرگھاٹے کاسوداہے۔شعر کہہ کر ہم کیوں اپناخون پانی کرتے ہیں۔اس کی سیاسی اوراقتصادی اہمیت نہیں۔اس کے بعد بھی شاعری کو زوال نہیں ہوا۔اس کی بقاکارازیہ ہے کہ ہماری روح کو اس سے غذاملتی ہے۔فیض کہتے ہیں کہ حقیقت’موہوم،ان دیکھی،فوق الفطرت‘نہیں ہوتی۔عجیب بات ہے ۔کیا ہرنظرآنے والی شے ہی حقیقت ہے؟فیض کے مطابق انقلاب کی ایک وجہ اس میں عوام کاداخلہ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ انقلاب زندگی میں آتاہے اورادب زندگی کابہت بڑاسچ ہے۔ادب کو عوام اور خواص میں تقسیم کرناہماری بساط سے باہرہے۔جب ہم کسی شعرکو پڑھتے ہیں تو وہ شعر ہمیں بھی پڑھتاہے۔یعنی شاعری میں ذہن کو بدل ڈالنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔یہ تبدیلی ایسی نہیں ہوتی کہ کوئی پھاوڑالے کر کسی سرمایہ دار کا سر پھوڑڈالے۔
یہ کسی سیاسی لیڈر کی جذباتی تقریر سے توممکن ہے،شعری عناصر سے یہ نتائج برآمدنہیں ہوتے۔شاعری نعرہ لگانے، جوش پیداکرنے،چیخنے چلانے اورپکارنے جیسی کوئی شے نہیں،کہ آؤ،چلو،دیکھو،بڑھو،[اٹھو اب ماٹی سے اٹھو،جاگو میرے لال/ہٹ نہ کروماٹی سے،جاگومیرے لال (سپاہی کا مرثیہ)/دست افشاں چلو،مست و رقصاں چلو/خاک برسر چلو،خوں بداماں چلو/راہ تکتاہے سب شہرجاناں چلو(آج بازارمیں پابجولاں چلو)/آج کادن زبوں ہے ،مرے دوستوں/آج کادن تویوں ہے،مرے دوستوں(خورشید ِمحشر کی لو)/بساط بادہ و مینا اٹھالو/بڑھادو شمع محفل بزم والو(سجاد ظہیر کے نام)/آجاؤ ایفریقا/آؤ ببرکی چال(آجاؤایفریقا)/کبھی یہ فرمان جوش وحشت/کہ نوچ کر اس کو پھینک ڈالو/کبھی یہ اصرارِ حرف ِ الفت/کہ چوم کر پھر گلے لگالو(یہ ماتم وقت کی گھڑی ہے)/بول کہ لب آزاد ہیں تیرے/بول زباں اب تک تیری ہے(بول)/بولو کہ شورِ حشر کی ایجادکچھ تو ہو/بولو کہ روزِ عدل کی بنیاد کچھ تو ہو(بنیاد کچھ توہو)……..]فیض کوان کے تخاطبی اسلوب نے نقصان پہنچایا:
اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آپہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے ،جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں ،اب زندانوں کی خیر نہیں
جودریاجھوم کے اٹھے ہیں ،تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے بھی چلو،بڑھتے بھی چلو،بازوبھی بہت ہیں ،سربھی بہت
چلتے بھی چلو، کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
اے ظلم کے ماتولب کھولو،چپ رہنے والوچپ کب تک
کچھ حشر توان سے اٹھے گا، کچھ دورتونالے جائیں گے
’رات‘ ایک گہرا،وسیع اورہمہ گیراستعارہ ہے۔وسیع معنی میں یہ وہ علامت ہے جوایک پورے عہد کی سفاکیوں اوردردکی کیفیات کا وجدان ہے۔ساتھ ہی یہ ان دبے کچلے جذبات وکیفیات کے سلسلے کابھی نام ہے جونوع انسانی کے جبلی محسوساتی وجدان اورعمیق شعورکانشان ہے۔میراورغالب کازمانہ تہذیبی زوال اورقدروں کے بکھرنے کاعہدہے۔بچھڑنے اوربکھرنے کاکرب تقسیم ہند کے بعد کی صورت حال میں بھی احساسِ شکست کے پیراہن میں نظر آتاہے۔
فیض کی شاعری میں شب ہجراں کاخیال احساسِ شکست کوکریدتاہے۔ان کی شاعری اقداری کڑیوں کے بکھراؤکی آئینہ دار ہے۔’صبح‘ان کے یہاں شکست کو فتح میں بدلنے کا استعارہ ہے۔صبح کی خواہش میں ان کی شاعری کا رنگ پھیکاپڑتاجاتاہے۔رات کوپھیلانے کے ان کے یہاں جتنے امکانات تھے،رات کو محیط ِبے کراں میں بدلنے کی جتنی صورتیں تھیں؛ان میں وسیع ترسلسلے کو بے کرانی نصیب نہ ہوئی۔ان کی پوری شاعری کا مطالعہ یہ باور کراتا ہے کہ ان کی رات زنداں کی زنجیروں کوتوڑنہ سکی۔
ان کے یہاں بعض اشعار ایسے ضرور ہیں جورات کے رومان،تنوع اورداخلی ہیجانات کوآشکارکرتے ہیں،لیکن یہ ان کی شاعری کی مجموعی صورت حال نہیں ہے۔رات کی عظمت کا ادراک بڑی چیز ہے۔اس لیے فیض کی شاعری میں اس کی جوبھی اور جیسی بھی صورت ہے،ان کے معاصرین میں انھیں امتیازعطاکرتی ہے۔
دن کے اجالے میں جو احساسات و جذبات قتل ہوتے ہیں،ان کے کرب کو رات اپنی پناہ میں لے لیتی ہے۔رات کے صحراؤں میں اٹھنے والاطوفان درد کے طنابوں کو اکھاڑتاپھینکتارہتاہے۔رات کامنظرنامہ تاریک ضرور ہے،لیکن اس میں پھوٹنے والی چنگاری الفاظ ہی کی مرہون منت ہے۔الفاظ کی چنگاریاں احتجاج کی لوکوتیزکرتی ہیں۔فیض کی شاعری میں رات اور احتجاج جہاں جہاں باہم گتھے ہوئے ہیں،ان کی شاعری کارنگ بڑاچوکھاآیاہے۔رات کو فتح کی نفی سمجھنے کے بجائے وجود کااثبات قراردینااور اس میں زندگی کرناتجربے کودبیزبناتاہے:
تیرگی ہے کہ امڈتی ہی چلی آتی ہے
شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہاہو جیسے
دشمن جاں ہیں سبھی،سارے کے سارے قاتل
یہ کڑی رات بھی ،یہ سایے بھی ،تنہائی بھی
شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اتر رہی ہے رات
در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
توفیض دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں
رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں
آگ سلگاؤآبگینوں میں
آس کے مارے تھکے ہارے شبستانوں میں
اپنی تنہائی سمیٹے گا،بچھائے گا کوئی
………………………………
جب تیری سمندر آنکھوں میں
اس شام کاسورج ڈوبے گا
سکھ سوئیں گے گھردروالے
اورراہی اپنی رہ لے گا
(جب تیری سمندر آنکھوں میں)
مختلف غزلوں اورنظموں سے ماخوذ مندرجہ بالامصرعے احساس کی شدت،جذبات کازیروبم،لہجے کی سنجیدگی اور تخلیقیت سے پرہیں۔کاش فیض اس رنگ کو پھیلاپاتے!یہاں یہ عرض کرتاچلوں کہ میری مراد محض ان اشعار سے نہیں ہے جن میں رات/شب کالفظ آیاہو۔رات کومیں گہرے استعارے کے بطور دیکھتاہوں۔میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ رات ایک پورے عہد کی سفاکیوں اوردردکی کیفیات کا وجدان ہے۔ یہ اُن دبے کچلے جذبات وکیفیات کے سلسلے کانام ہے جونوع انسانی کے جبلی محسوساتی وجدان اورعمیق شعورکانشان ہے:
نہ گنواؤاوک نیم کش دلِ ریزہ ریزہ گنوادیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹادیا
ان میں لہو جلاہو ہمارا،کہ جان و دل
محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں
جب خون جگر برفاب بنا،جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں
اِس دیدہ ترکاکیاہوگا ،اِس ذوقِ نظرکاکہاہوگا
دل کاہرتارلرزشِ پیہم
جاں کاہررشتہ وقف ِ سوزوگداز
میری خاموشیوں میں لرزاں ہے
میرے نالوں کی گم شدہ آواز
اس قبیل کے اشعار فیض کی شاعری کو متانت اور ادبی وقار عطاکرتے ہیں۔اس نوع کے اشعار پرکوئی لیبل چسپاں نہیں کیاجاسکتا۔شاعری کاموضوع کیاہوناچاہیے؟[فیض کاخیال ہے ]شاعرکوچاہیے کہ”ہم عصر زندگی کی صحیح قدریں پہچانے اورانھیں پہچاننے میں دوسروں کی رہنمائی کرے۔اسی وجہ سے امن،آزادی،حب الوطنی،سلطانی جمہورموجودہ زمانہ میں ہماری شاعری کے اہم موضوع ہوناچاہئیں۔“زندگی توایک بے کراں سلسلے کانام ہے۔چندموضوعات سے اس کاحق ادانہیں ہوتا۔شاعری کیسی ہونی چاہیے(؟)،اس کافیصلہ ممکن نہیں۔شاعری کوکسی ایک یاچندصورتوں کے بجائے اس کے تنوع میں دیکھناچاہیے۔
فیض کی شناخت زندانی ادب سے بھی ہے۔کوئی ضروری نہیں کہ زنداں میں لکھی گئی تحریریں زنداں کاعکس بھی پیش کریں۔جیل میں بیٹھ کرفیض کوعشقیہ شاعری کرنے کوجی چاہا،انھوں نے کی۔ ضروری نہیں کہ جیل میں رہ کرکی جانے والی شاعری ہی زنداں کے کرب کوآشکارکرے گی۔روسونے کہاتھا؛انسان آزاد پیداہواہے،مگرہرقدم پرپابہ زنجیرہے۔زنداں کسی چہاردیواری کانہیں،احساس کانام ہے۔زندانی کرب کااحساس ازلی ہے۔یہ احساس فیض کی شاعری میں بھی ہے۔ہم فیض کوکسی موضوع یامخصوص سیاق میں قیدکرکے نہیں پڑھناچاہتے۔ہرقرٲت اقداری ہوتی ہے۔متن خود بتادیتاہے کہ اس کاسیاق کیاکیاہوسکتاہے؟
آخرمیں ایک سوال کرنے کی اجازت دیجیے۔اکیسویں صدی میں ہم فیض کوکیوں پڑھیں؟
تبدیلیوں کے ساتھ ہم ریلیونس کابھی ذکرکرتے ہیں۔آج اگرفیض پڑھے جارہے ہیں تواس کے پیچھے کسی سیاست/پروپگنڈے کا دخل نہیں۔ہرطبقے کے اپنے تحفظات اورتعصبات ہوتے ہیں،لیکن یہ چیزیں دیرتک اوردور تک نہیں جاتیں۔آج اگر فیض کی قرٲت ہورہی ہے توکچھ توہے جوکلامِ فیض کو تعصبات سے پرے قبولیت عطاکررہی ہے۔کوئی بھی شاعری اسی وقت زندہ رہ سکتی ہے جب اس میں ہم آہنگی کی صلاحیت ہو۔محض نظریے کی بنیاد پرکوئی شاعری زندہ نہیں رہتی۔
کلام فیض میں جذبے اوراحساس کی سطح پرتڑپ اورحظ کے متعددپہلو موجودہیں۔کلکتے کی کمیونسٹ سیاست سے لے کر جے۔این۔یوکے سیاسی ہنگاموں تک میں نے اکثر فیض کے کلام کو نعرہ بنتے محسوس کیاہے۔’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘،’لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے‘،’کٹتے بھی چلو،بڑھتے بھی چلو،بازوبھی بہت ہیں ،سربھی بہت‘….۔شاعری کا سیاسی استحصال اسی وقت ہوتاہے جب اس میں سیاسی خوبوپائی جائے۔ہمیں فیض کی ان غزلوں /نظموں سے بحث ہے جو ’زندگی کے معیار کے ساتھ فن کے معیار‘ پر بھی پوری اترتی ہیں۔میجر محمد اسحاق کے ان خیالات پربات ختم کرناچاہتاہوںجو’زنداں نامہ‘میں شامل ہیں۔اندازہ لگایئے کہ تفہیمِ فیض کاگزشتہ منظرنامہ کیا تھااور موجودہ صورت ِ حال کیاہے؟
فیض کی شاعری میں”پاکستان کے محنت کشوں کامبارک پسینہ اور خون کی حرارت ابھی تک پوری مقدار میں شامل نہیںہیں۔سمن وگلاب کو جس چاہت سے یاد کیا ہے۔اسی چاہت اور تفصیل سے اس بدحال اور بد نصیب کاذکر نہیں ہے،جس نے سمن و گلاب کو اپنے خون جگر سے سینچ کر شاداب کیا ہے اور جس کو حق پہنچتاہے کہ وہ بھی ان سمن و گلاب کی نزاکتوں،رنگ و روپ اور عطر بیزیوں سے مستفید ہوسکے۔ان کادل تو ادھر کھنچاجارہاہے۔لیکن لغزش پامیں ہے پابندی آداب ابھی ان کی شاعری کوڈرائنگ روموں،سکولوں،کالجوں سے نکل کرسڑکوں،بازاروں،کھیتوں اور کارخانوں میں ابھی پھیلناہے۔“
”فیض صاحب کاکینوس ذرا اور وسیع ہوجائے توبلاشبہ ہمارے ادب کے گورکی بن جائیں گے۔ان سے زیادہ اس رتبہ کااورکون مستحق ہے؟“
(مضمون نگار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔)
یہ مضمون 20نومبر 2017کو شائع کیا گیا تھا۔
Categories: ادبستان