بھاگلپور کا علاقہ ہنرمند بُن کروں اور کاریگروں کی نرسری بھی ہے۔ یہاں سے لوگ ملک بھرکی کپڑا صنعت کے مراکزپر کام کرنے کے لئے بھی جاتے رہتے ہیں۔
پٹنہ : بہار کا بھاگلپور شہر سلک سٹی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ سلک کے کپڑے تیار کرنے سے ملی اس پہچان کی بنیاد بُن کر ہیں جو زیادہ تر مسلمان ہیں۔آزاد ہندوستان کی بات کریں تو 1989 میں ہوئے فسادات، جس کو دنیا بھاگلپور فساد کے نام سے جانتی ہے، کا سلک سٹی کے کپڑا صنعت پر بہت برا اثر پڑا ہوا تھا۔ ان فسادات کے قریب تین دہائی بعد یہ صنعت ایک بار پھر سے بہت سنگین بحران سے گزر رہا ہے۔ اس کی وجہ ہے قریب ایک سال پہلے نافذ ہوئی نوٹ بندی اور پھر اس سال جولائی میں نافذ ہوا جی ایس ٹی۔ 1989کے فسادات کے بعد یہاں اپنا ریشمی کپڑوں کی صنعت چلانے والے کئی لوگ مزدور بن گئے تھے۔ اور اب پھر سے ایسے ہی حالات بن رہے ہیں۔
بھاگلپور سے قریب دس کلومیٹر دور بسا چنپانگر اور ناتھ نگر کا علاقہ بن کروں سے آاباد ہے۔ بن کر محمّد راشد انصاری اسی علاقے کے حسن آباد میں رہتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال کی پریشانیوں کو وہ ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں؛نوٹ بندی سے لین دین اور کاروبار ٹھپ پڑ گیا تھا۔ آہستہ آہستہ سدھار پر آ ہی رہے تھے کہ جی ایس ٹی لگ گیا۔‘وہ کہتے ہیں، ’یہاں کے نوے فیصد سے زیادہ بنکر معمولی پڑھائی اور روز کھانےکمانے والے ہیں۔ سب اس لائق نہیں ہیں کہ وہ جی ایس ٹی نمبر لے سکیں، رٹرن بھر سکیں اور سی اے رکھ سکیں۔ ان ساری پریشانیوں کی وجہ سے زیادہ تر بن کروں کا کام ٹھپ ہونے کوہے۔‘
بُن کر سنگھرش سمیتی بھاگلپور ضلع کے بُن کروں کی ایک تنظیم ہے۔ اس کے ممبر شاہد انصاری بتاتے ہیں کہ بھاگلپور ضلع کے قریب 25 ہزار پاورلوم ہیں اور ڈھائی لاکھ کے قریب بن کر اس سے جڑے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ نوٹ بندی کے پہلے دن کے 24 گھنٹوں میں قریب 20 گھنٹوں تک بُن کروں کا علاقہ پاورلوم کے کھٹ کھٹ سے آباد رہتا تھا۔ لیکن اب حالات دوسرے ہیں۔ ریشم کی بنائی والے علاقوں میں رات میں پاورلوم چلنا تقریباً بند ہو گیا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کام بہت کم رہ گیا ہے۔
شاہد انصاری نے بتایا؛نوٹ بندی کی وجہ سے خریدار نہیں رہنے سے نومبر 2016 کے بعدکے تقریباً تین مہینوں تک کام لگ بھگ ٹھپ رہا۔ اس کے بعد نوٹ کی آمد و رفت ٹھیک ہوئی، بازار ذرا سنبھلا تو دوسرا معاملہ جی ایس ٹی لگنے کی وجہ سے حساب کتاب کا آ گیا۔ جیسے ہی ہم لوگ ابر رہے تھے، لگ رہ تھا کہ کام پٹری پر آئےگا تو جی ایس ٹی حاوی ہو گیا۔راشد کے مطابق جی ایس ٹی سے بُن کروں کی حالت نوٹ بندی سے بھی زیادہ خراب ہوئی ہے۔ راشد کہتے ہیں، ’جی ایس ٹی نے چھوٹے بُن کروں کی مٹی پلید کر دی ہے۔ اور اب یہ دوسرے کی مزدوری کرنے کے لئے اتر گئے ہیں۔‘
بھاگلپور کا علاقہ ہنرمند بُن کروں اور کاریگروں کی نرسری بھی ہے۔ یہاں سے لوگ ملک بھرکی کپڑا صنعت کے مراکزپر کام کرنے کے لئے بھی جاتے رہتے ہیں۔ ان میں مہاراشٹر کا ببھیونڈی ، اتّر پردیش کا میرٹھ، گجرات کا سورت، کرناٹک کا بینگلرو اور پنجاب کا لدھیانہ شہر اہم ہیں۔ گزشتہ قریب ایک سال میں بھاگلپور نے کاریگروں کی دو طرح کی ہجرت دیکھی ہے۔پہلے تو نوٹ بندی کے بعد باہر کام کرنے والے بُن کراورکاریگر بڑی تعداد میں واپس لوٹنے کو مجبور ہوئے اور اب جی ایس ٹی کے بعد کام کی کمی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر لوگ منتقلی کرنے کو مجبور ہو رہے ہیں۔ راشد بتاتے ہیں، ’نوٹ بندی کے بعد جتنا آئے تھے اس سے تگنا چلے گئے۔ یہاں پر اب کام ہی نہیں ہے۔‘
ایسے حالات میں بھاگلپور علاقائی کرگھابن کرمعاون یونین کے سابق صدر ابرار انصاری بُن کروں کے بیتے ایک سال کے حالات کا مقابلہ سانپ سیڑھی والے کھیل سے کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ’بھاگلپور کا کپڑا صنعت گھریلو صنعت ہے۔ چھوٹےچھوٹے بُن کر دوتین پاورلوم لگاکر کام کرتے ہیں اور ان کا کام تقریباً پوری طرح نقدی پر ہے۔ بن کروں نے پہلے نوٹ بندی کی مار جھیلی اور اس مار سے یی نپٹ ہی رہے تھے کہ وہ جی ایس ٹی میں پھنس گئے۔‘
ابرار کہتے ہیں،’عام طور پر بن کر کام چلاؤ سرمایہ والے بہت کم پڑھےلکھے لوگ ہیں۔ یہ جی ایس ٹی کے مطابق اپنا حساب وکتاب رکھکر کاروبار کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ ایسے میں دو باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ پہلے سے مہنگی قیمت پر دھاگا خرید رہے ہیں جس سے ان کا کام اور آمدنی کم ہو رہی ہے۔ یا پھر یہ بن کر کسی ساہوکار کے لئے مزدوری کرنے کے لئے مجبور ہو رہے ہیں۔
Categories: خبریں, گراؤنڈ رپورٹ