ریپ کا شکار بننے والی ایک عورت کی کہانی پر مبنی فلم ’ورنہ‘ کی نمائش پاکستانی سنیما گھروں میں جاری ہے۔ اس فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر شعیب منصور نے اس فلم کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کی ہے۔
یہ فلم سارا نامی ایک نوجوان اور بااختیار عورت کے بارے میں ہے۔ سارا اپنے شوہر کے ساتھ کسی مقام پر گھومنے جاتی ہے۔ سیر کے دوران اسے کچھ افراد اغوا کر لیتے ہیں اور اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔ پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان نے سارا کا کردار بنھایا ہے۔ سارا ایک مضبوط اعصاب کی مالک ہے اور وہ شرمندگی اور بزدلی کے بجائے، اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں سے بدلہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
آپ نے اسی موضوع پر فلم بنانے کا فیصلہ کیوں کیا ؟
ایک ایسا واقعہ ہے جس نے میرے اس خیال کو مزید تقویت دی کہ میں پاکستان میں طاقت کے کھیل کے موضوع پر فلم بناؤں۔ کراچی میں سن 2012 میں ایک بڑے جاگیردار کے بیٹے شاہ رخ جتوئی نے ایک لڑکے شاہ زیب کا اس لیے قتل کر دیا تھا کیوں کہ اس نے اپنی بہن کو چھیڑنے پر مزاحمت کی تھی۔ اس واقعہ کے بعد ساری حکومتی مشینری شاہ رخ جتوئی کے پیچھے کھڑی ہو گئی تھی۔ اس کے پاسپورٹ پر پچھلی تاریخ کا اسٹامپ لگا کر ملک سے بھگایا گیا تھا۔ ظاہری طور پر میری فلم کی کہانی اور ا س کہانی میں کچھ بھی مشترک نہیں ہے لیکن اس واقعہ کی وجہ سے میں اس فلم میں یہ دکھا سکا کہ پاکستان میں عام لوگوں کے خلاف کس طرح طاقت کا ناجائز استعمال کیا جاتا ہے۔ میں نے اس کہانی کو ریپ سے اس لیے جوڑا کیوں کہ یہ عورت کے خلاف طاقت کے استعمال کی سب سے عام صورت ہے۔ بہت سے اور لوگوں کی طرح میں بھی سمجھتا ہوں کہ ریپ دراصل طاقت کا مظاہرہ ہے نہ کہ جنسی ہوس کا۔
آپ کی نظر میں کیوں ضروری ہے کہ معاشرتی مسائل پر فلمیں بنائی جائیں ؟
یہ ہدایت کاروں کا ذاتی فیصلہ ہے۔ ایسا کوئی قانون نہیں ہے اور ہر ڈائریکٹر کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ سماجی مسائل پر فلم بنائے۔ مصوری کی طرح فلموں کی بھی کئی اقسام ہیں اور میں سب سمجھتا ہوں کہ مختلف اقسام اور موضوعات پر فلمیں بننی چاہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستانی اور انڈین فلم انڈسٹری کو بھی مختلف اقسام کو ایک ہی فلم میں سمونے کی عادت کو چھوڑنا ہوگا۔ مغرب میں ایک فلم ایک ہی انداز اور ایک قسم کی بنائی جاتی ہے۔ لیکن برصغیر میں لوگوں کو ایک ہی فلم میں کامیڈی، ایکشن ، محبت سب کچھ دیکھنے کی عادت ہو گئی ہے۔ اب اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور کچھ پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کو یہ رسک لینا ہوگا۔ میں بھی یہی کرنے کی کوشش کر ہا ہوں اور میں اکیلا نہیں ہوں، میرے ساتھ جامی، بلال لاشاری، مہرین جبار ، سرمد کھوسٹ اور کچھ اور بھی ہیں جو ایک فلم کو ایک ہی قسم کی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو بہت زیادہ قابل تعریف ہے۔
کیا آپ کو توقع تھی کہ اس فلم کے خلاف آپ کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا؟
میں توقع زیادہ مزاحمت کی کر رہا تھا نہ صرف اس فلم سے پہلے بلکہ اس سے پہلے بنائی گئی دو فلموں میں بھی میں یہی توقع رکھ رہا تھا۔ اس مرتبہ زیادہ رسک اس لیے تھا کیوں کہ میں نے اس مرتبہ مغربی طرز کو اپناتے ہوئے ڈرامائی صورتحال میں جذبات کے بالکل محدود مظاہرے کی حکمت عملی اپنائی۔
آپ پاکستانی سنیما کا مستقبل کیسا دیکھ رہے ہیں ؟
بہت ہی روشن، میں نے جن ہدایت کاروں کا نام لیا ہے یہ امید کا دیا ہیں۔ یہ سب تربیت یافتہ ہیں اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ میں آغاز کرنے والوں میں سے ہوں انہیں اب تحریک کی طرح اسے آگے بڑھانا ہوگا۔
Categories: ادبستان