گھر پر بہار کے ایک مولوی صاحب نے اردو، فارسی اور قرآن کی تعلیم دی۔ وہ رات کو قصص الانبیاء سناتے تھے۔ ایک ہڑتال میں حصہ لینے کی وجہ سے مسلم یونیورسٹی کو خیر باد کہنا پڑا۔
پیدائش:بلرام پور (ضلع گونڈہ، اودھ) 29نومبر 1913
نام:علی سردار، نام کا سجع والد کے ایک دوست نے کہا؛بجائے احمد مرسل ہوئے علی سردار
میرا نام اس اعتبار سے غیر معمولی ہے کہ آج تک اس نام کا دوسرا آدمی نہیں ملا۔ ہاں سردار علی نام کسی قدر عام ہے۔ حافظ شیرازی کے ایک قصیدے میں علی سردار اس طرح استعمال ہوا ہے کہ میرے نام کا سجع بن جاتا ہے۔ میرے والد کےکتب خانے میں جو نسخہ تھا اس میں یہ قصیدہ شامل تھا۔ اس زمانے میں مولانا قاضی سجادحسین صاحب نے نئی دہلی سے جو نسخہ ترجمہ کے ساتھ شائع کیا ہے اس میں یہ قصیدہ شامل ہے۔ میرے نام کا شعر یوں ہے
علی امام و علی ایمن و علی ایمان
علی امین و علی سرور و علی سردار
معلوم نہیں یہ شعر میرے والد کی نظر میں تھا یا نہیں لیکن ہم قافیہ نام میرے ایک چچا زاد بھائی کا تھا جو عمر میں مجھ سے چند سال بڑے تھے، علی جرار، میرے والد اور چچا کے نام بھی اسی طرح غیر معمولی تھے۔ سید جعفر طیار جعفری، سید حیدرکرار جعفری، سید احمد مختار جعفری، معلوم نہیں میرے بڑے بھائی ظفر عباس کا نام ان قافیوں سے الگ کیوں تھا۔ میں نے اپنے بچپن کی ایک رباعی میں ان ناموں کو یکجا کر لیا ہے
نور نظر احمد مختار ہوں میں
لخت جگر حیدر کرار ہوں میں
ہیں فتح و ظفر قوت بازو سردار
یعنی میر جعفر طیار ہوں میں
میرے والد اور چچا کے ناموں کے متعلق ایک لطیفہ مشہور ہے۔ کسی نے میرے دادا سے پوچھا؛
’مہدی حسن!تم نے اپنے بیٹوں کے نام جعفر طیار، حیدر کرار اور احمد مختار رکھے ہیں۔ اب چوتھا بیٹا ہوگا تو کیا نام رکھو گے؟‘
میرے دادا نے برجستہ کہا؛پاک پروردگار!‘
والد کے ایک دوست فرخ بھیا نے میری پیدائش پر ایک شعر کہا تھا ؛
دیا حق نے جعفر کو ثانی پسر
مبارک، خوش اقبال، پیدا ہوا
تعلیم:سب سے پہلے گھر پر بہار کے ایک مولوی صاحب نے اردو، فارسی اور قرآن کی تعلیم دی۔ وہ رات کو قصص الانبیاء سناتے تھے۔ اس کے بعد دینی تعلیم کے لیے سلطان المدارس لکھنؤ بھیج دیا گیا، وہاں جی نہیں لگا۔ ایک مولوی صاحب کے گھر قیام تھا۔ وہاں بھی جی نہیں لگا اور میں فرار ہو کر بلرام پور واپس چلا گیا۔ بلرام پور کے انگریزی اسکول لائل کالجیٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ کھلی فضا تھی، اچھے استاد تھے، ہم عمر لڑکوں سے دوستیاں تھیں۔ صبح ناشتہ کر کے گھر سے اسکول جانا اور شام کو چار بجے پھر واپس آکر ناشتہ کرنا، اور میل ڈیڑھ میل دور ایک پریڈ گراؤنڈ میں پیدل جا کر دو گھنٹے کرکٹ، ہاکی کھیلنا روز کا معمول تھا۔
اسی زمانے میں انیسؔ کے زیر اثر شاعر شروع کی۔ 1933ء میں بیس سال کی عمر میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کر کے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ (ابتدائی تعلیم کے چند سال ضائع ہوگئے تھے)
یہ ایک طوفانی زمانہ تھا جب تحریک آزادی اپنے شباپ پر تھی۔ اس عہد کے علی گڑھ نے اردو زبان کو اختر حسین رائے پوری، سبط حسن، منٹو، مجاز، جاں نثار اختر، جذبی، خواجہ احمد عباس، جلیل قدوائی، اختر انصاری، شکیل بدایونی، عصمت چغتائی اور 1940ء کے آس پاس اخترالایمان کا تحفہ دیا۔ وہاں خواجہ منظور حسین، ڈاکٹر عبدالعلیم، ڈاکٹر رشید جہاں، ڈاکٹر محمد اشرف وغیرہ سے تعارف ہوا اور جن کی صحبت اور فیض نے ذوق ادب اور آزادی کے جذبے کو جلا عطا کی۔ جدیدعہد کے اردو ادب میں تقریباً 75 فیصد علی گڑھ اور ترقی پسند تحریک کی عطا ہے۔
ایک ہڑتال میں حصہ لینے کی وجہ سے مسلم یونیورسٹی کو خیر باد کہنا پڑا اور دہلی جا کر اینگلو عربک کالج میں داخلہ لیا۔ یہ وہ تاریخی کالج تھا جو دہلی کالج کے نام سے ایک بڑا تعلیمی کردار ادا کرچکا تھا۔و ہاں داخلہ دلوانے میں جلیل قدوائی اور اختر انصاری نے مدد کی۔ اس واقعہ کے پچاس سال بعد 1986ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ڈی لٹ (D.Litt.) کی اعزازی ڈگری سے عزت افزائی کی۔ یہ میرے لیے اس اعتبار سے بہت بڑا اعزاز تھا کہ مجھ سے پہلے اعزازی ڈگری شعراء کی فہرست میں علامہ اقبال، مسز سروجنی نائیڈو اور حضرت جگر مرادآبادی کو عطا کی گئی تھی۔
جواہر لال نہرو سے اسی زمانے میں ملاقات ہوئی اور ملاقات کا یہ شرف آخر دن تک قائم رہا۔ ان کے انتقال سے دو ماہ قبل تین مورتی ہاؤس میں اندرا گاندھی نے ایک چھوٹا سا مشاعرہ پنڈت جی کی تفریح طبع کے لیے کیا تھا، جس میں فراقؔ، سکندر علی وجدؔ اور مخدوم محی الدین بھی شامل تھے۔ میں نے اپنی نظم “میرا سفر” فرمائش پر سنائی تھی۔
دہلی سے بی۔ اے کرنے کے بعد میں لکھنؤ آ گیا۔ پہلے مجازؔ کے ساتھ قانون کی تعلیم کے لیے ایل۔ ایل۔ بی میں داخلہ لیا۔ ایک سال بعد اس کو چھوڑ کر انگریزی ادب کی تعلیم کے لیے ایم۔ اے میں داخلہ لیا۔ لیکن آخری سال کے امتحان سے پہلے جنگ کی مخالفت اور انقلابی شاعری کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا اور لکھنؤ ڈسٹرکٹ جیل اور بنارس سنٹرل جیل میں تقریباً آٹھ ماہ قید رہا اور پھر بلرام پور اپنے وطن میں نظر بند کر دیا گیا۔ یہ نظر بندی دسمبر 1941ء میں ختم ہوئی۔
لکھنؤ میں سجاد ظہیر، ڈاکٹر احمد وغیرہ کی صحبت رہی۔ وہیں پہلی بار ڈاکٹر ملک راج آنند سے ملاقات ہوئی۔ 1938ء میں کلکتہ میں ترقی پسند مصنفین کی دوسری کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس موقع پر شانتی نکیتن جا کر ٹیگور سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہیں بلراج ساہنی سے ملاقات ہوئی جو ہندی پڑھاتے تھے۔
1941ء میں لکھنؤ ریڈیو نے ایک مشاعرہ منعقد کیا جو سارے ہندوستان میں بڑے ذوق و شوق سے سنا گیا۔ اس کا نام تھا “نووارد شعراء کا مشاعرہ”جوشؔ نے صدارت کی لیکن کلام نہیں سنایا۔ فیضؔ، مجازؔ، جذبیؔ اور جاں نثار اختر نے میرے ساتھ اس مشاعرے میں شرکت کی۔ ن۔ م۔ راشد کسی وجہ سے نہیں آ سکے۔ یہ نئی ترقی پسند اردو شاعری کے سات سیارے تھے جن کی تاب ناک گردش کا نغمہ آج بھی گونج رہا ہے۔ اخترالایمان نے اس کے بعد شاعری شروع کی۔ لیکن ساحرؔ اور مجروحؔ بعد کی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ سکندر علی وجدؔ ہمارے احباب میں تھے لیکن حیدرآباد کی سول سروس کی وجہ سے اس طرح کے مشاعروں میں میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ ان کی دو نظمیں اجنتا اور ایلورا اردو شاعری کے شاہ کاروں میں شمار کی جاتی ہیں۔ جوشؔ، جگرؔ، فانیؔ، اصغرؔ، یگانہؔ، حسرتؔ موہانی کی شاعری کے ڈنکے بج رہے تھے۔فراقؔ کا شمار ابھی بڑے شاعروں میں نہیں ہوا تھا۔ وہ عمر میں جوشؔ اور جگرؔ کے ہم عصر تھے لیکن شاعری میں ترقی پسند تحریک کے زیر اثر عروج حاصل کیا۔ ان کی زیادہ شہرت 1947ء کے بعد ہوئی۔ ویسے ان کا شمار بہت اچھے شعراء میں پہلے سے تھا۔
1943ء میں بمبئی آنا ہوا۔ سجاد ظہیر کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کے ہفتہ وار اخبار’قومی جنگ‘میں صحافتی فرائض انجام دیتا رہا۔ اس محفل میں بعد کو سبط حسن، مجازؔ، کیفیؔ، محمد مہدیؔ وغیرہ شامل ہوئے۔ آہستہ آہستہ بمبئی اردو ادب کا مرکز بن گیا۔ 1949ء کے بعد بمبئی میں جوشؔ، ساغر نظامی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، میراجی، اخترالایمان، سجاد ظہیر، ساحرؔ، کیفیؔ، مجروحؔ، حمید اختر اور بہت سارے سربرآوردہ ادیب جمع ہوگئے۔ اس زمانے کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے ادبی اجلاس نے پوری اردو دنیا میں ایک دھوم مچا رکھی تھی۔ باہر سے آنے والے ادیب ان اجلاسوں میں بڑی مسرت سے شریک ہوتے تھے۔ پطرس بخاری سے میری ملاقات پہلی بار بمبئی میں ہوئی۔ ان کے بھائی ذوالفقار بخاری ریڈیو کے ڈائریکٹر تھے اور ان سے بہت اچھے مراسم تھے۔ میری طویل تمثیلی نظم ’نئی دنیا کو سلام‘ اسی دور کی تخلیق ہے۔ ذوالفقار بخاری اس نظم کو ریڈیو پر ڈرامے کے انداز سے پیش کرنا چاہتے تھے لیکن ملک کی تقسیم کے ساتھ وہ یہاں سے چلے گئے۔
اس عہد کی عظیم فلمی شخصیتیں ہمارے حلقہ احباب میں شامل تھیں مثلاً کے ایل سہگل، پرتھوی راج کپور، کے این سگھ وغیرہ۔ بعد کو راج کپور، نرگس اور دوسرے فلمی ستارے اس دائرے میں آ گئے۔ کیا ان کی خوبصورت داستانیں لکھنے کا موقع آئے گا۔ یہ سب کے سب ترقی پسند ادب کے دلدادہ تھے۔
اودے شنکر کا گروپ جب الموڑہ میں ختم ہو گیا تو اس کے فنکار بمبئی آ گئے اور انڈین پیوپلس تھیٹر میں شریک ہوگئے۔ اودے شنکر نے بمبئی آ کر رقص کے ذریعے سے رامائن کا ایک پروگرام مزدوروں کے لیے پردے پر پرچھائیاں کی شکل میں پیش کیا۔ ان کے بھائی روی شنکر نے ’سارے جہاں سے اچھا‘کی دھن بنائی، جو اب اس ترانے کی دھن ہے۔
اس خوبصورت دور پر پھر کبھی تفصیل سے لکھا جائے گا۔
1949ء میں جو ہندوستانی سیاست کا ہیجانی دور تھا اور کمیونسٹ پارٹی کی انتہا پسندی اپنے شباب پر تھی، حکومت ہند کی طرف سے پارٹی پر پابندی عاید کر دی گئی۔ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ میں بمبئی میں دوبار گرفتار کیا گیا۔ پہلی بار پندرہ دن کے لیے۔ دوسری بار ڈیڑھ سال کے لیے۔ یہ زمانہ بمبئی کے آرتھر روڈ جیل اور ناسک کی سنٹرل جیل میں گزرا۔ 1950ء میں یکایک رہا کر دیا گیا۔ وہ عید کی شام تھی۔ دوسرے دن صبح ہی صبح بمبئی آ کر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ عیدکا دن تھا۔
ادبی تخلیقات:
نظم
- پرواز (مجموعہ) 1943ء
- نئی دنیا کو سلام (طویل تمثیلی نظم) 1948ء
- خون کی لکیر (مجموعہ “پرواز” کے انتخاب کے ساتھ) 1949ء
- امن کا ستارہ (دو طویل نظمیں) 1950ء
- ایشیاء جاگ اٹھا (طویل نظم) 1951ء
- پتھر کی دیوار (مجموعہ)1953ء
- ایک خواب اور (مجموعہ)1964ء
- پیراہن شرر (مجموعہ) 1965ء
- لہو پکارتا ہے (مجموعہ)1968ء
نثر
- منزل (افسانے) 1938ء
- یہ خون کس کا ہے (ڈرامہ) 1943ء
- پیکار (ڈرامہ) 1944ء
- ترقی پسند ادب 1953ء
- لکھنؤ کی پانچ راتیں 1965ء
- اقبال شناسی 1969ء
- پیغمبران سخن (کبیرؔ، میرؔ، غالبؔ)
- ترقی پسند ادب کی نصف صدی (نظام اردو خطبات، دہلی یونی ورسٹی 1984ء)
فنی تخلیقات
- بولو اے سنت کبیر:(ڈاکومنٹری فلم کا مسودہ) ڈائریکٹر خواجہ احمد عباس
- ہندوستان ہمارا (ہندوستان کی پانچ ہزار سالہ تہذیب پر ڈاکومنٹری فلم کا مسودہ) ڈائریکٹر خواجہ احمد عباس
- لٹریری اسٹارم (The Literary Storm) انگریزی میں ڈاکومنٹر ی فلم، موضوع تحریک آزادی میں ادب کا حصہ مسودہ اور ڈائریکشن۔ 1857ء سے 1947ء ۔ آسامی۔ بنگالی، اڑیہ، ہندی، اردو اور انگریزی ادب کا کارنامہ (تین حصوں میں: 1857ء سے 1905ء تک 1905ء سے 1920ء تک۔ 1920ء سے 1947ء تک)
- ٹیلی ویژن سیریل کہکشاں:جدید اردو شعراء کی زندگی اور شاعری:حسرتؔ، موہانیؔ، جگرؔ مرادآبادی، جوشؔ ملیح آبادی، فراقؔ گورکھپوری، اسرارالحق مجازؔ اور مخدوم محی الدین (ڈائریکٹر جلال آغا)۔ تحریر و تہذیب سردار جعفری)
- روشنی اور آواز:لال قلعہ، شاہجہاں سے ہندوستان کی آزادی تک۔
- روشنی اور آواز:شالیمار باغ سری نگر، جہانگیر اور نورجہاں سے آج کے عہد تک۔ اس باغ میں لیلیٰ مجنوں کی کہانی پھولوں اور پودوں کی زبانی کہی گئی ہے۔ باغ میں بہتی ہوئی نہر وقت کا استعارہ ہے۔ پانی پر تیرتے ہوئے پھول لیلیٰ کا استعارہ ہیں اور نہر پر دونوں طرف سے جھکی ہوئی بید مجنوں کی شاخیں پھولوں کو چھو نہیں سکتیں، مجنوں کا استعارہ ہیں۔ نہر کے دونوں طرف کیاریوں میں لیمو اور سنترے کے دودو پودے جنت میں لیلیٰ مجنوں کی یکجائی کی علامت ہیں۔ ناقہ لیلیٰ کی علامت اب باقی نہیں رہ گئی ہے۔ یہ علامت سبز گھاس کے قطعات پر ٹیبلوں کی شکل میں تھی جن پر گلاب کی بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ کشمیری کہانی بھونرا اور نرگس تحریک آزادی کی کہانی سناتی ہے جس میں بھونرا مجاہد کی علامت ہے اور نرگس (محبوبہ)آزادی کی علامت۔ جاڑوں کی برف پگھل جانے کے بعد جب زنبور بہار گنگناتا ہوا نرگس سے ہم آغوش ہوجاتا ہے تو آزادی کی بہار آجاتی ہے۔
تین رنگ کے کشمیری کنول کے پھول برہما، وشنو اور شیو کی علامت کے طور پر استعمال کیے گئے ہیں۔ سرخ کنول صبح ازل کا طلوع آفتاب ہے۔ نیلا کنول کائنات کی دوپہر ہے اور سفید کنول موت کی علامت ہے جو تجدید حیات کی آئینہ دار ہے۔
- روشنی اور آواز:تین مورتی نواس، جواہر لال نہرو کی آزادی کے بعد کی کہانی ہے۔
- سابرمتی آشرم:مہاتما گاندھی کی کہانی ہے جو ڈانڈی مارچ اور نمک ستیہ گرہ پر پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے کیوں کہ اس کے بعد گاندھی جی احمد آباد سے منتقل ہوگئے۔
اکابرین عالم جن سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا
- ٹیگور، 2- مہاتما گاندھی، 3- جواہر لال نہرو، 4- مولانا ابوالکلام آزاد، 5- ستیہ جیت رے، 6- پابلو نرودا، 7- ناظم حکمت، 8- اہالیہ اہرن،؟؟ 9- شالوخوف، 10- پاستر ناک، 11- فرانسیسی شاعر لوئی آراگون، 12- جیولیوکیوری (سائنس)، 13- خروشچیوف، 14- پال روبسن۔
سیروسیاحت
پاکستان، تاجسکتان، ازبکستان، آذربائجان، روس، سائی بیریا، عراق، یمن، مصر، یونان، بلغاریہ، برلن، (مشرقی)برلن (مغربی) فرانس، چیکوسلواکیہ، ڈنمارک، سویڈن، ناروے، فن لینڈ، انگلستان، امریکہ اور کنیڈا۔
اعزاز و اکرام
- سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ (شعری مجموعہ ایک خواب اور)
- پدم شری (صدر مملکت، ڈاکٹر رادھا کرشنن) شاعری کے لیے 1967ء
- جواہر لال نہرو فیلوشپ۔ 1968-1969ء
- سجاد ظہیر ایوارڈ (شاعری کے لیے)نہرو کلچرل ایسوسی ایشن، لکھنؤ 1974ء
- اترپردیش اردو اکیڈمی ایوارڈ (اقبال شناسی کے لیے) 1977ء
- اقبال امیڈل (تمغہ امتیاز) حکومت پاسکتان 1978ء
- اترپردیش اردو اکیڈمی ایوارڈ (شعری مجموعہ لہو پکارتا ہے) 1979ء
- مخدوم ایوارڈ، آندھرا پردیش اردو اکیڈمی (شاعری کے لیے) 1980ء
- میر تقی میرؔ ایوارڈ۔ مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی، بھوپال (شاعری کے لیے) 1982ء
- کمارن آشن ایوارڈ (ملیائی زبان کی طرف سے) تریونڈرم (طویل نغمہ ایشیا جاگ اٹھا کے لیے) 1982ء
- خصوصی تمغہ ماسکو (ستر سالہ جشن پیدائش پر) 1984ء
- اقبال سمان، مدھیہ پردیش حکومت، بھوپال کی طرف سے (شاعری کے لیے) 1986ء
- ڈی لٹ (اعزازی دکتور ادب) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 1986ء
- بین الاقوامی اردو انعام (شاعری کے لیے) اکیڈمی آف اردو لٹریچر، ٹورنٹو، کنیڈا 1988ء
- گنگا دھر مہر ایوارڈ، سمبل پور یونی ورسٹی (شاعری کے لیے) 1992ء
- میر ایوارڈ، میرؔ اکیڈمی لکھنؤ (شاعری کے لیے) 1993ء
- مولانا آزاد ایوارڈ، اترپردیش اردو اکیڈمی، لکھنؤ 1994ء
- خصوصی Emiritus فیلوشپ ڈیپارٹمنٹ آف کلچر، حکومت ہند، نئی دہلی
- ظ۔ انصاری ایوارڈ، مہاراشٹر ریاست اردو اکیڈمی، 1995ء
- گیان پیٹھ ایوارڈ، 1997ء
اعزاز و اکرام (2)
- ممبر سینیٹ ( Member of the Senate) بمبئی یونی ورسٹی ( 2 بار)
- پروڈیوسر ایمرٹیس ریڈیو اور ٹیلی ویژن 1980ء سے 1985ء تک
- صدر کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین (اردو) 1977ء سے ستمبر 1990ء تک
- جنرل سکریٹری کل ہند صد سالہ جشن اقبال کمیٹی 1970ء
- وزیٹنگ پروفیسر، جموں یونی ورسٹی، اکتوبر سے دسمبر 1983ء تک
- صدر کمیٹی برائے جائزہ سفارشات گجرال کمیشن (اردو) مارچ سے ستمبر 1990ء تک
- نائب صدر، مہاراشٹر اردو اکیڈمی، بمبئی، جنوری 1994ء تک
- صدر،فلم رائٹرس ایسوسی ایشن، بمبئی 1992ء سے 1993ء
- کورٹ ممبر جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
- ٹرسٹی، نیشنل بک ٹرسٹ (ہند)، نئی دہلی
سجع
(تضمین بر شعر حافظ شیرازی)
مجھے ہے بلبل شیراز سے جو نسبت خاص
عطا ہوا ہے نہ ہوگا کسی کو بھی یہ وقار
ہر ایک لفظ ہے پروردگار موسم گل
ہر ایک حرف ہے گہوارہ نسیم بہار
صریر خانہ معجز رقم نوائے سروش
سرود خامشی گلبانگ گلشن اسرار
ہے شعر حافظؔ شیریں بھی سخن ترانہ جاں
ہے جس میں اسم علی مثل گوہر شہوار
“علی امام و علی ایمن و علی ایماں
علی امین و علی سرور و علی سردار”
بہ شکریہ ؛سردار کی نادر تحریریں،مرتبہ ،ڈاکٹر محمد فیروز،ساقی بک ڈپو ،دہلی،2008
یہ مضمون 29نومبر 2017 کو شائع کیا گیا تھا۔
Categories: ادبستان