ایک بار اشفاق بیمار پڑے تو بےہوشی کی حالت میں رام رام کہہکر کراہنے لگے۔ان کی فیملی والوں کو یہ سمجھ ہی نہیں آیا کہ پانچ وقت کا نمازی رام رام کیوں رٹ رہا ہے۔
ایک بار امرتیہ سین نے ایک بڑے پتے کی بات کہی تھی، ‘ جب میں کسی ایک چیز کے بارے میں بات کر رہا ہوتا ہوں تو اس وقت دوسری چیزوں کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہوتا۔ ‘یعنی اگر کوئی کسی گیت میں گاندھی جی کے بارے میں بات کر رہا ہے تو ظاہر ہے وہ اس وقت انقلابیوں کے بارے میں بات نہیں کر رہا۔ ممکن ہے وہی شخص جب انقلابیوں کے بارے میں بات کر رہا ہو تو اس وقت گاندھی کی بات نہ کرے۔ یہ بات سمجھنے میں ان لوگوں کو دقت ہوتی ہے جن کے پاس دلیلوں کی کمی ہے اور بکواس ہی جن کا سہارا ہے۔بات-بات میں جو یہ پوچھتے ہیں کہ ‘ آپ تب کہاں تھے ‘ یا ‘ آپ ان کے بارے میں کیوں نہیں بولتے ‘ وہ ایک خاص ذہنی فیکٹری کی پیداوار ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دانشورانہ بحث کی سطحیت اور پچھڑےپن کو چھپانے کے لئے بحث کو بھٹکانے کی حکمت عملی اپناتے ہیں۔
ان کی حالت تب اور قابل رحم ہو جاتی ہے جب ان کی اپنی تاریخ کسی کو بتانے لائق نہیں ہوتی۔
آر ایس ایس اگر آزادی کی لڑائی کے بارے میں بات کرے تو وہ کیا بتائےگا؟ اگر وہ ساورکر کے بارے میں بتائےگا تو انگریزوں کو لکھے گئے ساورکر کے معافی نامے سامنے آ جاتے ہیں۔اگر کسی کو گاندھی کا قتل ‘ قتل ‘ نہ لگتا ہو تو وہ بھی ساورکر پر لعنت ہی بھیجےگا۔ بھلےہی اپنی زندگی کے پہلے کچھ سال تک وہ بہادر رہے ہوں، بعدکے سالوں میں انہوں نے بز دلی اور غداری کے سارے رکارڈ توڑ دیے۔
تو اس طرح آر ایس ایس کی سیاست کے مہانائک ‘ ویر ‘ ساورکر ہندوستانی جنگ آزادی کے عظیم انقلابیوں کے سامنے محض انگریزوں کے چاپلوس نظر آتے ہیں۔پھانسی کی سزا کا انتظار کرتے ہوئے فخر سے جن شہیدوں کا وقار بڑھ جاتا ہو، ان کے سامنے اس شخص کی کیا بساط جو محض جیل جانے سے اس قدر ٹوٹ گیا کہ انگریزوں کا پٹھو بن بیٹھا۔ ہندو مہاسبھا سے ادھار لئے انہی ساورکر کے علاوہ آر ایس ایس کے پاس ایسا کچھ نہیں ہے جس کو وہ ‘ اپنا ‘ کہہ سکیں۔
کئی بار لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ آزادی کی لڑائی کی وراثت پر سب کا برابر کا حق ہے۔ لیکن کیا ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جو 1925سے تنظیم چلاتے ہوئے 22سال تک لوگوں کو سمجھاتے رہے کہ انگریز نہیں مسلمان، کمیونسٹ اور عیسائی ان کے سب سے بڑے دشمن ہیں؟
بہر حال، اگر ہریانہ کے وزیر انل وج اور کیلاش وجئےورگیہ جیسے لوگوں کو لگتا ہے کہ شاعر پردیپ نے ‘ دے دی ہمیں آزادی بنا کھڑگ بنا ڈھال ‘ لکھکے انقلابیوں کی بے عزتی کی تھی تو لگےہاتھ ہم بھی پوچھ سکتے ہیں کہ جب انقلابی ہنستے ہنستے پھانسی کے پھندے چوم رہے تھے، تب آپ کہاں تھے؟
رہ رہکے انقلابیوں اور تشدد کی تئیں امڈرہی ان کی محبت کی جانچ بہت ضروری ہے۔بھگت سنگھ انقلابی روایت کے سب سے روشن خیال مفکر ہیں۔ وہ شاید نہرو کے علاوہ دوسرے ایسے مجاہدآزادی تھے جو فرقہ پرستی کو سائنسی طریقے سے سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بھلےہی آر ایس ایس بھگت سنگھ کو سردار بناکر ان کو اپنانے کی لاکھ کوشش کر لے، بھگت سنگھ کے خیالات اس کے سخت مخالف ہیں۔
بھگت سنگھ گاندھی جی کی ہندوستانی سیاست میں مثبت کرداروں کو پہچانتے ہوئے ان پر دانشورانہ تنقید کرتے تھے۔ لیکن وہ یہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ کوئی گاندھی کے قتل کی بات تک زبان پر لائےگا۔یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ لالہ لاجپت رائے کے ساتھ اپنے لاکھ اختلافات کے باوجود بھگت سنگھ اور ان کے دوست ان کے اوپر ہوئے وحشیانہ لاٹھی چارج کا بدلہ لینے نکل پڑے تھے۔
انہوں نے ‘سامپرادائک دنگے اور ان کا علاج ‘ نامی مضمون میں صاف لکھا ہے کہ لوگوں کو آپس میں بانٹنے والے مہلک فرقہ وارانہ خیال سے بچانا اور اس کی جگہ مشترکہ قوم پرستی کے جذبے کو تقویت دینا ضروری ہے۔بھگت سنگھ نے اپنے مشہور مضمون ‘ میں ناستک کیوں ہوں ‘ میں مذہب اور ایشور کے اقتدار کو سرے سے ہی مستردکر دیا تھا۔ جبکہ دوسری طرف آر ایس ایس چاہتا ہے کہ آزادی کی لڑائی سے نکلی مشترکہ قوم پرستی کی جگہ فرقہ وارانہ ہندوتوا ہی ہندوستان کا واحد فلسفہ بن جائے۔
ہندوستانی سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسیشن کے سپریم کمانڈر چندرشیکھر آزاد کو تو ایک بار ساورکر نے پیغام بھجوایا تھا کہ انقلابیوں کو انگریزوں سے لڑنا بند کرکے جنّاح اور مسلمانوں کا قتل کرنا چاہئے۔یشپال نے اپنی کتاب ‘ سنہ اولوکن ‘ میں لکھا ہے کہ اس پر آزاد نے ان کے دیے پچاس ہزار روپے یہ کہہکے ٹھکرا دیے تھے کہ ‘ یہ ہم لوگوں کو بھاڑے کا قاتل سمجھتا ہے۔ انگریزوں سے ملا ہوا ہے۔ ہماری لڑائی انگریزوں سے ہے مسلمانوں کو ہم کیوں ماریںگے؟ منع کر دو۔۔۔۔۔۔ نہیں چاہئے اس کا پیسہ ‘۔
آزاد نے اپنے ایک جونیئر دوست، جو کہ ہندو راشٹر کے جملوں سے تھوڑا متاثر ہو گیا تھا، سے واضح الفاظ میں کہا تھا-
ہے بھگت!تیرے اس’ ہندو راج تنتر ‘کا تصور ملک کو بہت بڑے خطرے میں ڈالنے والا ہے کچھ مسلمان بھی ایسا ہی خواب دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ تو پرانے شاہی گھرانوں کے ہندوؤں اور مسلمانوں کی خبط ہے۔ ہمیں تو فرنٹیر سے لےکے برما تک اور نیپال سے لےکے کراچی تک کے ہر ہندوستانی کو ساتھ لےکر ایک مضبوط حکومت بنانی ہے۔ ‘
پرتھوی سنگھ آزاد انقلابی غدر پارٹی کے بانی ممبروں میں سے ایک تھے۔ ان کی ہمت اور بہادری کے قصّے ملک بھر میں مشہور تھے۔ تشدد اور انقلابی اسباب میں پورے یقین کے باوجود پرتھوی سنگھ گاندھی جی کو باپ جیسا مانتے تھے۔ ایک بار ان کو جانکاری ملی کہ دو رضاکار گاندھی جی کو قتل کرنے کے مقصد سے بھیجے گئے ہیں تو وہ ان کو بچانے آ گئے۔
لیکن جب گاندھی جی کو اس بات کا پتا چلا تو پرتھوی سنگھ بولے کہ ان کے رہتے کوئی گاندھی جی کا بال بھی بانکا نہیں کر سکتا۔ لیکن گاندھی جی نے جب پلٹکے سوال کیا کہ ان کے رہتے اگر پرتھوی سنگھ کو کچھ ہو گیا تو وہ کیا جواب دیںگے۔ یہ سوال سن کر پرتھوی سنگھ سمیت تمام آشرم باشندے لاجواب ہو گئے۔
‘ مسلمانوں کو پھنکارتے یون سانپ ‘ ماننے کے نظریہ کے لوگ تو رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ خان کے آپسی رشتوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ ایک بار اشفاق بیمار پڑے تو بےہوشی کی حالت میں رام رام کہہکر کراہنے لگے۔ان کی فیملی والوں کو یہ سمجھ ہی نہیں آیا کہ پانچ وقت کا نمازی رام رام کیوں رٹ رہا ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ رام پرساد بسمل کو پکار رہے تھے۔
تو اس طرح انقلابی تحریک کی پوری قیادت فرقہ پرستی کے خطرہ کو اچھی طرح سے پہچانتی تھی۔ بلکہ نہ صرف پہچانتی تھی، اس سے لڑنے کا عزم بھی رکھتی تھی۔
غلام ہندوستان میں اس فرقہ وارانہ رجحان کا سب سے بڑا نمائندہ مسلم لیگ تھا اور دوسری طرف سے اس کا ساتھ دینے کے لئے ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس موجود تھے۔اس طرح یہ تو صاف ہے کہ جن انقلابیوں کا سہارا لےکر آر ایس ایس-بی جے پی سے جڑے لوگ بار بار گاندھی جی پر نشانہ سادھتے ہیں، وہ کوئی آر ایس ایس کے او ٹی سی کیمپ سے نکلکے نہیں آئے تھے۔
آر ایس ایس تو اس وقت اپنے تربیتی کیمپوں میں مستقبل میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی کسی ممکنہ خانہ جنگی کی تیاریوں میں لگی تھی۔
اپنے نظریہ کے اندر چھپے تشدد کو صحیح ٹھہرانے کے لئے وہ انقلابیوں کے تشدد کو جائز ٹھہراتے ہیں تو اسی بہانے گاندھی کے عدم تشدد کو بز دلی بتاتے ہیں۔ اگر صرف تشدد کی بات کریں توبھی تشدد-تشدد میں فرق ہوتا ہے۔ انگریزی حکومتکے مظالم اور استحصال سے اوبکر جن انقلابیوں نے تشدد کا سہارا لیا ان کے دل میں انسانیت کے تئیں ایک تڑپ تھی۔
سانڈرس کے قتل کے بعد لاہور کی گلیوں میں انقلابیوں کے ذریعے لگائے گئے پوسٹر یاد کیجئے۔ ان کے تشدد کے اندر چھپی گہری انسانیت صاف دکھتی تھی۔کوئی سوچ سکتا ہے کہ چندرشیکھر آزاد نے کئی دن کوشش کرنے کے باوجود ایک مندر میں صرف اس لئے ڈاکہ نہیں ڈالا کیونکہ اس میں بےوجہ کا خون خرابہ ہو سکتا تھا۔ یا کہ بہرے کانوں کو سنانے کے لئے اسمبلی میں بم صرف اس جگہ پھینکا گیا جہاں کوئی شخص موجود نہ ہو۔
یاد رکھنا چاہئے کہ بھگت سنگھ سمیت تمام انقلابی اپنی زندگی کے بہت شروعاتی دنوں میں ذاتی تشدد آمیز کاروائیوں میں یقین کرتے تھے۔ لیکن پختہ ہونے کے ساتھ ہی انہوں نے اس طریقے کی سرحد بھی سمجھ لی تھیں جو کہ ‘ انقلابی پروگرام کے مسودے ‘ سے ایک دم واضح ہو جاتا ہے۔یہ انقلابی نوجوان پکی ڈاڑھی کی عمر میں ایک نہتّھے غیرمتشدد بوڑھے کے قتل کے لئے تشدد کو اکسانے والے فلاسفر نہیں تھے۔ تشدد ان کے لئے سماجی تبدیلی کا ذریعہ ہو سکتا تھا، بےقصور اور نہتّھوں کے قتل کا ذریعہ نہیں۔
یہ سب چھوڑ بھی دیں تو کیا کوئی نام نہاد سنگھ مفکر انقلابی ادب سے کوئی ایک چھوٹا سا نمونہ بھی دکھا سکتا ہے جس میں گاندھی جی کے قتل کا منصوبہ شامل ہو؟اگر نہیں تو 1930کی دہائی سے ہی وہ کون لوگ تھے جو گاندھی جی کے قتل کو ہی ملک کی سب سے بڑی خدمت مان بیٹھے تھے؟یہ تو صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے جو بھگت سنگھ، چندرشیکھر آزاد، راجگرو اور سکھدیو وغیرہ لالہ راجپت رائے کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے اپنی جان قربان کر دیتے ہیں، وہ گاندھی جی کاقتل ہونے پر کیا کرتے؟
(مضمون نگار راشٹریہ آندولن فرنٹ کے نیشنل کنوینر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر