کسانوں کا کہنا ہے کہ آج بھی ہمیں ایک من (20 کلو) کاٹن کی قیمت 900-800روپے ہی ملتی ہے جبکہ مودی جی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس قیمت کو 1500روپے کر دیںگے۔
سریندر نگر ضلع کے جینت سنگھ ایک راجپوت (درباری) فیملی سے ہیں اور احمد آباد راجکوٹ ہائی وے پر چائے کی دکان چلاتے ہیں۔ چائے کی دکان کے علاوہ ان کے پاس کھیت بھی ہیں۔ خصوصاً کپاس (کاٹن)کی زراعت سے ان کی آمدنی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ لیکن پچھلے کچھ مہینوں میں سب ٹھیک نہیں رہا ہے۔ پہلے اچانک سیلاب آ جانے کی وجہ سے کپاس کی فصل تباہ ہو گئی۔ کھیتوں سے پانی نکل جانے کے بعد جب انہوں نے چنے کی فصل لگائی اور فصل آنے سے کچھ وقت پہلے ہی ان کے گاؤں سے کچھ کلومیٹر دور واقع ڈیم سے پانی چھوڑ دیا گیا۔ چنے کی فصل بھی تباہ ہو گئی۔
بحران کے اس وقت میں بینک نے بھی ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ انہوں نے بتایا کہ سیلاب کے معاوضے کے طور پر کچھ رقم بینک کھاتے میں جمع ہوئی لیکن وہ اتنی کم تھی کہ ان کے پچھلے سود (کپاس کی زراعت کے وقت لئے ہوئے قرض کا سود) کو چکانے میں بینک نے سارا پیسہ کاٹ لیا۔
جینت کے گاؤں اور اس کے پاس کے چار گاؤں کی آبادی تقریباً 25 ہزار ہے اور سبھی کے لئے اس انتخاب میں یہی ایک بڑا موضوع ہے کہ ڈیم کا پانی چھوڑتے وقت ان کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا؟ اور پھر ایک کے بعد ایک ہوئے نقصان (پہلے سیلاب اور اب ڈیم کا پانی) کو لےکے حکومت اتنی بے حس کیوں ہے؟ ان کو معاوضہ کیوں نہیں ملا ابھی تک یا خاطر خواہ معاوضہ کیوں نہیں ملا؟
جینت سنگھ اور ان کے گاؤں کے کسانوں کی یہ کہانی تھوڑی الگ ضرور ہے لیکن کسانوں کے درمیان عدم اطمینان کی کہانی گجرات کے سوراشٹر علاقے کے ضلعے خاص کر سریندر نگر، راجکوٹ، امریلی، بوٹاڈ، بھاؤنگر وغیرہ میں کئی جگہ دیکھنے کو ملی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلی دو دہائی سے ریاست میں ملے اقتصادی موقع کی وجہ سے بہت سے لوگ امیر ہوئے۔ بہتر تعلیم،تجارت میں بہتر مواقع کی وجہ سے کچھ لوگ اپنی زمینیں بیچکر شہروں کی طرف کوچکر گئے اور اپنی کامیابی کے پرچم بھی گاڑے۔ لیکن سب کے ساتھ ایسا نہیں رہا۔اب بھی گجرات کی کثیر آبادی (تقریبا 60 فیصد) گاؤں میں رہتی ہے اور ان کا اہم پیشہ ابھی بھی زراعت ہے۔
سوراشٹر علاقے کے کسان خصوصاً کاٹن اور مونگ پھلی کی فصل اگاتے ہیں۔ پچھلے کچھ سال میں کھاداوربیج کے دام بڑھ گئے جس سے زراعت کی لاگت بڑھ گئی لیکن اس تناسب میں آمدنی نہیں بڑھی۔ راجکوٹ کے مہیکا گاؤں کے کسان جن میں زیادہ تر کولی، پٹیل اور راجپوت (درباری) کمیونٹی کے کسان ہیں، ان کا کہنا تھاکہ آج بھی ہمیں ایک من (20 کلو) کاٹن کی قیمت 900-800روپے ہی ملتی ہے جبکہ مودی جی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس قیمت کو 1500روپے کر دیںگے۔ کسانوں کی اس بات کو بوٹاڈ ضلع کے منّا، جو کہ بی جے پی کے بوتھ لیول کارکن بھی ہیں قبول کرتے ہیں کہ کسانوں کی یہ پریشانی ہے جس سے کسان اس بار کچھ ہماری پارٹی سے ناراض ہے۔
حالانکہ گجرات میں زراعت کی ترقی کی شرح ملک کی ترقی کی شرح سے زیادہ ہے۔11-2010میں گجرات میں زراعت کی شرح میں اضافہ 15 فیصد کے پاس رہی جو ملک کی مجموعی زراعت کی اضافی در سے کافی زیادہ ہے لیکن ریاست کی زراعت کی شرح میں 06-2005کے مقابلے 2011 میں 7 فیصد کی کمی آئی ہے، جو کافی اہم ہے۔ نہ صرف زراعت کی ترقی کی شرح میں کمی آئی ہے بلکہ یہ علاقہ روزگاربھی پیدا نہیں کر پا رہا ہے۔ کسانوں کی پریشانی کوئی نئی پریشانی نہیں ہے۔ حال کے دنوں میں یہ ملک گیر پریشانی بنی ہوئی ہے۔
گجرات میں کسان پہلے بھی پریشان رہے ہیں لیکن ہر بار کے انتخاب میں کچھ الگ مسئلےآ جاتے تھے اور کسانوں کے مسائل دب جاتے تھے، لیکن اس بار حکومت کے ذریعے نوٹ بندی اور GST نافذ کرنے سے لوگوں کی پریشانی بڑھی اور اس کا اثر کسانوں پر دیکھنے کو مل رہا ہے، ایسا بھومت پٹیل کہتے ہیں جو بوٹاڈ ضلع کے ایک اسکول میں استاد ہے۔
حکومت سے کسانوں کی ناراضگی اس بار کے انتخاب میں کتنا اثر ڈالتی ہے اس کا پتا تو 18دسمبر کو ہی چلےگا لیکن اتنا ضرور ہے ان کی ناراضگی نے حکمراں پارٹی کے لوگوں کی پیشانی پر فکر کی لکیریں ضرور کھینچ دی ہیں۔ حالانکہ ان مسائل سے نمٹنے کے لئے بی جے پی کے پاس ایک امید نریندر مودی ہیں۔
پریشانیوں کے باوجودلوگوں میں مودی کو لےکر بہت زیادہ غصہ نہیں دکھتا ہے، ہاں تھوڑی ناراضگی ضرور ہے۔ اس لئے آنے والے دنوں میں مودی کی ریلی پر بی جے پی ہی نہیں بلکہ کانگریس کی نظریں ہیں۔ ان کی تقریر کو لوگ کیسے لیتے ہیں، اس پر اس بار کا انتخابی نتیجہ طے ہوگا۔
(مضمون نگاراشوکا یونیورسٹی میں ریسرچ فیلو ہیں اور ملک کے کئی ریاستوں میں انتخابی تجزیے کا کام کر چکے ہیں۔بہ شکریہ : پنچایت ٹائمزڈاٹ کام)
Categories: گراؤنڈ رپورٹ