حملہ آور کو روکنے کی کوشش ميں عبداللہ کو بھی بائیں ہاتھ پر زخم آیا۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ میئر نے انہیں کیا دیا، تو ان کا مسکراتے ہوئے کہنا تھا، ’پھول۔‘
الٹینا کے میئر آندریس ہولشٹائن پر ایک کباب شاپ ميں چاقو حملہ ہوا تو وہ 24 گھنٹے کے اندر دوبارہ اپنے ہاتھوں میں گل دستہ لیے جائے واقعہ پر پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے اپنی زندگی بچانے والے افراد کا شکریہ ادا کیا۔اس واقعے میں ہولشٹائن کی گردن میں 15 سینٹی میٹر کا زخم آیا تھا جب کہ سٹی ڈونر پیزا نامی دکان پر انہوں نے اس کے مالک دیمیر عبداللہ اور ان کے بیٹے کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے حملہ آور کو روکنے اور قابو کرنے میں مدد کی تھی۔
ہولشٹائن نے اس سے قبل ایک پریس کانفرنس میں کہا، ’’مجھے یقین ہے کہ اگر میری مدد نہ کی جاتی تو اس وقت میں زندہ نہ ہوتا۔‘‘حملہ آور کو روکنے کی کوشش ميں عبداللہ کو بھی بائیں ہاتھ پر زخم آیا۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ میئر نے انہیں کیا دیا، تو ان کا مسکراتے ہوئے کہنا تھا، ’پھول۔‘
قانون کے مطابق اس قصبے کو 270 تارکین وطن کو اپنے ہاں پناہ دینا تھی، تاہم ہولشٹائن نے ساڑھے تین سو افراد یعنی مطلوبہ تعداد سے ایک سو زیادہ، مہاجرین کو قبول کیا۔اسی تناظر میں الٹینا کے قصبے کو جرمنی کا پہلا قومی انعام برائے انضمام دیا گیا۔
تاہم ہولشٹائن کی یہی مہاجرین دوست کاوشیں پیر کی شب ان پر حملے کا باعث بھی نہیں۔ 56 سالہ حملہ آور نے اس دکان میں ہولشٹائن سے پوچھا،’’کیا تم ہی میئر ہو۔‘‘اور پھر مہاجرین کی پالیسیوں سے متعلق جملے ادا کرتے ہوئے ہولشٹائن کے گلے کو کاٹنے کی کوشش کی۔اس مشتبہ حملہ آور کے بارے میں استغاثہ کا کہنا ہے کہ اس کے خون میں الکوحل کی انتہائی زیادہ سطح کا علم ہوا ہے اور اسے قتل کے مقدمے کا سامنا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے کے درپردہ عوامل ’سیاسی‘ تھے۔
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے قصبے الٹینا کے شہری اس واقعے پر دھچکے سے دوچار ہوئے ہیں، تاہم مہاجرین کے موضوع پر رہائشیوں کی رائے منقسم بھی ہے۔74 سالہ ڈورس بائر کے مطابق،’’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔یہ انتہائی بھیانک واقعہ ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس قصبے کے بعض رہائشیوں کو گو کہ مہاجرین سے بابت پالیسیوں پر اعتراضات ہیں،تاہم مسلح تنازعات کے شکار علاقوں سے پناہ کی تلاش میں نکلنے والے افراد کو جگہ ضرور دی جانا چاہیے۔
Categories: خبریں