خبریں

روہنگیا مہاجرین کے کیمپس سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں : انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی رپورٹ

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کا کہنا ہے کہ روہنگیا مہاجرین کے کیمپس علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں۔ اس گروپ نے ان مہاجرین کی میانمار جلد واپسی اور آبادکاری کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔

Rohingya_Reutures

رواں برس پچیس اگست سے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف حکومتی فوجی اقدامات کے بعد چھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان مہاجرین سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کر چکے ہیں۔ بنگلہ دیشی ساحلی شہر کوکس بازار میں ان مہاجرین کے کیمپ قائم کیے جا چکے ہیں۔

مختلف اقوام کے درمیان پیدا مسلح تنازعات کے جائزہ لینے والے بین الاقوامی ادارے انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے واضح کیا ہے کہ روہنگیا مہاجرین کی میانمار واپسی میں جتنی تاخیر ہو گی، یہ اتنا ہی علاقائی سکیورٹی کے لیے خطرات کا باعث بنتے جائیں گے۔ گروپ کے مطابق کیمپوں میں قیام کے دوران روہنگیا مہاجرین مسلح عسکری گروپ کا حصے بھی بن سکتے ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ رواں برس میانمار کی پولیس چوکیوں پر مسلح حملے روہنگیا مسلمانوں سے بظاہر تعلق رکھنے والے ایک عسکری گروپ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی (اسرا) نے کیے تھے۔ انہی حملوں کے بعد ہی میانمار کی فوج نے روہنگیا برادری کی بستیوں میں فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔ گروپ کے مطابق کیمپوں میں مقیم افراد کو اراکان عسکری گروپ متاثر کر سکتا ہے۔

اس گروپ کے مطابق کیمپوں میں مقیم رہتے ہوئے روہنگیا مسلمان مہاجرین اسرا گروپ کا حصہ بنتے ہوئے بنگلہ دیش کی سرحد عبور کر کے میانمار میں مسلح حملے کر سکتے ہیں۔ اس تجزیے میں مزید کہا گیا کہ اگر ایسے منظم حملوں کا آغاز ہو گیا تو روہنگیا مہاجرین کا بحران  مزید پیچیدگی اختیار کرتے ہوئے بنگلہ دیش اور میانمار کو بھی اس تنازعے کا حصہ بنا دے گا۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے انتباہ کیا ہے کہ روہنگیا مہاجرین کی حالتِ زار سے دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ بھی فائدہ اٹھا سکتی ہے اور ان افراد کے ساتھ ہمدردی کے اظہار سے انہیں جہادی سرگرمیوں میں شریک کرنے پر راغب کر سکتی ہے۔ اسی کارروائیاں القاعدہ کے علاوہ اسلامک اسٹیٹ اور دوسرے جہادی گروپ بھی شروع کر سکتے ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی نے ابھی تک اپنے آپ کو دوسری جہادی تنظیموں سے دور رکھا ہوا ہے اور یہ خود کو روہنگیا مسلمانوں کے حقوق کی نگران قرار دیتی ہے۔ اس تناظر میں خیال کیا جا رہا ہے کہ میانمار پر عالمی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔