افرازل کی موت ایک انسان کی موت نہیں،مسلمان کی موت ہے۔ یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جب تک ہمارا سماج یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ اس شخص کی موت اسکے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے، مسئلہ کا حل نہیں نکل سکتا۔
ہاں راجستھان میں ایک انسان نہیں ایک مسلمان مرا ہے۔در اصل کچھ لوگ افرازل کی موت کو ایک انسان کی موت کہہ کر اس کے پیچھے کی’ سیاست ‘ اور ’نفرت‘ سے انکار کررہے ہیں۔وہ کہہ رہے ہیں اس بربریت پر وہ بھی غمزدہ ہیں۔ انکا دل بھی افسردہ ہے۔انہیں بھی برا لگا ہے۔ مگروہ اس موت کو’ہندومسلم ‘کے چشمے سے نہیں دیکھیں گے۔ چونکہ یہ لوگ ایسے معاملوں (moblynching, cow vigilantism etc.) کو communalism کے چشمے سے نہیں دیکھتے، لہذا اسی بنیاد پر وہ خود کو لبرل اور سیکولر گردانتے ہیں۔آپ کو انکی اس دلیل پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔انہیں یہ چشمہ اس لئے پسند نہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے ایسا کرنے سے انکے مذہب کی بدنامی ہوگی۔
میں سمجھتا ہوں یہ ایک المیہ ہے۔ ہندوستان اور ہندوستانی سماج کے لئے۔ میرے خیال میں اگر انکو اپنے مذہب کی بدنامی کا خوف ہے تو انہیں ہندوتوا وادیو ں کے خلاف سڑک پر اترجانا چاہئے،بجائے اسکے کہ اصلیت سے منہ موڑ لیا جائے ۔ انہیں ایسے لوگوں (بشمول متعدد سیاسی لیڈران) کا منہ بند کرنا پڑیگا جو دن دہاڑے اس طرح کی درنددگی کو نہ صرف جائز ٹھہرا رہے ہیں، بلکہ اسے celebrate بھی کر رہے ہیں۔یہ ہندو مذہب کی بقا کے لئے بھی نہایت ضروری ہے۔انہیں یہ بات جلدی سے پہلے مان لینی چاہئے کہ انکا مذہب (ہندو مذہب) اب خطرے میں ہے۔وہ دن دور نہیں جب ’ہندوتوا ‘ ہندوازم کو لے ڈوبے گا۔ ہندوازم کی قدیم روایت tolerance دم توڑنے کو ہے۔
ہندوستان کو سافٹ ہندوتوا سے جتنا نقصان ہوا ہے، اس کا اندازہ نہیں لگا یا جا سکتا۔ گجرات کے انتخابی مہم میں کانگریس کا سافٹ ہندوتوا اس قدر چیخ رہا ہے، مانو اگلے ہی لمحے ہارڈ ہوا چاہتا ہے ۔یقین جانئے گجرات میں راہل گاندھی کا آدھا وقت خود کو ہندو ثابت کرنے میں صرف ہو رہا ہے۔ انکے ماتھے کا تلک کتنا گہرا ہوا جاتا ہے، آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ اب تو انہوں نے یہ بھی راز افشا ں کر دیا ہے کہ وہ جنیودھاری ہندو ہیں۔
اس وقت تک جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں، راہل گاندھی نے راجستھان کے اس معاملہ پر کچھ نہیں کہاہے۔ان سے ایک لفظ بھی نہیں بن پڑا ہے۔ نہ صرف راہل گاندھی ، کانگریس کے کسی بھی اہم لیڈر نے کچھ بھی بولنے کا جوکھم نہیں اٹھا یا ہے۔ایک آدھ نے کچھ کہا ہوتو ،کہا ہو۔ در اصل راہل نے منی شنکر کے بیان پر بیان دیکر سب کا کام ہلکا کر دیا۔ نہ صرف اپنے لئے بلکہ مودی اور’ گودی ‘ (گودی میڈیا) دونوں کے لئے سامان فرا ہم کر دیا۔کسی کے پاس وقت ہی نہیں بچا کہ وہ راجستھان کی طرف رخ کرتے۔ راہل نے جس تیزی سے منی شنکر کو کانگریس سے نکال باہر کیا ، وہ اپنے آپ میں دلچسپ ہے۔ راہل کے اس قدم کی واہ واہی ہو رہی ہے۔ مگر damage control کے اس قدم سے کتنا ڈیمیج ہوا اور کتنا کنٹرول ، وہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔منی نے معافی مانگ کر اپنا قد اونچا کیا ہے۔ اس بات کے لئے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہئے۔آپ کے پاس بی جے پی کے کسی نیتا کا کوئی ریکاڑد ہے، جب اس نے اپنی زبان درازی کے لئے معافی مانگی ہو؟ خیر،آپ سوچ رہے ہونگے، راہل گاندھی کی خاموشی پر میں کیوں اتاولا ہوا جا رہا ہوں، مودی جی نے بھی تو کچھ نہیں بولا ۔ مگر آپ تو جانتے ہی ہیں، وہ کیوں نہیں بول رہے ۔پھر بلا وجہ اپنا خون کیو ں جلا نا چاہتے ہیں۔جو ہے، سو ہے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ افرازل کی موت ایک انسان کی موت نہیں ، ایک مسلمان کی موت ہے۔ یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ جب تک ہمارا سماج یہ تسلیم نہیں کریگا کہ اس شخص کی موت اسکے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے، مسئلہ کا حل نہیں نکل سکتا۔ جب تک اس سچ کو قبول نہیں کیا جا تا کہ نوجوانوں (ہندو ) کا radicalization ہو رہا ہے، ہمارے سامنے پھرکوئی دوسرا سانحہ پیش آئے گا اور ہم سوگ منا رہے ہوں گے۔کیاآپ جانتے ہیں افرازل کی موت کو ایک انسان کی موت گرداننے کی کوششیں کس قدر زوروں پر ہے؟ اس بات کا پر چار چیخ چیخ کر کیا جا رہا ہے کہ ملزم شمبھو نشہ کا عادی ہے۔ وہ ایک بے روزگار اور سرپھرا آدمی ہے۔لہذا نوٹ کر لیجیے،اگر مستقبل قریب میں اسے پاگل قرار دیا جائے تو آپ اس پر حیران ہونا ٹھیک نہیں ہوگا۔ قتل کو جائز ٹھہرا نے کے لئے یہ کہا جا رہا ہے کہ شمبھو نے یہ سب اس لئے کیا کیونکہ وہ ہندو لڑکیوں کے مسلم لڑکوں کے ساتھ شادیوں سے بہت فکر مند تھا۔یعنی وہ ”لو جہاد “ کے ذریعہ اپنے قوم کی بہنوں کے شکار سے بیحد افسردہ تھا۔اسکی مذہبی اسمتا کو گہرا دھچکا لگا تھا۔یہ دونوں narratives کہ شمبھو ایک سر پھرا انسان ہے ،لہذا افرازل کی موت کو ایک حادثہ سمجھا جائے یا یہ کہ اسکی موت بس ایک انسان کی موت بھر ہے۔ شمبھو نے یہ اس لئے کیا کیونکہ وہ اپنے قوم کی بہنوں کو”لو جہاد“ کا شکاربنتا دیکھ کر بہت دکھی تھا نہایت ہی حیران کن ہیں۔
”لو جہاد “ کے متھ کی تشہیر میں میڈیا کا جو رول رہا ہے ، وہ قابل تشویش ہے۔ خاص کر ٹی وی والوں نے پچھلے دنوں جس قدر واویلا مچایا تھا، وہ ہم سب کے لئے فکر کا باعث ہے۔ہمارا میڈیاہمارے لئے ہی کس قدر ناسورہو گیا ہے، اندازہ لگانا مشکل ہے۔آپ جانتے ہیں اس موضوع پر درجنوں پرائم ٹائمس کیے گئے۔ ہادیہ معاملہ میں تو ’گودی‘ میڈیا نے حدیں پار کر دیں تھیں۔بہتیرے اینکرس نے اپنے گلے پھاڑ لئے تھے۔مگرجب ہادیہ نے سپریم کورٹ میں یہ کہا کہ اسے’آزادی ‘ چاہئے تو سارے اینکرس کو ایک ساتھ سانپ سونگھ گیا۔ ہادیہ کا بیان در اصل یہ ثابت کر گیا کہ”لو جہاد“ ایک متھ ہے۔اسکا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں۔یہ ہندو انتہا پسند تنظیموں کا شوشہ ہے، جسے بی جے پی اور ہندوتوا وادی میڈیا نے ہوا دیاہے۔ آپ غور کیجئے اینکرس لوگ اس دن بھی فرار تھے جب ہادیہ نے عدالت عظمی میں اپنا بیان دیا، اور6دسمبر کو بھی غائب رہے جب راجستھان کا یہ واقعہ پیش آیا۔ ایسا نہیں تھا کہ اس دن پرائم ٹائمس والے اپنے گاﺅں گئے تھے ۔ در اصل اس دن کسی بے ادب نے انکے آقا کی شان میں گستاخی کر دی تھی۔لہذا وہ انہیں سبق سکھانے میں مصروف تھے۔انکے لئے منی شنکر کا بیان ایک وردان سے کم نہیں تھا۔راجستھان قتل پر بات کرنے سے بچنے کا اس سے اچھا بہانہ کیا ہو سکتا تھا۔آپ جانتے ہیں منی شنکرنے کیا کہاتھا؛ مودی ایک ” نیچ قسم کے آدمی“ہیں۔ظاہر ہے منی نے یہ جملہ ایک بار بولا تھا۔ مگر ”گودی اینکرس“ اور خود مودی جی نے نہ جانے اسے کتنی بار دہرا یا۔ خبر یہ ہے کہ 7دسمبر کو اپنے بھاشن میں مودی جی نے 50 منٹ کے دوران’ نیچ ‘ لفظ کا استعمال 20 بار کیا۔آپ اسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ انہوں نے اسے کتنا بھنا یا۔ ’نیچ ‘ لفظ کے سارے رس نکال لئے۔
بہر حال ،بی جے پی اور آر ایس ایس کے علاوہ میڈیا کو بھی راجستھان کے اس واقعہ کے لئے برابر کا ذمہ دار ٹھہرا یا جانا چاہئے۔ راجستھان کا یہ واقعہ ملک میں پیداکئے گئے اس ماحول کا نتیجہ ہے، جسے بنانے میں ان تینوں کی برابر کی حصہ داری ہے۔
ہمیں اب اس بات کو سمجھ لینے میں دیر نہیں کرنی چاہئے کہ ہمارے سماج(ہندواور مسلم دونوں) میں individual liberty کا گہرا فقدان ہے۔اوریہ بات نہ صرف باعث تشویش ہے، بلکہ ہمیں اس پر شرم بھی آنی چاہئے۔جس سماج میں انفرادی آزادی کا گراف بونا ہو،اسے خود کو ترقی یافتہ اور روشن خیال کہنے کا بالکل بھی حق نہیں ۔میں سمجھتا ہوں individual liberty کے بغیر سوسائٹی آگے بڑھنے کے نام پر صرف رینگ سکتی ہے، ترقی کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتی۔انفرادی آزادی کا مطلب ہے، ریاست کا ہر فرد اس بات کے لئے آزاد ہو کہ وہ اپنے ذاتی معاملات کے تمام فیصلے (چاہے وہ اچھے ہوں یا برے) خود لے ۔لہذا اگر ایک شخص آزاد نہیں ہے، تو اسکی نشو ونما متاثر ہوگی۔ نتیجتاً سوسائٹی کے ارتقاپر بھی منفی اثر پڑیگا۔ James Patersonکی بات کان دھرنے لائق ہے؛”تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب لوگ اپنی زندگی کے فیصلے لینے کے لئے آزاد ہوتے ہیں تو نہ صرف وہ لوگ خوشحال ہوتے ہیں،بلکہ پورا سماج بھی خوشحال ہو تاہے۔“D.H. Lawrence کا یہ قول بھی توجہ کا مستحق ہے:
”میری نظر میں انفرادی آزادی سب سے اوپر ہے۔ ایک ریاست کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ ہر فرد کی انفرادی آزادی کی حفاظت آخری حد تک کرے۔“
Right to Life and Personal Liberty (ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 21 ) ہمارا بنیادی حق ہے۔آزادی کے سات دہائی گزر جانے کے بعد بھی ہم اپنے اس بنیادی حق کا استعمال کتنا کر پاتے ہیں؟ جواب آپ کے سامنے ہے۔ حکومت ہمارے اس بنیادی حق کی حفاظت کس حد تک کرتی ہے؟ یہ بھی آپ کے علم میں ہے۔
انفرادی آزادی کے حوالہ سے ریاست کی کیا ذمہ داری ہے، اسے تھوڑی دیر کے لئے بھول جائیے۔اس حوالے سے، بحیثیت ایک انسان ہماری جو سوجھ بوجھ ہے وہ افسوس ناک اور بھیانک ہے ۔ ا گر کوئی لڑکی کسی دوسرے مذہب کے لڑکے سے محبت کر بیٹھتی ہے یا اس سے شادی کر لیتی ہے، تو اس میں ہمارے پیٹ میں درد کیوں ہوتا ہے؟جن کے بھی پیٹ میں درد ہوتا ہے، انہیں یہ بات جان لینی چاہئے کہ وہ’ بیما‘رہیں۔ایک لڑکی کے غیر مذہب میں شادی کرلینے سے آپ کا مذہب خطرے میں کیسے پڑسکتا ہے؟اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو پھر آپ کو اپنے مذہب کا پھر سے مطالعہ کرنا چاہئے۔آپ یہ کیونکر مان بیٹھے ہیں کہ اس لڑکی (یا لڑکا )کواپنی زندگی کے فیصلے خود لینے کا حق نہیں ہے۔کسی بھی شخص کی individual liberty کو سلب کرنے کا حق کسی بھی مذہب کوکیسے ہو سکتا ہے؟اگر دو ٹوک کہوں تو میری individual liberty آپکے مذہب سے بہت اوپر ہے۔
اگر اسی معاملہ کو پلٹ دیا جائے تو آپ کے پیٹ کا درد پتہ نہیں کہاں اور کیوں غائب ہوجاتا ہے ۔ یا یوں کہئے کہ اگر درد ہوتا بھی ہے تو اسکا اثر دیر پا نہیں ہوتا۔وقت کے ساتھ درد بھی چلتا بنتا ہے۔ مثلا اگر کوئی ہندو لڑکا کسی مسلم لڑکی سے شادی کر لیتا ہے تب نہ تو آپ کا خون کھولتا ہے، اور نہ ہی آپکے مذہب کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ یہی مثال ایک مسلم فیملی کے لئے بھی فٹ ہے۔کسی مسلم شخص کی بیٹی اپنے کسی ہندو دوست سے محبت کر بیٹھے ، تو پھر دیکھیے پورا خاندان کیسے انگڑائیاں لینے لگتا ہے۔خاندان کے ایک ایک فرد کا ایمان کروٹیں لینے لگتا ہے۔اسلام پر خطرات کے بادل نہ صرف منڈلانے لگتے ہیں بلکہ زور زور سے گرجنے بھی لگتے ہیں۔ مگر صورت حال تب مختلف ہوتی ہے جب ایک مسلم لڑکا کسی ہندو دوشیزہ کو اپنا دل دیتا ہے۔دو چار دن کی تکلیف کے بعد ’سب کچھ’ ’نہیں کچھ‘ میں بدل جاتاہے۔ اسلا م بھی خطرے سے محفوظ ہوجاتا ہے۔کبھی کبھی تو الٹا ثواب بھی ۔۔۔ دراصل یہ سکہ کا دوسرا پہلو ہے۔ یعنی آپکے چہرے کا دوسرا رخ ۔گھنونا اور قابل نفرت۔ آپکا (ہندو اور مسلم) ایمان کس قدر نفاق سے بھرا ہے، آپ خود ہی دیکھ لیجئے۔
Categories: فکر و نظر