فکر و نظر

کیا لبرلائزیشن کی وجہ سے بد حال ہیں کسان؟

 اس ملک میں زراعت اور ان داتا کے بحران پر ہماری سیاست نے کبھی بھی ایمانداری نہیں دکھائی۔ آزادی کے بعد زراعت سال در سال خستہ ہوتی چلی گئی۔ حکومتوں نے ترقی کے نام پر جتنے بھی خواب اس ملک کو دکھائے ان سب کے مرکز میں زراعت اور کسان کبھی نہیں رہے۔

farmers-3

وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے سال 2022 تک ملک کے کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے، ان کی فصل کی لاگت کا پچاس فیصد فائدہ متعین کرنے اور کسانوں کو خود مختار بنانے کے سرکاری دعووں کے درمیان، اس خبر کو قطعی عام نہیں کہا جا سکتا کہ  زراعت والے اس  ملک میں گیہوں کی در آمد ٹھیک ایسے وقت پر ہو رہی ہے جبکہ بمپر پیداوار ہوئی ہے۔دراصل مرکز ی حکومت نے گیہوں کی در آمد پر صرف دس فیصدبرائے نام  ٹیکس  لگاکر اس کے در آمدات  کو منظوری دے رکھی ہے۔ موجودہ وقت میں عالمی بازار میں گیہوں کی کافی دستیابی ہے۔ لیکن مانگ میں کمی ہونے کی وجہ سے گیہوں کی قیمتیں ایک دم سطح پر ہیں۔ ایسے وقت میں یہ درآمد شدہ گیہوں ملک میں دستیاب گھریلو گیہوں سے نہ صرف سستا ہے، بلکہ در آمد فیس چکانے کے باوجود مقامی بازار میں کسانوں کے گیہوں کے مقابلے کافی سستا بک رہا ہے۔ ایسی حالت میں اناج کاروباریوں کے ذریعے ایسی  ریاستوں میں جہاں گیہوں کی پیداوار نہیں ہے اس درآمد شدہ گیہوں کی بھرپور سپلائی کی جا رہی ہے۔ اس کا اثر یہ ہے کہ گیہوں پیداکار ریاستوں کی مقامی غلہ منڈیوں میں گیہوں کے دام بہت گر گئے ہیں اور موجودہ وقت میں یہ حکومت کے سب سے کم  امدادی قیمت سے بھی نیچے  ہے۔

مثال کے لئے گیہوں کی ایک بڑی منڈی اتر پردیش ہے۔ یہاں آج کل 1400 سے 1500 روپیے فی کوئنٹل سے زیادہ گیہوں کا خوردہ دام نہیں ہے۔ جبکہ گزشتہ سال کے لئے گیہوں کی ایم ایس پی شرح 1625 روپیےفی کوئنٹل تھی۔ اس سیزن میں گیہوں کے دام نہ بڑھ پانے کے پیچھے اسی درآمد شدہ گیہوں کو ذمہ دار مانا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری خرید مجموعی پیداوار کے مقابلے محض 20 فیصد کے آس پاس ہی ہو پاتی ہے۔ باقی گیہوں کھلے بازار میں کسان اپنی سہولت اور ضرورت کے حساب سے بیچتے ہیں۔ یہ سیزن ان کسانوں کے لئے مناسب ہوتا ہے، لیکن درآمد شدہ گیہوں بازار میں ڈمپ ہونے سے کسانوں کو گھریلو سطح پر کم از کم امدادی قیمت بھی نہیں مل پا رہی ہے۔

یہی نہیں، حالات ابھی اور خراب ہوں‌گے۔ میڈیا میں آئی خبروں کے مطابق اس وقت 15 لاکھ ٹن گیہوں ملک کی بندرگاوہ تک آ چکا ہے اور اس سے بہت زیادہ گیہوں کے در آمد کا آرڈر دیا جا چکا ہے جو کسی بھی وقت بندرگاوہ تک پہنچ سکتا ہے۔ حالات کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مقامی غلہ کاروباری گھریلو گیہوں کی خرید میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہے ہیں اور گیہوں پیدا کار کسانوں کو کم از کم امدادی قیمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑ رہا ہے۔ سرکاری سطح پر بھی گیہوں کی خرید بند ہونے کے بعد کسانوں کو کم از کم امدادی قیمت متعین کرنے کے معاملے میں خاموشی اختیار کر لی گئی ہے۔ ایسی حالت میں بازار کے رحم وکرم  کے سوائے کسانوں کے سامنے کوئی راستہ  نہیں ہے۔

درآمد شدہ گیہوں کی وجہ سے صرف کسان ہی مصیبت میں نہیں ہیں، بلکہ حکومت کے سامنے بھی نزدیکی بحران منھ پھیلائے کھڑا ہوا ہے۔ دراصل موسم کی موافقت کے چلتے پچھلی ربی سیزن میں گیہوں کی پیداوار سب سے زیادہ لگ بھگ دس کروڑ ٹن تھی۔ اسی کے مطابق سرکاری ایجنسیوں نے گیہوں کی خرید بھی کی تھی۔ پنجاب، ہریانہ اور مدھیہ پردیش کی طرز پر اتر پردیش نے بھی جم کر سرکاری خرید کی ۔ اس کے چلتے سرکاری گودام بھر گئے۔ ابھی بحران یہ ہے کہ انڈین فوڈ کارپوریشن اپنے گودام میں بھرے گیہوں کو کھلے بازار میں بیچنے کی کئی کوشش کر چکی ہے لیکن جس قیمت پر وہ اس کی فروخت چاہتا ہے اس کے لئے خریدار ہی دستیاب نہیں ہیں۔ اب جب کارپوریشن کے گودام خالی نہیں ہوں‌گے تب یہ صاف ہے کہ نئی فصل کو حکومت خرید‌کرکہاں رکھے‌گی؟ ظاہر ہے نئی فصل کے لئے حکومت ایمانداری سے گیہوں کی خرید نہیں کرے‌گی۔

یہی نہیں، موجودہ ربی سیزن کے لئے حکومت نے گیہوں کی ایم ایس پی (کم از کم امدادی قیمت) 1735 روپیے فی کوئنٹل طے کی ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے غیر ملکی گیہوں کی در آمد اور تیز ہو جائے‌گی۔ ظاہر ہے یہ سب گھریلو جنس بازار کو ہی نقصان پہنچائے‌گا اور اس کے آخری شکار اس ملک کے کسان ہی ہوں‌گے۔دراصل، گیہوں پیدا کرنے والے کسانوں کا یہ موجودہ بحران اس بات کو سرے سے غیر متعلق ثابت کر دیتا ہے جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ پیداوار بڑھاکر ملک کے کسانوں کو خوش حال بنایا جا سکتا ہے۔ دراصل ایسی باتیں کرنے والے لوگوں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا کہ آخر مہنگے ہو رہے پیداوار کی لاگت کے بعد، بمپر پیداوار کی ساری ملائی انٹرمیڈیٹس کی جیب میں کیوں چلی جاتی ہے؟ حکومت کی سطح سے زیادہ پیداوار کی حالت میں کسانوں کے لئے منافع بخش قیمت کی گارنٹی کیوں نہیں دی جاتی؟ چاہے ٹماٹر ہو یا پھر پیاز بمپر پیداوار کرنے کا نقصان ہمیشہ کسانوں کے ذمہ کیوں آتا ہے؟ آخر اصل بحران کہاں ہے اور اس پر بات کرنے سے سیاست کتراتی کیوں ہے؟

دراصل، اس ملک میں زراعت اور ان داتا کے بحران پر ہماری سیاست نے کبھی بھی ایمانداری نہیں دکھائی۔ آزادی کے بعد زراعت سال در سال خستہ ہوتی چلی گئی۔ حکومتوں نے ترقی کے نام پر جتنے بھی خواب اس ملک کو دکھائے ان سب کے مرکز میں زراعت اور کسان کبھی نہیں رہے۔ چاہے وہ کانگریس کی حکومت ہو یا پھر مودی حکومت، کسی نے بھی ایمانداری سے زراعت کی تباہی کو روکنے کی پہل نہیں کی۔ قرض کے غلط چکر میں پھنسے کسانوں کو بے رحم بازار میں دھکیل دیا گیا جس نے ان کے خون تک چوس لیے۔ یہ آزادی کا ہی المیہ ہے کہ بین الاقوامی کمپنیوں کی عالمی لابنگ نے زراعت کو تباہ کرنے کی مہماتی شکل ہندوستانی بازار میں سستے گیہوں کو ڈمپ کروا دیا ہے۔ اس سے یہ طے ہے کہ اس سال پھر کسان تباہ ہو جائیں‌گے اور گیہوں کی پیداوار سے ان کا طلسم ٹوٹ ہو جائے‌گا۔ یہ تباہی کسانوں کی خریداری طاقت کو بھی بری طرح سے متاثر کرے‌گی جس کا نقصان ملک کی معیشت کو اٹھانا ہوگا۔

 یہ سب ایک اسپانسرشدہ طریقے سے ملک کے اشیائےخوردنی کے حفاظتی دائرے کو ختم کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ کسانوں کی تباہی کے بعد، وہ دن دور نہیں جب ہم اپنے افوڈ سیفٹی سائیکل کے لئے بین الاقوامی کمپنیوں پر منحصر ہوں‌گے۔ ایسی حالت میں ملک کے سوا ارب عوام بھوک سے بِلبلا جائیں گے اور اس کے لئے ہماری عوام مخالف سیاست ذمہ دار ہے۔سوال اور بھی ہیں۔ آخر یہ کیسی قوم پرستی ہے جو اس ملک کے کسانوں کو روند‌کر آگے بڑھنا چاہتی ہے؟ آخر کارپوریٹ لابنگ کے آگے مودی حکومت گھٹنے کیوں ٹیک دے رہی ہے؟ کیا اس کی ترجیح میں اس ملک کے قرض دار کسانوں کی جگہ منافع خور بین الاقوامی کمپنیاں نہیں ہیں؟ آخر قرض کے بوجھ تلے دب‌کر موت کو لگے لگا رہے کسانوں کو جب یہ حکومت ان کی فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت تک دلوانا متعین نہیں کر پا رہی ہے پھر کسانوں کی آمدنی دو گنی کرنے جیسی باتیں کیا صرف مضحکہ خیز اور خیالی پلاو نہیں ہیں؟

دراصل آج ہم جس ماحول میں جی رہے ہیں وہاں بحران زدہ زراعت اور تباہ ہوتے کسانوں پر سوچنا  وطن سے غداری کے زمرہ میں رکھ دیا گیا ہے۔ جب قوم پرستی کا جارحانہ دور چل رہا ہو اور حکومت کو ہی ملک مان لینے کے خطرناک رجحان کو فروغ  دیا جا رہا ہو ایسے مشکل دور میں دم توڑتی زراعت اور گھٹتے مرتےکسانوں پر کوئی بحث ممکن نہیں ہے۔ جب ٹھیلا پر رکھ‌کر غدار وطن ہونے کا سرٹیفکٹ بانٹا جا رہا ہو-گائے، گوبر کی ٹچّی بحث میں ملک کو الجھائے رکھا گیا ہو تب کسانوں کی تباہی طے ہے۔ کسان تباہی کے کنارے پر کھڑے ہیں لیکن مودی حکومت کی قوم پرستی بین الاقوامی کمپنیوں کے آقاؤں کی قدم بوسی میں پلکیں بچھائے لیٹی ہوئی ہے۔

(ہرے رام مشر سماجی کارکن  اور آزاد صحافی ہیں۔)