سعودی حکومت کے مطابق ملک میں پہلا سینما گھر اگلے برس مارچ میں کھول دیا جائے گا اور سال 2030 تک ملک بھر میں 300 سے زائد سینما گھر ہوں گے۔
سری نگر:جموں وکشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سعودی عرب میں سینما گھر کھولنے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔انہیں اس بیان کی وجہ سےسوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا ہے۔بعض صارفین نے سوال اٹھایا کہ محترمہ مفتی مسلم دنیا کے معاملات پر بول رہی ہیں، لیکن بھارت میں لو جہاد کے نام پر ہونے والی ہلاکتوں پر خاموش ہیں۔کئی صارفین نے وادی کشمیر میں بھی سینما گھر کھولنے کا مطالبہ کرڈالا۔وزیر اعلیٰ نے گذشتہ شام مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹوئٹرپر ایک ٹوئٹ اور اپنے آفیشل فیس بک پیج پر کہا ہے کہ ’ولی عہد سماجی اصلاحات کی ایک سیریز کے حصہ کے طور پر سینما گھروں پر لگی ایک دہائی کی طویل پابندی کو ختم کرنے کے سعودی عربیہ کے فیصلہ کا میں خیرمقدم کرتی ہوں۔خوداحتسابی اور خود اصلاحات ترقی پذیر سماج کی علامت ہیں‘۔
I welcome the decision by Saudi Arabia to lift a decade-long ban on cinemas as part of a series of social reforms by the crown prince. Introspection & self reform are marks of a progressive society.
— Mehbooba Mufti (@MehboobaMufti) December 12, 2017
سعودی حکومت کے مطابق ملک میں پہلا سینما گھر اگلے برس مارچ میں کھول دیا جائے گا اور سال 2030 تک ملک بھر میں 300 سے زائد سینما گھر ہوں گے۔ سعودی عرب میں 1980کی دہائی میں سینما گھروں کو بند کیا گیا تھا۔سعودی عرب میں سینما کی واپسی کا خیرمقدم کرنے پر محترمہ مفتی کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک کشمیری صحافی نے محترمہ مفتی کے بیان کے ردعمل میں اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا ’محبوبہ مفتی اکثر مسلم معاملات پر بولتی ہیں اور اپنے حالیہ بیان میں محترمہ نے سعودی حکومت کے ملک میں سینما گھر کھولنے کی اجازت دینے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ لیکن وہ بھارت میں لو جہاد کے نام پر ہونے والی لنچنگ پر مسلسل خاموش ہیں‘۔
کشمیری ممبر اسمبلی انجینئر رشید نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا ’محبوبہ مفتی اور گیلانی صاحب سعودی عرب میں سینما کھولنے کی بحث میں مصروف ہیں۔ ایک تعریف کررہا ہے دوسرا مذمت۔ ان کے لئے بہتر یہ ہوتا کہ دونوں مل بیٹھ کر حکمت عملی مرتب کرتے تاکہ کشمیریوں کی آواز کو سنا جاتا۔سعودی عرب میں ان کے الفاظ معنی نہیں رکھتے‘۔بزرگ علیحدگی پسند رہنماسید علی گیلانی نے سعودی عرب میں سینما گھر کھولے جانے کی اطلاعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیغمبر محمد نے اپنی بعثت کے بعد اس سرزمین کو ظلم وجبر، کفر و شرک اور فحاشی وعریانی سے پاک کردیا تھا، مگر وہاں کے حکمران آہستہ آہستہ اس سرزمین کو واپس اُسی طرف لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔
مسٹر گیلانی کا کہنا ہے کہ سعودی حکمران اس پاک سرزمین پر سینما گھر کھول کر اِسے فحاشی اور عریانی کی آماجگاہ بنانا چاہتے ہیں۔ اسلام قرآن اور سنت کی تعلیمات کے مطابق تاابد یکساں اور یک رُخ رہے گا۔ٹوئٹر پر ایک صارف نے محترمہ مفتی کے بیان کے ردعمل میں لکھا ’میڈم سماجی اصلاحات کے تحت کشمیر میں سینما گھر کب دوبارہ کھولے جائیں گے۔ یہ سب تقریریں صرف دوسروں کے لئے ہیں۔کیا کشمیر میں فلمیں دکھانے کی آپ میں ہمت ہے؟‘
عاشق سید نامی ایک صارف نے لکھا ’ہم کشمیر میں بھی سینما گھر چاہتے ہیں‘۔ جوشی جی نام کے ایک ٹوئٹر ہینڈل نے لکھا ’اچھا ہوا کہ آپ نے اس بات کو تسلیم کیا۔ آپ گرمائی دارالحکومت سری نگر میں سینما گھر کب کھول رہی ہیں؟‘اس ٹوئٹر ہینڈل نے مزید لکھا ’کشمیریوں کو فلمیں دیکھنے کے لئے جموں جانا پڑتا ہے‘۔ فیضان نام کے ایک صارف نے لکھا کہ سری نگر میں موجود سینما گھروں میں سیکورٹی فورسز نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔
آصف سید نام کے ایک صارف نے لکھا ’محترمہ سی ایم صاحبہ،میں چاہتاہوں کہ ایسی ہی اصلاحات ہمارے یہاں بھی ہوں۔ ہمارے کشمیر میں بہت ٹیلنٹ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کشمیر میں سینما گھر بغیر کسی مزید تاخیر کے کھلنے چاہیے‘۔سنگیت کے ماسٹر ابھے رستم سوپوری نے لکھا ’کشمیر میں بھی سینما گھروں کو عام لوگوں کے لئے کھولا جانا چاہیے۔ کشمیری اور کشمیر آنے والے سیاح اس کا انتظار کررہے ہیں‘۔ تنویر میر نامی صارف نے لکھا ’پہلے خود انٹرنیٹ پر پابندیاں لگانا بند کرو۔ پھر اوروں کی سوچو‘۔
پہلے خود انٹرنیٹ پر پابندیاں لگانا بند کرو ۔پھر اوروں کی سوچو ۔۔۔
— Tanveer Mir (@Tanveer08899877) December 12, 2017
غور طلب ہے کہ کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں ایک بھی سنیما گھر موجود نہیں ہے۔ جن سنیما گھروں میں 1980 کی دہائی میں فلمیں دکھائی جاتی تھیں وہ اب یا تو سیکورٹی فورسز کی زیر تصرف ہیں یا ان کی عمارتیں بوسیدہ ہوچکی ہیں۔ وہ بھی اس حقیقت کے باوجود کہ وادی کی برف سے ڈھکی پہاڑیاں، سرسبز و شاداب کھیت اور دلکش آبی ذخائر بالی ووڈ کو فلموں کی عکس بندی کے لئے یہاں کھینچ لاتے ہیں اور بیسویں صدی کی چھٹی سے لیکر آٹھویں دہائی تک بیشتر بالی ووڈ فلموں کی عکس بندی یہیں ہوئی ہیں۔وادی کشمیر کے حالات پر گہری نگاہ رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے ’ وادی میں 1980 کی دہائی کے اواخر میں نامساعد حالات نے جنم میں لیا جس نے یہاں سب کچھ تبدیل کرکے رکھ دیا ہے‘۔
Categories: خبریں