ایسا لگتا ہے کہ مودی کو اخلاقیات اور وطن پرستی کی دہائی دےکر عوام کو تکلیف میں ڈالنے میں مہارت حاصل ہو گئی ہے۔
ہندوستانی متوسط طبقے میں بی جے پی حکومت کو لےکر کتنا عدم اعتماد ہے، اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی کافی گھبراہٹ کے ساتھ ایک مجوزہ قانون کے نتائج کو لےکر بحث چل رہی ہے۔یہ مجوزہ قانون بینکوں میں جمع لوگوں کی بچت کی حکومت کے ذریعے اپنے قبضے میں کر لینے کا راستہ تیار کرتا ہے۔ تھوڑا اور واضح کرکے کہا جائے، تو یہ قانون حکومت کو یہ حق دےگا کہ وہ کسی بینک کے دیوالیہ ہو جانے کی حالت میں یا اس کو بحال کرنے کے نام پر بینکوں میں جمع لوگوں کی بچت کو اپنے قبضہ میں لے لے۔
اس عدم اعتماد کا ایک حصہ، بلکہ اصل میں گہرا شک، اس امکان سے پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کسی خیالی ‘ ملکی مفاد ‘ کے نام پر عوام پر مالی تکلیفوں کا ایک اور چابک چلا سکتے ہیں۔ نوٹ بندی کو بھی تو آخرکار ہندوستانی نظام کو کالا دھن سے آزاد کرانے کے اخلاقی اور ‘ وطن پرست ‘ پروجیکٹ سے جوڑا گیا تھا۔
آخرایف آر ڈی آئی ایکٹ کو لےکر لوگوں میں اتنے ڈر کی وجہ کیا ہے؟ جبکہ ظاہری طور پر اس کا مقصد معیشت کے لئے اہم مالی اداروں کے ساتھ ساتھ چھوٹی بچت والوں کے مفادات کا تحفظ کرنا بتایا جا رہا ہے۔پچھلے کچھ ہفتوں میں ہوئی لمبی بحث کے بعد وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے یہ اشارہ دیا کہ لوگوں کے خدشات کو دور کرنے کے لئے فی الحال پارلیامنٹکی مستقل کمیٹی میں زیرغور اس مجوزہ قانون کے بعض جوازوں کا تجزیہ کیا جائےگا۔
ایسا کرنے سے پہلے جیٹلی کو یہ لازمی طورپر سمجھنا ہوگا کہ مجوزہ قانون کو لےکر جس طرح کے خدشات کو ظاہر کیا جا رہا ہے، اس کے پیچھے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی عمل آوری کے طریقے کا بڑا ہاتھ ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو بہت زیادہ تکلیف اٹھانی پڑی تھی۔اس نئے مجوزہ قانون کو لےکر خدشات کیا ہیں؟ مجوزہ قانون کے آرٹیکل 52 میں کہا گیا ہے کہ کسی بینک کے تجارتی طور پر نااہل ہو جانے کی صورت میں صارفین کی جمع کرائی گئی رقم کے نیچر کو بدلا جا سکتا ہے۔یعنی، اگر کوئی بینک معیشت کے حساب سے اتنا اہم ہے کہ اس کو کنگال نہیں ہونے دیا جا سکتا، تو اس کو بچانے کے نام پر مجوزہ قانون کا آرٹیکل 52 ایک ‘ بیل-ان ‘ اہتمام کا ذکر کرتا ہے۔ یہ بیل-ان ریزولیوشن کارپوریشن نامی ایک خاص حق حاصل اتھارٹی کو بیل-ان اہتمام کو موثر قانونی حق دینے کی بات کرتا ہے۔
میں آپ کو ایک مثال دےکر بتاتا ہوں کہ آخر مجوزہ مسودہ کا ‘ بیل-ان ‘ اہتمام کس طرح کام کرےگا۔ فرض کر لیجئے کہ ہندوستان کا سب سے بڑا اور اقتصادی نظام کی نظر سے سب سے زیادہ اہم بینک ایس بی آئی (اسٹیٹ بینک آف انڈیا) کے پاس فی الحال تمام جمع بچت 20 لاکھ کروڑ روپیے ہیں۔اگر کسی وجہ سے ایس بی آئی کی مالی حالت اتنی خراب ہو جائے اور یہ اتنے جوکھم میں آ جائے کہ اس کو نئے قانون کے تحت ریزولیوشن کارپوریشن کے پاس بھیج دیا جاتا ہے، تو یہ قوی امکان ہے کہ ایس بی آئی کے تمام جمع کا تقریباً 10 فیصد، جو تقریبا دو لاکھ کروڑ روپیے کے برابر ہوگا، کو یا تو ایکویٹی شیئر میں بدل دیا جائےگا یا سود دینے والے پری فرینس شیئر میں بدلکر جمع۔کاروں کو دے دیا جائےگا، جن کے پاس ہو سکتا ہے، اس معاملے میں کوئی اختیار نہ ہو۔
یعنی جمع کا ایک حصہ بینکوں کے شیئرز میں بدل دیا جائےگا۔ جمع کی فطرت میں اس جزوی تبدیلی سے ایس بی آئی کے سرمایہ میں اضافہ ہوگا۔ ہو سکتا ہے۔ بڑے تجارتی گھرانوں کے خراب قرضوں (نان پرفارمنگ ایسیٹس) کے رائٹ آف (ہٹائے جانے) کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ یہ سرمایہ پوری طرح سے ختم ہو جائے! یعنی بڑی کاروباری کمپنیاں بینکوں کا سرمایہ ہضم کر جائیں اور پھر اس کی بھرپائی کرنے کے لئے لاکھوں جمع کار ملکر بینک کو تازہ سرمایہ کے طور پر 2 لاکھ کروڑ روپیے جمع کرکے دیں۔مرکزی حکومت، جو عوامی شعبے کے بینکوں کا مالک ہے، بھی تازہ سرمایہ ڈالنے کی اپنی ذمہ داری سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ سرمایہ کو بڑھانے کے لئے جمع کاروں کے پیسوں کا استعمال مالی عقلمندی کے مرکز کے دعویٰ کو مضبوط کرتا ہے، جس سے موڈی اور دوسری ریٹنگ ایجنسیوں کو متاثر کرنے میں مدد ملےگی۔
نظریاتی طور پر دیکھیں، تو حکومت کے لئے یہ نئی بیل ان اسکیم حکومت کے لئے ایک خوش کن صورت حال ہے۔ لیکن، سیاسی طور پر اس قدم کو چاروں طرف سے چیلنج دیا جائےگا، کیونکہ یہ واضح ہے کہ بڑے کارپوریٹراپنا قرض نہ چکانے کی کوئی قیمت نہیں چکا رہے ہیں۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ کئی معاملوں میں مقروض نے جان بوجھ کر پیسے واپس نہیں کئے ہیں، اور آر بی آئی غور و فکرکرکے اس کا اعلان نہیں کر رہا ہے۔موجودہ حالات کے حساب سے، بینکوں کو بڑے کارپوریٹ گروپوں کو دئے گئے قرض کی 30 فیصد سے زیادہ رقم نہیں ملےگی۔ 15 لاکھ کروڑ روپیے کے خراب قرض کے سب سے بڑا حصہ اس کا ہی بنا ہوا ہے۔
نظریاتی طور پر نہیں لوٹائے جانے والے بڑے کارپوریٹ قرض کے بچے ہوئے 70 فیصد حصے کی بھرپائی جمع کاروں کو بیل ان اہتمام کے تحت سرمایہ مہیّا کرانے کے لئے مجبور کرکے کی جا سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ دو بےحد ضروری باتوں پر دھیان دیا جانا بےحد ضروری ہے۔ پہلا، اس بل میں ان چیزوں کی ایک فہرست دی گئی ہے، جن کو بیل-ان میں شامل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس میں ایک استثنا وہ بچت ہیں، جو بچت بیمہ کے اندرآتے ہیں۔
فی الحال، ایک لاکھ تک کا سارا جمع 1962 کے ایک قانون کے تحت محفوظ ہے۔ لیکن، ایک بار ایف آر ڈی آئی بل کے منظور ہو جانے کے بعد، یہ بچت بیمہ فریم ورک کی جگہ لے لےگا۔ فی الحال اس بل میں کسی طےشدہ بچت بیمہ رقم کا ذکر نہیں کیا گیا ہے (1960 عیسوی کا 1 لاکھ، آج آسانی سے 12 سے 14 لاکھ کے آس پاس ہوگا۔ )، جس کی وجہ سے فکر پیدا ہونا فطری ہے۔دوسری بات، آخر بیل-ان اہتمام کو لوگوں کی خواہش پر کیوں نہیں چھوڑا جانا چاہیے؟ ویسے جمع کارجو اس میں شامل ہونا چاہیں اور اپنے پیسے کو ایکویٹی شیئر میں بدلنا چاہیں، ان کی رضامندی سے ان کو ایسا کرنے کی اجازت دی جا سکتی تھی۔
یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ کوئی بھی حکومت کسی عوامی بینک کے بیل-ان کا قدم نہیں اٹھائےگی، کیونکہ یہ ایک بہت بڑے سیاسی زلزلے کو جنم دے سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی کو اخلاقیات اور وطن پرستی کی دہائی دےکر عوام کو تکلیف میں ڈالنے میں مہارت حاصل ہو گئی ہے۔ یہی وہ بات ہے، جس کی وجہ سے متوسط طبقےکے ڈر کی کوئی انتہا نہیں ہے۔