خبریں

ادبی میلوں اورجاوید اختر جیسوں سے کیوں ناراض ہیں چترا؟

’ مجھے ان ہدایت کاروں کو ادبی کانفرنسوں کے منچ پر بلائے جانے کو لےکر اعتراض نہیں ہے، جنہوں نے ادبی تخلیقات پر فلمیں بنائی ہوں۔ ‘

photo: spandansansthan.wordpress.com

photo: spandansansthan.wordpress.com

اندور : ادبی کانفرنس میں  اسٹیج پر اہم مقررکے طور پر فلمی دنیا کے لوگوں کی تعداد کولےکر مشہور فکشن نویس چترا مدگل نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ان کانفرنسوں میں محض بھیڑ جٹانے کے لئے فلمی شخصیتوں کو بلائے جانے کی یہ روایت ہرگز ٹھیک نہیں ہے اور ادب کے اسٹیجوں پر ادیبوں کو ان کی واجب اہمیت دلوائی جانی چاہئے۔

چترا نے اندور لٹریچر فسٹیول میں حصہ لینے کے دوران یہ باتیں کہیں ۔حالانکہ، ادبی دنیا کے اس سالانہ اجتماع میں ان کے ساتھ کسی فلمی شخصیت کو منچ شیئرکرتے نہیں دیکھا گیا۔ مدگل نے کہا، ‘ کچھ منتظمین دلیل دیتے ہیں کہ فلمی دنیا کے لوگوں کو ادبی  کانفرنسوں میں اس لئے بلایا جاتا ہے، کیونکہ ان کے نام پر آسانی سے بھیڑ جٹ جاتی ہے۔ لیکن میں ایک مزدور مصنفہ کی شکل میں اس روایت سے قطعی متّفق نہیں ہوں۔ اگر منتظمین کو فلمی دنیا کے لوگوں کو بھی بلانا ہے، تو ان کو ادبی  کانفرنسوں کا نام بدل‌کر ادب، آرٹ اور فلم کانفرنس کر دیاجانا چاہئے۔ ‘

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ملک کے ادبی کانفرنسوں میں فلمی ہستیوں کے متعلق سامعین کی بڑھتی کشش کی وجہ سے ادیب طبقہ ان سے حسد محسوس‌کر رہے ہیں، 73 سالہ ادیب نے جواب دیا، ‘ اس میں حسد جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ ہم بس اتنا چاہتے ہیں کہ ادبی کانفرنسوں میں ادیبوں کو ان کی واجب اہمیت دلوائی جائے۔ ‘

مشہور ناول ‘ آنواں ‘ کی مصنفہ نے کہا، ‘ مجھے ان ہدایت کاروں کو ادبی کانفرنسوں کے منچ پر بلائے جانے کو لےکر اعتراض نہیں ہے، جنہوں نے ادبی تخلیقات پر فلمیں بنائی ہوں۔ ‘انہوں نے کہا، ‘ ایک زمانے میں ادبی پروگراموں میں سوریہ کانت ترپاٹھی نرالا اور ہری ونش رائے بچّن جیسے مشہور و معروف شعراکی ایک جھلک پانے کے لئے لوگ بیل گاڑی میں سوار ہوکر دور دور سے رات بھر کا سفرطے کرکے آتے تھے، کیا کوئی فلمی نغمہ نگار مقبولیت کے پیمانوں پر ان مشہور شعرا کی برابری کر سکا ہے۔ ‘

’کھانٹی ادیبوں‘سے فلمی دنیا میں سوتیلے برتاؤ کا مدعا اٹھاتے ہوئے وہ تلخ لہجے میں پوچھتی ہیں، ‘ ان دنوں ادبی کانفرنسوں کے اسٹیج پر فلمی ہستیاں تو بڑی تعداد میں نظر آتی ہیں۔ لیکن فلمی دنیا کی تقریبات میں کتنے ادیبوں کو بلایا جاتا ہے۔ ‘

Photo: PTI

Photo: PTI

مشہور نغمہ نگار جاوید اختر ملک کے الگ الگ شہروں میں منعقد ادبی کانفرنسوں میں برابر اپنی موجودگی درج کراتے ہیں، ان کا ذکر چھڑا، تو سینئر مصنفہ نے کہا، ‘ جاوید کے والد جان نثار اختر اپنے زمانے کے بڑے شاعر رہے ہیں اور ہمیں ان پر فخر ہے، لیکن جاوید نے زیادہ پیسے اور لمبی گاڑی کے لئے ایک لڑکی کو دیکھا، تو ایسا لگا جیسے نغمہ لکھنا منظور کیا۔ ‘

چترا نے کہا کہ امرت لال ناگر اور منوہر شیام جوشی جیسے بڑے ادیب بھی ایک وقت فلمی دنیا میں گئے تھے، لیکن کچھ سال بعد وہ ادب کی دنیا میں لوٹ آئے، کیونکہ ان کو اپنے تخلیقی اقدار سے سمجھوتہ برداشت نہیں تھا۔بالی ووڈ کی فلموں نے ہندی کو دنیا بھر میں پہنچانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اس بات کا ذکر کئے جانے پر انہوں نے زور دےکر کہا کہ فلم کے لیے لکھنے والوںاور ادیبوں کے کاموں کا تجزیہ ہونا چاہیے۔

چترا نے کہا، ‘ کچھ سال پہلے میں جب سوری نام گئی، تو میں نے وہاں کی سڑکوں پر سلمان خان کی فلم دبنگ کا ایک نغمہ بجتے سنا۔ مجھے اس سے خوشی بھی ہوئی۔ فلموں کے ذریعے ہندی زبان کی عالمی تشہیر تو ہوئی ہے، لیکن اس ذرائع میں ہندی ادب کو کافی ترقی نہیں دی گئی ہے۔ بتائیے، ہمارے یہاں ادبی تخلیقات پر کتنی فلمیں بنتی ہیں۔ ‘