ہم سبھی کو یہ قبول کرنا ہی ہوگا کہ پڑھکر پاس کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ سبھی کو پڑھنا آ گیا ہے۔ جو لکھا جا رہا ہے اور جس طرح سے پڑھا جا رہا ہے اس کے درمیان میں بہت کچھ ہو جاتا ہے۔
پرو پبلیکا میری پسند یدہ نیوزسائٹ میں سے ایک ہے۔ صحافت کے طالب علموں کو اس سائٹ پر جانا چاہیے۔ پرو پبلکا نے فیس بک پر کئی امریکی کمپنیوں کے نوکری والے اشتہارات کی اسٹڈی کی ہے۔ فیس بک کو آپ کی عمر پتا ہے۔ اس بنیاد پر نوکریوں کے اشتہار کو اس طرح سے ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ صرف 26 سے 34 سال کے ہی نوجوانوں تک پہنچے۔ 40 کی عمر والے کو پتا ہی نہیں چلےگا کہ ان کے لئے نوکری ہے۔ بلکہ ان کو نوکری نہیں دینی ہے اس لئے بھی تو مواقع کو عمر کے حساب سے ڈیزائن کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ ہرجگہ ہوتا ہے۔ 40 کے بعد والوں کی نوکری کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ تکلیف دہ ہے۔ پرو پبلکا نے کچھ کمپنیوں سے پوچھا تو کہنے لگیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی۔ ہم اصلاح کریںگے۔ کچھ نے جواب ہی نہیں دیا۔
دنیا کو جانتے رہیے۔ جو لکھ رہا ہوں، اس کو صحیح سے پڑھیے۔ میں یہاں کوئی فین بازی کرنے نہیں آتا بلکہ اپنی سمجھ سے کچھ خبروں کو کیوریٹ کرتا ہوں۔ ان کا یکجا کرتا ہوں اور نتیجہ پیش کرتا ہوں تاکہ پڑھنے والوںکو کچھ الگ طریقے سے دیکھنے کا موقع ملے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا میں باقی خبریں نہیں ہیں۔ بالکل ہیں۔ آپ ان کو طرح طرح کے ذرائع سے جان ہی لیتے ہوںگے۔
اس لئے میرا فوکس اس بات پر رہتا ہے کہ ویسی اقتصادی خبریں پیش کروں جومقامی زبانوں میں نمایاں طور پر کم ملتی ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بینک بحران میں ہے تو پورا ہندوستان ہی بحران میں ہے۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ بینک بحران میں ہے۔ آپ کمنٹ کرنے لگتے ہیں کہ میں نگیٹو بات کرتا ہوں۔ میں نے تو بینک ڈوبائے نہیں۔ یہ بینکوں کے اعداد و شمار ہیں جو آپ کو دے رہا ہوں۔ ہندوستانی ریزرو بینک کی رپورٹ میں ہے۔ کیا یہ سب نگیٹو باتیں کر رہے ہیں؟
ہندوستان کے خراب تعلیمی نظام نے زیادہ تر کو خراب کیا ہے۔ ہم سبھی کو خراب کیا ہے۔ بہت سے لوگ تو نوکری میں آنے کے بعد ایک کتاب تک نہیں پڑھتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ نصاب ختم۔ ٹی وی دیکھ لیا اور اخبار پڑھ لیا تو پڑھنا ہو گیا۔ ہم سبھی کو یہ قبول کرنا ہی ہوگا کہ پڑھکر پاس کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ سبھی کو پڑھنا آ گیا ہے۔ جو لکھا جا رہا ہے اور جس طرح سے پڑھا جا رہا ہے اس کے درمیان میں بہت کچھ ہو جاتا ہے۔
مجھے بھی کئی بار پڑھنا نہیں آتا ہے۔ بار بار پڑھنا پڑتا ہے۔ ہرکوئی اخبار خریدتا ہے مگر ہر کسی کو اخبار پڑھنا نہیں آتا ہے۔ ہر کسی کو کتاب پڑھنی نہیں آتی ہے۔ بے شک آپ پوری کتاب پڑھ جاتے ہیں مگر اس کو سمجھنا، اسے جاننا ایک الگ ریاضتہے۔
ہزاروں کمنٹ پڑھ چکا ہوں۔ ان کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ جو کسی بھی طرف سے تبصرہ کرتے ہیں، جو سامنے لکھا ہوتا ہے، اس کو دیکھنے سمجھنے میں چوک جاتے ہیں۔ دراصل ان کے دماغ میں جو امیج بنی ہوئی ہے، اسی کاعکس وہ تحریر میں پڑھنے لگتے ہیں۔ حالت یہ ہو جاتی ہے کہ ج سے لکھا ہوا کوئی بھی لفظ جئے پور نظر آنے لگتا ہے۔ ہم سب کو وقت وقت پر پڑھنے کے لئے خود کو تربیت کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کسی کو برا ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو نہ ہمیں۔ واقعی ہرتعلیم یافتہ کو پڑھنا نہیں آتا ہے۔
(رویش کمار کی فیس بک پوسٹ سے)
Categories: خبریں