آلٹ نیوزنے مسلسل اس پیج کے جھوٹ کا پردہ فاش کیا ہے۔ سماج کو بانٹنے کا اس پیج کا ایجنڈا سب کو پتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ فیس بک اور ٹوئٹر اس پر کارروائی کب کریںگے؟
آج کے دور میں سوشل میڈیا فیک نیوز اور افواہوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ فیک خبریں سماج میں اور طبقوں کے درمیان ٹکراؤ پیدا کرنے کے مقصدسے پھیلائی جاتی ہیں۔ کئی ویب پورٹل اور ٹوئٹر ہینڈل اس کام کو منصوبہ بند اور منظم طریقے سے انجام دے رہےہیں۔ shankhnaad.net ایک ایسا ہی پورٹل ہے جو جان-بوجھ کر غلط خبریں بناکر پھیلانے کے لئے بدنام ہے۔ ShankhNaad کئی بار فیکٹ چیکنگ ویب سائٹوں کے ذریعے ایکسپوز کیا جا چکا ہے۔ Alt News نے بھی کئی بار اس پورٹل کے جھوٹ کو پکڑا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ShankhNaad مسلسل اشتعال انگیز فرضی خبر پھیلانے سے باز نہیں آیا ہے۔
آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ 2013 سے جب سے یہ پورٹل شروع ہوا ہے اس نے کیا گل کھلائے ہیں :
18 جون 2017 میں ہوئے چیمپینس ٹرافی فائنل میں پاکستان نے ہندوستان کو ہرایا۔ ٹھیک اس کے اگلے دن 19 جون کو ShankhNaad نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو پوسٹ کیا جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دو نوجوان بائک پر بیٹھکر پاکستان کا پرچم لہرا رہے ہیں۔
This isn't sportsmanship but radical islamic extremism which attaches them to islamic nation.
Why to tolerate this in d name of secularism? pic.twitter.com/oJ40G7NZHj
— ShankhNaad (@ShankhNaad) June 19, 2017
یہ ویڈیو بھی توقع کے مطابق جھوٹا نکلا۔ وڑودرا پولیس کے مطابق یہ ویڈیو دسمبر 2016 کا ہے جو عیدِ میلاد کے موقع کا جشن مناتے ہوئے دو مسلمان نوجوانوں کا ہے۔ Alt News نے اس کو ایکسپوز بھی کیا تھا۔ آپ اس ویڈیو کا سچ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
ابھی حال اکتوبر میں ShankhNaad نے ایک ٹوئٹ کیا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اتر پردیش کے بھدوہی میں کچھ مسلمانوں نے سوامی وویکا آنند کے مجسمہ کا گلا کاٹ اس کو تباہ کر دیا۔
لیکن بھدوہی کے SP نے افواہوں کو سرے سے خارج کرتے ہوئے ایک وضاحت دی اور بتلایا کہ مجسمہ توڑنے کا ذمہ دار شخص کوئی مسلمان نہیں بلکہ پریم چند گوتم نامی ایک شخص ہے جس کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ یہ رپورٹ فرقہ وارانہ جذبہ بھڑکانے کی کوشش تھی۔ اس جھوٹ کو بھی آلٹ نیوز نے پکڑ لیا تھا۔ آپ اس رپورٹ کو یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
ستمبر 2017 میں ShankhNaad نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو شیئر کیا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ حیدر آباد میں مسلمانوں نے ایک ہندو مندر میں آگ لگا دی پھر آگ زنی اور توڑ-پھوڑ کی۔
Chilling video shows how #Hindu Temple, Vehicles & Cows in Goshala were set on fire by Muslim mobs in #Hyderabad, India.
*Date Unknown* pic.twitter.com/gpA596BdN7— ShankhNaad (@ShankhNaad) September 26, 2017
حیدر آباد پولس نے فوراً ہی اس دعویٰ کی تردید کی اور اس ویڈیو کو فیک بتایا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پورے حیدر آباد میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
30 جولائی 2017 کو ShankhNaad نے ایک نفرت انگيز ویڈیو ٹوئٹر پر شیئر کیا۔ اس ویڈیو میں ایک شخص کے ہاتھ کاٹ دئے جاتے ہیں۔ ShankhNaad نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ یڈیو جس میں راجیش نام کے RSS کارکن ہے جس کے تروننت پورم میں قتل کر دیا گیا۔ یہ ویڈیو بہت شیئر ہوا لیکن اس کے بعد پتا چلا کہ یہ ویڈیو 2014 میں برازیل میں لیا گیا تھا جہاں ایک مشتبہ چور پر گیا تھا۔ اس ویڈیو کے انکشاف کے بعد ہٹا لیا گیا اور ShankhNaad کو یہ ٹوئٹڈلیٹ کرنا پڑا۔
جولائی 2017 میں ShankhNaad نے ایک اور فرضی خبر شیئر کی۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ ممبئی کے بائکلا جیل میں ایک ہندو خاتون مجرم کی مسلم جیلر کے ہاتھوں ٹارچر کے بعد موت ہو گئی۔
سچائی یہ تھی کہ قیدی منجلا شیتے کو پانچ خاتون کانسٹیبل نے ٹارچر کیا تھا جس میں سے ایک وسیمہ شیخ تھی۔ باقی کانسٹیبل ہندو تھی۔ یہ خبر ایک اور کوشش تھی دو طبقوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی۔
جولائی 2017 کو پھر سے ShankhNaad نے ایک ویڈیو پوسٹ کیا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ مسلمانوں کے گروہ نے ملکر شاملی، اتر پردیش میں ایک پولیستھانے پر حملہ کر دیا اس کے بعد آگ زنی اور تشدد کی واردات کو انجام دیا۔
How Muslim mob had attacked police station, pelted stones, arson, riots. Routine for them.#NotInMyName gang keeps silence on it, always. pic.twitter.com/YPWGVq3aWh
— ShankhNaad (@ShankhNaad) July 2, 2017
شاملی پولیس نے اسی وقت اس ویڈیوکو جھوٹا بتاتے ہوئے صاف کیا کہ یہ ویڈیو 2 سال پرانا ہے اور اس معاملے میں پولیسمناسب کارروائی کر چکی ہے۔
30 جون 2017 کو ShankhNaad نے اپنے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پوسٹ کیا تھا جس میں کہا گیا کہ مسلمانوں نے مہاراشٹر میں گنیش چترتھی منانے جمع ہوئے ہندوؤں کو پیٹا۔
Horrendous! #Jihadi attacks during #Ganesha festival are new normal in Maharashtra.
Why is #NotInMyName gang of pseudo-liberals silent ? pic.twitter.com/pap4OJTyFT— ShankhNaad (@ShankhNaad) June 30, 2017
اصل میں یہ ویڈیو معراج سانگلی میں 2009 میں بنایا گیا تھا۔ اور یہ جھڑپ گنیش تہوار کے دوران لگائے گئے ایک اشتعال انگیز پوسٹر پر ہوئی تھی۔
ShankhNaad نے راشٹرپتا مہاتما گاندھی کو بھی نہیں بخشا۔ اپنے ٹوئٹر پر اس نے ایک مضمون شیئر کیا جس میں گاندھی جیکے حوالے سے ایک فرضی قول ڈال دیا گیا۔ جس میں مبینہ طور پر گاندھی جی نے ہندو اور سکھ خواتین کو مسلمان ریپ کرنے والوں کے ساتھ ” تعاون کرنے کہا تھا “۔
RT if you think ideology of #Gandhi is a boost for #Rape Jihad and disgrace to humanity !!
.#Islam #HinduDeniedEqualityhttps://t.co/SaC8TeQXrP pic.twitter.com/3SCSmVff6D— ShankhNaad (@ShankhNaad) November 11, 2017
Alt نیوز نے اس واہیات دعوےسے بھی پردہ اٹھایا تھا۔
اکتوبر 2014 میں ShankhNaad پیج کا نام ” ڈاکٹر سبرمنیم سوامی ” تھا۔ اس وقت اس نے ایک بیٹی کے اپنے والد کی موت پر غم مناتے ہوئے فوٹو کو یہ بولکر شیئر کیا کہ یہ فوٹو ایک یزیدی خاتون کا ہے جس کا آئی ایس ٓئی ایس نے ریپ کیا تھا۔
اسی طرح جنوری 2014 میں ShankhNaad کے پیج ڈاکٹر سبرمنیم سوامی نے ایک فوٹو شیئر کی جس میں پولیس مظاہرین کے ایک گروہ پر لاٹھی چارج کرتے دیکھی جا سکتی ہے۔ فوٹو میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس تصویر میں بنگلہ دیش میں مسلمانوں کے ذریعے ہندوؤں کو پیٹا جا رہا ہے۔
لیکن اصل میں یہ فوٹو بنگلہ دیش میں بھڑکےانتخابی تشدد کا تھا اور اس کا ہندو-مسلمان تشدد سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
4 جولائی 2017 کو جب وزیر اعظم نریندر مودی سرکاری دورہ پر اسرائیل گئے تھے تب ShankhNaad نے ایک مظاہرہ کی فوٹو شیئر کی اور اس میں یہ دعویٰ کیا کہ ہندوستانی مسلمانوں نے اس مظاہرہ کو وزیر اعظم کا دورہ کی مخالفت کرنے کے لئے منعقد کیا۔ یہ جھوٹ بھی جلدی پکڑا گیا اور پتا چلا کہ یہ فوٹو 2012 میں سری لنکا میں ہوئے مظاہرے کا تھا۔
ShankhNaad کی ویب سائٹshankhnaad.net اکتوبر 2013 میں رجسٹر کی گئی۔ اس ویب سائٹ کے مالک راہل پریہ درشی نام کے شخص ہیں۔ پہلے دن سے یہ ویب سائٹ منظم طریقے سے اشتعال انگیز اور جھوٹی خبریں اور کنٹینٹ دو طبقوں کے بیچ میں تشدد بھڑکانے کے مقصد سے پوسٹ کر رہا ہے۔ پوسٹ میں مائنارٹی کمیونٹی کے لوگوں کو تشدد بھڑکانے کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے جس سے سماج میں نفرت اور تقسیم بڑھے۔ فیس بک پر اس پیج کے 13 لاکھ فالوور ہیں اور ٹوئٹر پر 18000۔ ان سب کو ہر دن جھوٹی خبروں، اشتعال انگیز ویڈیو اور سیاق و سباق کو توڑمروڑکر بنائی گئی تصویروں کی خوراک دی جا رہی ہے۔ Alt News نے مسلسل اس پیج کے جھوٹ کا پردہ فاش کیا ہے۔ سماج کو بانٹنے کا اس پیج کا ایجنڈا سب کو پتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ فیس بک اور ٹوئٹر اس پر کارروائی کب کریںگے؟ کیا ایڈمنسٹریٹر ایک بڑے فرقہ وارانہ تشددکا انتظار کر رہے ہیں اس پیج کو چلانے والے پر کارروائی کرنے کے لئے؟
Categories: خبریں