رجنی کانت کی روحانی سیاست والی بات دراصل بی جے پی کی سیاست کو ہی دکھاتی ہے۔ تمل ناڈو کے سیاسی مبصرین یہ بھی ماننا ہے کہ رجنی کے سیاست میں شامل ہونے کے تار بی جے پی سے جڑے ہوئے ہیں۔
تمل سینما کے سپراسٹار رجنی کانت کے لئے کیا کریں، کیا نا کریں والی حالت تھی۔ 31 دسمبر، 2017 کو اس سسپینس پر سے آخرکار پردہ اٹھ گیا۔ اتوار کی صبح، چنئی میں اپنے ایک میرج ہال میں جمع بھاری بھیڑ کو خطاب کرتے ہوئے رجنی کانت نے رسمی طور پر سیاست میں اترنے کا اعلان کر دیا۔
انہوں نے کہا، ‘ سیاسی تبدیلی وقت کی ضرورت ہے۔ یہ نظام تبدیلی چاہتا ہے۔ ہمیں ایک ایسی سیاست درکار ہے، جو سچی، ایماندار اور صاف ستھری ہو۔ ہمیں ایسی سیاست کی ضرورت ہے، جو ذات اور مذہب کے اثرات سے آزاد ہو۔ ہمیں ‘ روحانی سیاست ‘ کی ضرورت ہے۔ یہی میرا مقصد ہے اور یہی میری خواہش ہے۔ ‘
آگے رجنی کانت نے جوڑا، ‘ ریاست کی سیاست کا زوال ہوا ہے۔ جمہوریت کافی تار تار ہوئی ہے۔ تمل ناڈو کے گزشتہ سال کے سیاسی واقعات نے لوگوں کے سر کو شرم سے جھکا دیا ہے۔ دوسری ریاستوں کے لوگ ہم پر ہنس رہے ہیں۔ اگر میں اس حالت کو بدلنے کے لئے جمہوری طریقے سے کچھ نہ کروں تو ایک احساس جرم مرنے تک میرا پیچھا کرےگا۔ ‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وقت نے ان کو سیاست میں آنے پر مجبور کر دیا ہے۔
تمل ناڈو کی سیاست میں ہوئے زوال کے بارے میں بات کرتے ہوئے رجنی کانت کا اشارہ دسمبر، 2016 میں سابق وزیراعلیٰ جے۔ جئے للتا کی موت کے بعد ریاست میں ہوئے واقعات کی طرف تھا۔دراصل، رجنی کانت کاسیاست میں داخلہ، سیاسی انتشار سے بھرے سال 2017 کو ایک ڈرامائی انجامدیتا ہے۔اس کے بعد رجنی کانت نے بھگوت گیتا کا وہ شلوک پڑھا، جس میں بھگوان شری کرشن نے ارجن کو کام کرنے اور پھل کی فکر نہ کرنے کی صلاح دی ہے۔
رجنی کانت کی کہانی
آخر رجنی کانت کون ہیں اور کیا وجہ ہے کہ تمل ناڈو کے شہری سماج کے تمام طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ان کو اتنا پسند کرتے ہیں؟عام طور پر ایسا مانا جاتا ہے کہ وہ کرناٹک کے رہنے والے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہےکہ 67 سالہ رجنی کانت، جن کا اصل نام شیواجی راؤ گایکواڑ تھا، اصل میں مراٹھی کمیونٹی کے گایکواڑ ذبرادریسے تعلق رکھتے ہیں۔12 دسمبر، 1950 کو کرشن گری ضلع کے ناچی کپّم گاؤں میں پیدا ہوئے رجنی کانت کے والد بینگلورو پولیس میں کانسٹیبل تھے۔ کرشن گری ضلع، کرناٹک کی راجدھانی بینگلورو سے بالکل سٹا ہوا ہے۔
کافی کم عمر سے ہی اداکاری میں دلچسپی رکھنے والے رجنی کانت پہلے (1973 میں) بینگلورو ٹرانسپورٹ سروس میں بطور بس کنڈکٹر کام کرتے تھے۔ انہوں نے مدراس فلم انسٹی ٹیوٹ میں ایکٹنگ میں ڈپلوما کی پڑھائی کے لئے داخلہ لینے سے پہلے کئی ڈراموں میں کام کیا۔ان کو فلم میں پہلی بار اداکاری کرنے کا موقع مرحوم فلم ہدایت کار کے۔ بالچندرن نے دیا۔ 1975 میں ارنگیترم کی ریلیز کے ساتھ ایک اسٹار کا جنم ہوا۔ آج 42 سال کے بعد انہوں نے 200 سے زیادہ فلموں میں کام کیا ہے-160تمل اور 28 ہندی فلموں میں۔ اس کے ساتھ ہی بنگالی، ملیالم اور انگریزی کی بھی ایک ایک فلم میں وہ نظر آئے ہیں۔
ان کے سیاست میں اترنے کو لےکر پہلی بار گفتگو 1995 میں ہوئی، جب جئے للتا کی قیادت والی انّادرمک (اے ائی اے ڈی ایم کے) حکومت میں تھی۔ دقت اس وقت پیدا ہونے لگی، جب ایک میٹنگ میں رجنی کانت کے یہ کہنے پر کہ اگر جئے للتا اگلا انتخاب جیت گئیں، تو بھگوان بھی تمل ناڈو کو نہیں بچا سکتا، جئے للتا نے انّادرمک کے ایک سینئر رہنما اور ایک بڑی فلم پروڈیوسر آر ایم ویرپّن کو کابینہ سے ہٹا دیا۔جئے للتا کی حکومت پر بد عنوانی میں ملوث ہونے کے الزامات کے دوران لوگوں نے ان کے اس بیان کا استقبال کیا۔اس کے بعد اسمبلی انتخاب اور 1996 کےپارلیامانی انتخاب کے دوران تمل ناڈو کانگریس میں دراڑ پڑ گئی۔ کانگریس کے جئے للتا کے ساتھ اتحاد کرنے کے فیصلے کے بعد پارٹی کے سینئر رہنما جیکے موپنار پارٹی سے الگ ہو گئے۔
موپنار نے اپنی الگ پارٹی-تمل منیلا کانگریس (ٹی ایم سی) کی تشکیل کی اور درمک (ڈی ایم کے) کے ساتھ اتحاد کیا۔ انتخابات میں اس اتحاد کی بھاری جیت ہوئی۔ جئے للتا کو ہار کا منھ دیکھنا پڑا اور 234 رکنی اسمبلی میں انّادرمک کو صرف 4 سیٹیں ہی ملیں۔درمک-ٹی ایم سی اتحاد کے لئے ووٹ کرنے کی اپیل کرنے والے رجنی کانت انتخابات کے دوران امریکہ میں تھے اور انتخابات کے نتیجےکے اعلان ہونے کے بعد ہی واپس لوٹکر آئے۔
2004 کے پارلیامانی انتخاب کے دوران جئے للتا نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا، مگر اس بار بھی ان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ درمک-کانگریس-بائیں محاذ اتحاد نے پدوچیری سمیت تمام 40 سیٹوں پر جیت درج کی۔انتخاب کے دوران رجنی کانت نے اپنے مداحوں کو اٹل بہاری واجپئی کے لئے ووٹ کرنے کے لئے کہا تھا اور انّادرمک-بی جے پی اتحاد کو ووٹ دینے کی بات عوامی طور پر کی تھی۔
اس شکست کے بعد سے رجنی کانت اپنے رد عمل میں کافی محتاط رہے ہیں۔ اس کے بعد ہوئے اسمبلی انتخابات-2006، 2011، 2016-میں رجنی کانت نے اپنے مداحوں کو کہا کہ وہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کر رہے ہیں۔لیکن، 5 دسمبر، 2016 کو چنئی کے ہسپتال میں جئے للتا کی موت کے بعد، رجنی کانت کی سیاست میں آنے کو لےکر قیاس آرائی پھر سے تیز ہونے لگیں۔
ڈر اور تعصب
ایسے میں جب سپراسٹار رجنی کانت سیاست میں داخل ہونے کے اپنے پلان کو پھر سے پرواز دے رہے ہیں تب ریاست کی اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ ان کے بیانات کو لےکر تھوڑے تذبذب اور پریشان ہیں۔تمل ناڈو کی ایک متاثر کن مسلم سیاسی پارٹی منیتھا نیا مکّل کتچی کے صدر ایم ایچ جواہراللہ کا کہنا ہے، ‘ رجنی کانت کا بیان، خاص کر ‘ روحانی سیاست ‘ والی بات کا کوئی معنی نہیں ہے اور یہ دراصل بی جے پی کی سیاست کو ہی دکھاتی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ان کی قربت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ 2014 میں جب مودی انتخابی تشہیر کے لئے چنئیآئے تھے، تب وہ رجنی کانت کے گھر گئے تھے۔ اس لئے جب سپراسٹار ‘ روحانی سیاست ‘ کی بات کرتے ہیں، تب اس سے پیدا ہونے والے ڈر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ‘
لیکن ریاست کی بی جے پی نے اس خوف اور ڈرکو سیدھے طور پر خارج کیا ہے۔ بی جے پی کا ریاستی ٹریجرار ایس آر شیکھر نے کہا، ‘ یہ ڈر نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں کا تعصب ہے۔ روحانیت اور سیکولرزم سناتن عہد سے ہندو مذہب کی بنیادی اور مرکزی صفت ہے۔ یہ رجنی کانت کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ ‘
ریاست کے منجھے ہوئے سیاسی نگراں کا کافی حد تک یہ ماننا ہے کہ رجنی کانت کی سیاست میں شامل ہونے کے فیصلے کے تار بی جے پی سے جڑے ہوئے ہیں۔ سینئر صحافی گیانی شنکرن نے کہا، ‘ ابھی تک رجنی کانت کے بیان واضح نہیں ہیں۔ جب تک وہ اپنی سیاسی جماعت شروع نہیں کرتے اور اپنا منشور جاری نہیں کرتے، میں صحیح سے کوئی رد عمل نہیں دے سکتا۔ ابھی تک رجنی کانت کا فیصلہ ایک بن رہی فلم سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک بار جب فلم ریلیز ہوگی، اس کے بعد ہی میں اس پر کوئی رائے ظاہر کر سکتا ہوں۔ ‘
انہوں نے آگے کہا، ‘ رجنی کانت روحانیت اور سیاست میں خلط ملط کر رہے ہیں۔ جب کچھ صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ آخر ‘ روحانی سیاست ‘ سے ان کا مطلب کیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ یہ مذہب اور انصاف کا ہونا ہے۔ مذہب اور انصاف کی حفاظت کے لئے آپ کو سیاسی جماعت شروع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘ روحانی سیاست ‘ کی ان کی وضاحت بنیادی طور پر غلط ہے، کیونکہ اصل میں اس کا معنی صرف اخلاقی سیاست کے طور پر نکلتا ہے۔ لیکن، وہ سارے مدعوں کی اہمیت کو کم کر رہے ہیں۔ جب ایک ٹی وی نامہ نگار نے ان سے پوچھا کہ ان کی سیاسی پارٹی کن پالیسیوں کو اپنائےگی، تو رجنی کانت نے اس پر ہنستے ہوئے کہا کہ اس سوال نے ان کو ہلا دیا ہے۔ ابھی تک جو حالت ہے، اور جتنے اشارے دستیاب ہیں، اس کی بنیاد پر میں یہ کہا سکتا ہوں کہ رجنی کانت بی جے پی کے سیاسی ایڈیشن کی طرف جھک رہے ہیں۔ ‘
رجنی کانت نے ایک اور اہم سیاسی اعلان بھی کیا : ان کی پارٹی مارچ میں ممکنہ مقامی بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہیں لےگی، کیونکہ اس کے لئے تیاری کرنے کے لئے کافی کم وقت بچا ہے۔انہوں نے کہا، ‘ اسمبلی انتخاب سے کچھ مہینے پہلے میں ایک سیاسی جماعت شروع کروںگا اور اپنی پالیسیاں واضح کروںگا۔ میری سیاسی پارٹی کسی طرح کے دھرنا اور مظاہرہ میں شامل نہیں ہوگی۔ یہ کرنے کے لئے کئی سیاسی پارٹیاں پہلے سے ہی موجود ہیں۔ ‘سلیم ضلع کے کانگریس کے ایک کارکن ایس۔ کنّن پوچھتے ہیں، ‘ کوئی سیاسی پارٹی دھرنے-مظاہرے کے بغیر زندہ کیسے رہ سکتی ہے؟ کوئی سیاسی پارٹی مقامی بلدیاتی انتخابات سے دور کیسے رہ سکتی ہے؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی۔ آخر رجنی کانت کس مقصد سے سیاسی پارٹی شروع کر رہے ہیں؟ ‘
صحیح فارمولا؟
رجنی کانت کے راستے میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ پہلی رکاوٹ پیسے کی ہے۔ تمل ناڈو نقد کے بدلے ووٹ کی بیماری کے لئے بدنام ہے۔ حقیقت میں، جیسا کہ ایک سابق کانگریس ایم ایل اے، جو اب انّادرمک میں ہیں، نے اس نامہ نگار کو بتایا، تمل ناڈو میں ایک اسمبلی سیٹ سے انتخاب لڑنے کے لئے 10 کروڑ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی بات ایک سینئر درمک ایم ایل اے نے بھی دوہرائی۔
‘تھیرومنگلم فارمولا ‘، لفظ آج کئی ڈکشنری میں جگہ بنا چکا ہے۔ اس کا معنی رائےدہندگان کو بڑی مقدار میں رشوت دینے سے ہے۔ یہ اصطلاح درمک کے صدر ایم۔ کروناندھی کے بیٹے ایم کے اجھاگری کے 2009 کے مدورئی ضلع کے تھیرومنگلم ضمنی انتخاب میں جیت حاصل کرنے کے بعد عام ہوئی۔ الزام لگا کہ اس انتخاب میں جم کر ‘ نقد کے بدلے ووٹ ‘ کا کھیل چلا ہے۔لیکن رائےدہندگان کو رشوتدینے کے چلن کا آغاز 2003 سے مانا جا سکتا ہے، جب جئے للتا کی ریاست پر حکومت تھی۔ اس کے بعد سے چاہے اسمبلی انتخاب ہو یا پارلیامانی انتخاب ہو، ایک طرح سے یہ جائز عمل بن گیا ہے۔
حقیقت میں، 2006 سے 2011 کے درمیان، جب ڈی ایم کے کی تمل ناڈو پر حکومت تھی، تب اس نے تمام 11 ضمنی انتخاب میں اس حکمت عملی کا استعمال کرکے جیت حاصل کی تھی۔ جنوری، 2009 میں مدورئی کے قریب تھیرومنگلم ضمنی انتخاب سے پہلے، ڈی ایم کے کو ووٹ دینے کے لئے ووٹروں کو فی ووٹر 2000 روپے دئے گئے۔بعد میں جئے للتا کے انّادرمک نے اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے 2011 سے 2016 کے درمیان ہوئے تمام 10 ضمنی انتخاب میں جیت درج کی۔حالانکہ ہندوستان کے الیکشن کمیشن کو اس بات کی جانکاری تھی، مگر وہ حالت کو قابو میں کرنے کے لئے زیادہ کچھ نہیں کر پایا۔ اس بارے میں کئی چیف الیکشن کمشنروں نے کھل کر بات کی ہے اور بتایا ہے کہ ان کو کس طرح سے اس روایت کا سامنا کرنا پڑا۔
جنوری، 2011 میں چنئی میں ایک عوامی جلسہ میں سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے کہا تھا، ‘ ہندوستانی ریاست کی طاقت نے رائے دہندگی کو چیلنج دینے والے مسلح گروپوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرس کو کچل دیا ہے۔ امیدواروں کو موت کے گھاٹ اتار دینا، رائے دہندگی مراکز پر بمباری کرنا، رائےدہندگان کا قتل کر دینا، یہ سب ماضی کی باتیں ہو گئی ہیں۔ آج انتخابی کمیشن کشمیر سے کنیاکماری تک کہیں بھی پرامن طریقے سے انتخاب مکمل کرا سکتا ہے۔ لیکن، تمل ناڈو میں جو ہو رہا ہے، وہ سر کو چکراکر رکھ دینے والا ہے۔ ہم ایک طرح سے ووٹروں کورشوت دئے جانے سے روکنے کے لئے جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیکن، سیاسی پارٹیوں کے ذریعے انتخابی کمیشن کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کھیل جاری ہے۔ وہ لگاتار کافی چالاکی سے اپنی حکمت عملی بدلکر رائےدہندگان کو رشوت دینے کا راستہ نکال لے رہے ہیں۔’
تمل ناڈو کے حصے میں اس وقت کافی بدنامی آئی، جب انتخابی کمیشن نے 2016 کے اسمبلی انتخابات کے دوران دو اسمبلیوں کے انتخابات کو منسوخ کر دیا۔ اپنے بیان میں انتخابی کمیشن نے کہا تھا، ‘ پیسے کے استعمال کی وجہ سے اراواکوریچی اور تنجابور اسمبلی علاقوں کا ماحول ‘ کافی زیادہ بگڑ ‘ گیا ہے۔ اپریل، 2017 میں ایسا ایک بار پھر ہوا، جب انتخابی کمیشن نے چنئی میں آرکے نگر ضمنی انتخاب کو منسوخ کر دیا۔ یہ سیٹ جئے للتا کی موت کے بعد خالی ہوئی تھی۔
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے کو آمدنی محصول محکمہ کی تفصیلی رپورٹ کی بنیاد پر جائز ٹھہرایا، جس میں کہا گیا تھا کہ اس کو وزیر صحت کی چنئی رہائش گاہ پر چھاپے کے دوران ایسے ثبوت ملے، جس سے پتا چلتا ہے کہ آرکے نگر اسمبلی حلقہ میں رائےدہندگان کو رشوت دینے کے لئے انّادرمک نے 89 کروڑ روپے خرچ کئے تھے۔
ضمنی انتخاب کو منسوخ کرنے والے سرکاری حکم میں انتخابی کمیشن نے آمدنی محصول محکمہ کی رپورٹ کو پوری طرح سے دوبارہپیش کر دیا۔ اب اگر کوئی نقد کے بدلے ووٹ کی بیماری کو رجنی کانت فیکٹر کے برعکس رکھکر دیکھے تو یہ صاف نظر آئےگا کہ پیسے کا رول کافی اہم ہوگا۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایک سیاسی پارٹی کو چلانے کے لئے رجنی کانت پیسے کا انتظام کہاں سے کریںگے؟
سیاست اور انٹلی جنس، دونوں کے ہی جانکار لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ رجنی کانت کو یہ باتیں معلوم نہیں ہیں۔ سینٹرل انٹلی جنس بیورو میں کام کر رہے ایک سینئر افسر کا کہنا ہے، ‘ رجنی کانت کوئی نوسکھیا نہیں ہیں۔ ان کو سب معلوم ہے۔ پیسہ ہندوستان کے ایک بڑے رہنما کی قیادت والی ایک ایک بڑی سیاسی جماعت سے آسکتا ہے۔ ‘
تمل راشٹروادی تنظیم، نامی تملار کتچی کے رہنما سیمن کا کہنا ہے، ‘ رجنی کانت کا اصل مقام ایک اور مسئلہ ہے۔ ‘ ان کے پاس یہاں کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس مٹی کی اولاد تخلیقی منصوبہ بندی کے تحت یہاں کام کر رہے ہیں۔ رجنی کانت 10 اور فلموں میں کام کریں، اس میں کوئی دقت نہیں ہے۔ لیکن، ان کے وزیراعلیٰبننے اور ہم پر حکومت کرنے میں دقت ہے۔ ‘
تمل ناڈو کا انوکھاپن
تمل ناڈو ہندوستان کی ایک انوکھی ریاست ہے۔ پچھلے تقریبا 50 سالوں سے تمل ناڈو کی حکومت تمل سینما صنعت سے جڑے لوگوں کے ہاتھوں میں رہی ہے۔ جب ڈی ایم کے 1967 میں اقتدار میں آئی، سی این انّادورائی یا انّا 1969 عیسوی میں اپنی موت تک وزیراعلیٰ رہے۔ان کی جگہ ایم۔ کروناندھی نے لی۔ تب سے لےکر، 5 دسمبر، 2016 تک، یعنی جئے للتا کی موت تک، صرف تین لوگ، کروناندھی، ایم جی رام چندرن (ایم جی آر) اور جئے للتا نے ہی ریاست پر حکومت کی۔
یہ اپنے آپ میں انوکھا ہے۔ ہندوستان کی کوئی بھی ریاست ایسی نہیں ہے، جہاں 48 سالوں میں صرف تین لوگوں اور وہ بھی سینما کے پس منظر والے رہنماؤں کی حکومت رہی ہو۔ انّا اور کروناندھی اسکرپٹ اور گانے لکھا کرتے تھے، جبکہ ایم جی آر اور جئے للتا نے سینکڑوں فلموں میں اداکاری کی۔لیکن اوپر جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں اور رجنی کانت میں کافی فرق ہے۔ ان سب کے پاس وزیراعلیٰ بننے سے پہلے سیاست کا کئی سالوں کا تجربہ تھا۔ ایم جی آر، 1977 میں وزیراعلیٰ بننے سے پہلے 1957 سے ہی فعال سیاست میں تھے۔ وہ 1972 میں کروناندھی کی قیادت والی ڈی ایم کے سے الگ ہوئے تھے۔
جئے للتا، 1982 میں فعال سیاست میں آئیں اور 1984 میں راجیہ سبھا کی ممبر بنیں، اور 1991 میں وزیراعلیٰ بنیں۔لیکن رجنی کانت کے پاس ایسا کوئی سیاسی تجربہ نہیں ہے۔ ایسے میں سوال ہے کہ کیا ان کی ‘ روحانی سیاست ‘ کی دال واقعی وہاں گل سکتی ہے؟
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور چنئی میں رہتے ہیں۔)