گزشتہ ہفتہ ترکی کی فوجی کاروائی، مسئلہ فلسطین، اور داووس میں ورلڈ اکنامک فورم میں ہونے والے مباحثوں کوخلیجی اور مشرق وسطی کے اخبارات میں کوریج ملی۔
گزشتہ ہفتہ ترکی کی فوجی کاروائی، مسئلہ فلسطین، اور داووس میں ورلڈ اکنامک فورم میں ہونے والے مباحثوں کوخلیجی اور مشرق وسطی کے اخبارات میں کوریج ملی۔شروعات کرتے ہیں شام سے جہاں پر شامی حکومت اور شامی عوام کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی ساتویں سال میں داخل ہوگئی ہے۔“الحیاۃ” کے کالم نگار جہاد الخازن “شام ایک مصیبت سے دوسری بڑی مصیبت میں ” 23 جنوری 2018 کے اپنے کالم میں لکھتے ہیں،کیا کوئی ایسی آفت ہے جو 2011 سے شامی قوم پر نہ ٹوٹ پڑی ہے، شام کو بھی میں اپنا ملک مانتا ہوں جیسا کہ لبنان، فلسطین، اردن، مصر اور ہر عرب ملک کو۔ ہرروز قتل وغارت گری کی خبریں پڑھتا ہوں اور مایوس ہوجاتا ہوں۔ میرے ساتھ ساتھ آپ بھی پڑھیے: ڈونالڈ ٹرمپ نےافغانستان اور عراق کے بعد شام میں جنگ کا فیصلہ کیا، ان کے وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے پریس سے کہا کہ شام میں امریکی فوج موجود رہے گی، تاکہ داعش دوبارہ واپس نہ آسکے۔ ایک سال پہلےشام میں 500 امریکی فوجی تھے جو اب بڑھ کر دو ہزار تک پہنچ چکے ہیں۔
یہ بات بھی درست ہے کہ ٹرمپ تن تنہا شام میں جنگ کا خاتمہ نہیں کرسکتے ہیں، کیونکہ اس جنگ میں دوسرے کھلاڑی بھی ہیں، روس اور ایران ان میں سے اہم ہیں۔ روس اور امریکہ کے درمیان فوجی اڈہ (Military Base) بنانے کا مقابلہ چل رہا ہے۔ شمالی شام میں رقہ (Raqqa) کے نزدیک طبقہ (Tabqa) میں امریکہ کا ایک فوجی اڈہ ہے اور دوسرا طنف میں ہے، روس کا ایک بحریہ بیس (naval base) طرطوس میں ہے اور دوسربڑا ایئر بیس حمیمیم میں ہے۔ پھر ایک تیسرے ملک ترکی کی انٹری ہوئی ہے جس میں ترک افواج نے توپوں کے ذریعہ کرد فورس پر حملہ کیا ۔ ترک صدر رجب طیب اردوگان نے واضح الفاظ میں کہا کہ وہ کردوں کے علاقوں میں حملے کرکے کرد علاقوں کی کسی طرح کی خود مختاری پر روک لگائیں گے۔ ترکی صدر نے امریکہ کے 30 ہزار کردوں پر مشتمل ملٹری فورس بنانے کے فیصلہ کوبھی چیلنج کیا ہے۔
شام میں ترکی کی فوجی کاروائی اور اس پر امریکی، شامی اور دیگر ممالک کے رد عمل پر بہت سے خبریں شائع ہوئی اور کئی کالم نگاروں نے کالم لکھے اور مختلف زاویوں اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی۔ اس میں سےالشرق الاوسط میں شائع ہونے والی یہ خبر بھی ہے کہ ترک صدر اردوگان نے امریکہ کےضبط نفس والے باربار آنے والے بیانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے شمالی شام میں وسیع پیمانہ پر فوجی مداخلت کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس اعلان کی ذریعہ انہوں نے خاص طور پر امریکہ کو چیلنج بھی کیا ہے۔ غصن الزیتون نامی یہ آپریشن 27 جنوری 2018 کو ساتویں دن میں داخل ہوچکا ہے اور ساتویں دن اردوگان کے اس اعلان نے امریکیوں کی تشویش میں اضافہ کردیا ہے کہ وہ امریکی فورسز کے مرکز منبج شہر تک اپنی فورسز کو بھیجیں گے اور اس کے بعد مشرقی نہر فرات ہوتے ہوئے عراقی سرحدوں تک ترک فورسز جائیں گی۔
دوسری خبر جسے الشرق الاوسط اور دوسرے اخباروں نے 26 جنوری 2018 کے دن نمایاں طور پر شائع کیا اس کا تعلق شامی صدر کے اختیارات میں کمی کےلیے مغربی اور علاقائی دستاویز کی تیاری سے ہے، اخبار لکھتا ہے۔مغربی سفارتی ذرائع نے اخبار الشرق الاوسط سےبات کرتے ہوئے کل کہا کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن مغربی و علاقائی ممالک کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ ایک مشترکہ دستاویز بنانے کے لیے رابطے میں ہیں جس میں مستقبل میں شام کے سیاسی حل کے لئےکا ایک خاکہ پیش کیا گیا ہے اوریہ خاکہ ملکی صدر کے اختیارات میں کمی لانے پر بھی شامل ہے۔
اس دستاویز نے بین الاقوامی مندوب اسٹیفن دی میسٹورا کے سامنے یہ تجویز بھی رکھی کہ وہ شا م کے حکومتی اور اپوزیشن پارٹیوں کے نمائندوں کے درمیان دستور میں اصلاح ، الیکشن میں بین الاقوامی مشاہدین اور محفوظ اور غیر جانبدار ماحول پیدا کرنے کے معیار طے کرنے کےلیے نتیجہ خیز بات چیت کے لیے دباؤ بنائیں، تاکہ بلاخوف و خطر انتخابی مہم پورے ہوسکیں۔
دوسری طرف سوئٹزرلینڈ کے شہر داووس میں منعقد ورلڈ اکنامک فورم میں ہونے والے مباحثوں کوخلیجی اور مشرق وسطی کے اخبارات میں خاصی کوریج ملی، عالمی شہرت یافتہ الجزیرہ ڈاٹ نیٹ لکھتا ہے ، ڈاووس عالمی اقتصادی فورم کی سرگرمیاں شروع ہوگئی جس میں 70 کے قریب سربراہان مملکت ، 340 وزرا ء اور 3500 کاروبار سے وابستہ افراد شرکت کررہے ہیں، ابتدائی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے ہندوستانی وزیر اعظم نریندرنے مودی گلوبلائزیشن کا دفاع کیا اور ساتھ ہی یہ اقرار بھی کیا کہ گلوبلائزیشن اپنی چمک کھورہا ہے لیکن اس کے باوجود بند تجارتی سرگرمیاں اس کا حل نہیں ہے اس لیے ہندوستان غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے دروازے کھول دنیا کے سامنے نمونہ پیش کرےگا۔ پوری دنیا کی نگاہیں 26 جنوری 2018 کو ہونے والے صدر ٹرمپ کے خطاب پر لگی ہوئی تھی لیکن ڈاووس میں ٹرمپ نے مفاہمتی تقریر سے پوری دنیا کو حیران کردیا۔
ان خبروں کے علاوہ مسئلہ فلسطین بھی اخباروں میں مختلف اعتباروں سے چھایا رہا ، درجنوں مضامیں اور خبریں فسلطین سے متعلق چھپی ۔ الشرق الاوسط میں عبد المنعم سعید کا یہ کالم بھی اسی میں سے ایک ہے۔
القدس ایک بار پھر عربوں کی دلچسپی کا محور بن کر سامنےآیا ہے ایسا لگ رہا کہ مسئلہ فلسطین ایک گہری نیند کے بعد جاگ رہا ہے، القدس کے حق میں اور اسرائلی اور امریکہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے نکلے، ناپسندیدگی والے بیانات شائع ہوئے اور ہر ایک عرب حاکم نے اپنے اپنے انداز میں بیان دیا ، اورمسئلہ فلسطین کے ایک بار پھر سے سرخی میں آنے میں کوئی تعجب نہیں ہے کیوں کہ القدس کا عربوں کے نزدیک ایک اہم مقام ومرتبہ ہے ، خواہ وہ عیسائی ہو یا مسلم۔تو آخر ان سالوں میں فلسطین کے عربوں کے ذہن و دماغ سے غائب ہونے پر سوالات ہوسکتے ہیں کہ کیاعربوں کو القدس کے اسرائیلی قبضہ کا احساس صدرٹرمپ کے القدس میں امریکی سفارت خانہ کے منتقلی کے اعلان کے بعد ہوا، حالیہ ناراضگی امریکہ اور اسرائیل پر ہے یا اس وجہ سے بھی ہے کہ خطے کےحالات بدل چکے ہیں اور یہ پورا خطہ پچھلے چند سالوں سے خون میں کے حمام میں تبدیل ہوچکا ہے۔
الازہر فاؤنڈیشن القدس سے متعلق ایک سیمنار میں اعلان کیا کہ القدس کو ایک مضمون کی حیثیت سے نصاب میں داخل کیا جائے گا تاکہ آنے والی نسلوں کو مسئلہ فلسطین اور اور القدس کا صحیح ادراک رہے۔
Categories: عالمی خبریں