خبریں

فلمی ستاروں سے  منسوب بیانات، روہت سردانا کی کاس گنج رپورٹ اور کیرل پولیس کی اسلامی وردی کا سچ

گزشتہ  ہفتے جو فیک نیوز سوشل میڈیا میں عام ہوئیں ان میں سے اکثر خبروں میں ایک بات غور طلب ہے کہ ان جعلی خبروں  میں فلمی ستاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ پرکاش راج، سورا بھاسکر اور فرحان اختر کو نشانہ بناتے ہوئے کچھ باتوں کو ان سے منسوب کر دیا گیا جو ان لوگوں نے کہی بھی نہیں تھی۔ ان فنکاروں کو نشانہ بنانے کے پیچھے بھگوا فکر کا ایک ہی مقصد نظر آتا ہے کہ ہندوستان میں آزاد فکر اور پروگریسو خیالات کو پریشان کیا جائے!

FN_PrakashRaj

پرکاش راج بالی ووڈ اور شمالی ہند کی فلم انڈسٹری میں سینئر فنکار ہیں اور گوری لنکیش کے قتل کے بعد اکثر موجودہ حکومت اور بھگوا افکار کی کھلے عام تنقید کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بھگوا افراد کی آنکھ کی کرکری بنے ہوئے ہیں اور اکثر نشانے پر رہتے ہیں۔ اس بار ایک تصویر کو ہندی اور انگریزی  زبانوں میں عام کیا گیا جس میں پرکاش راج کو منسوب کرکے لکھا تھا کہ پرکاش راج کہتے ہیں:

پاکستان، بنگلہ دیش، کشمیر سے ہندوؤں کا نام و نشان مٹ گیا۔ لیکن انہوں نے مسلمانوں سے انتقام کی بات نہیں کی۔ انہوں نے خاموشی سے موت کو گلے لگا لیا۔ ہندوؤں کو چاہئے کہ وہ کشمیری پنڈتوں سے برداشت اور سیکولرزم کا سبق لیں۔

اس تصویر کو کافی لوگوں نے ٹوئٹ کیا اور فیس بک پر  بھی اپلوڈ کیا۔ لیکن پرکاش راج نے اسکے رد عمل میں اپنے ٹوئٹر پر لکھا:

میرے خیالات پر مجھ سے بحث نہ کرکے آپ ایسی تصویر سے جھوٹ پھیلا کر یہ ثابت کررہے ہیں کہ آپ کتنا نیچے گر گئے ہیں۔

تقریباً ایسا ہی معاملہ فنکارہ سورا بھاسکر کے ساتھ پیش آیا۔ شنکھ ناد نامی ویب پورٹل جو ہمیشہ اپنی حرکتوں کو لیکر کافی بدنام ہے، اس نے ایک قول کو سورا بھاسکر سے منسوب کیا تھا۔ جو تصویر شنکھ ناد نے اپنے ٹوئٹر پر شیئر کی تھی، اس میں انگریزی زبان میں لکھا تھا کہ سورا بھاسکر کہتی ہیں:

کسی بیرونی حاکم کے ہاتھوں جنسی تشدد کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ میں جوہر یعنی خود کشی کر لوں !

FN_SwaraBhaskar

سورابھاسکر نے دی وائر پر فلم پدماوت کے ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی کے نام ایک کھلا خط لکھا تھا جس میں انہوں نے اس بات کی مذمت کی تھی کہ فلم میں ستی اور جوہر کو دکھانا،  خواتین کے جینے کے حق کی پامالی کرتا ہے۔ سوراکے خلاف کافی لوگوں نے ٹوئٹ کیے جن میں مہیش ہیگڈے، وویک اگنی ہوتری اور شیفالی ویدے  بھی شامل ہیں۔ مہیش ہیگڈے فیک نیوز پورٹل پوسٹ کارڈ نیوز کے بانی ہیں اور پرائم منسٹر نریندر مودی انھیں خود فالو کرتے ہیں !

الٹ نیوز نے سورا سے رابطہ کیا جس کے بعد سورا نے بتایا کہ شنکھ ناد بلکل جھوٹ پھیلا رہا ہے ۔ سورا نے اپنے ٹوئٹ میں بھی شنکھ ناد سے مطالبہ کیا کہ وہ معافی مانگیں اور ٹوئٹ ڈیلیٹ کریں۔ اس کے بعد شنکھ ناد نے اپنا پہلا ٹوئٹ ڈیلیٹ کیا !

FN_FarhanAkhtar

فرحان اختر والے معاملے میں  بھی  بھگوا افراد نے یہی طریقہ اپنایا ! کاس گنج تشدد کے بعد سوشل میڈیا میں ایک فوٹو پوسٹ  سامنے آئی جس میں فرحان اختر کی تصویر  کے ساتھ ایک قول نقل کیا گیا تھا جو ان سے منسوب کر دیا گیا تھا :26 جنوری کے روز جمعہ کا دن تھا، اگر ہندو لوگ ترنگا یاترا مسلم علاقے سے نہ لے جاتے تو کوئی تشدد نہ ہوتا !

فرحان اختر نے ٹوئٹر انڈیا اور اپنے چاہنے والوں کے لئے لکھا کہ یہ جھوٹ ہے جو میری طرف منسوب کیا جا رہا ہے !

کاس گنج تشدد کے بعد ملک کے بڑے میڈیا اداروں نے اس پر اپنی رپورٹ پیش کی لیکن جو رپورٹ آج تک چینل پر سامنے آئی، وہ بہت دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ افسوس ناک بھی تھی ۔ دراصل آج تک پر کاس گنج تشدد کی دو  ویڈیو رپورٹ  ہوئیں ، ان میں سے  ایک رپورٹ روہت سردانا کی تھی اور دوسری رپورٹ آشوتوش مشرا کی ہے۔ آشوتوش کی رپورٹ ان باتوں  کو رد کرتی ہے جو روہت  سردانا نے اپنی رپورٹ میں کہی  تھیں ۔ ویڈیو دیکھئے:

جب بھگوا تنظیموں کا وطنیت کا جذبہ مسلمانوں اور پروگریسو لوگوں کے خلاف مورچہ کھولے ہوئے تھا تو  اسی وقت ایک اور تصویر سامنے آئی جس کا نشانہ بلا شبہ مسلمان ہی تھے۔ اس تصویر میں کچھ نوجوان لڑکے سبز یعنی ہرے رنگ کی پوشاک میں نظر آرہے ہیں۔ ان لڑکوں کے بارے میں یہ عام کیا گیا کہ یہ لوگ کیرل  پولیس کے سپاہی ہیں اور کیرل میں حری وردی پہن کر یوم جمہوریہ منا رہے ہیں۔

FN_Kerala

جبکہ اس تصویر کی حقیقت ، سوشل میڈیا ہوَش سلیر کے مطابق، یہ ہےکہ یہ نوجوان لڑکے انڈین یونین مسلم لیگ کے کارکن ہیں۔ یہ تنظیم دس سال پرانی ہے اور جس تقریب میں ان لوگوں نے حری پوشاک پہنی ہے وہ یوم جمہوریہ کی تقریب نہیں ہے !