اگلی چیز یہ ہونے والی ہے کہ آپ کو اپنے بال کٹانے کے لئے یا جلیبی خریدنے کے لئے بھی آدھار کارڈ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آدھار نمبرکے بغیر آپ کو سڑک پر گاڑی چلانے کی بھی اجازت نہ ملے۔
یہ سسٹم مجھے ایک جھگڑالو بوڑھے کے طور پر، یا سیدھے کہیں، تو ایک بےحد ادنٰی آدمی کے طور پر دِکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میں ایک بےحد ادنٰی شخص ہی ہوں۔ نہیں، تو کیا وجہ ہے کہ اس نظام کے ذریعے تھوپی جانے والی کسی بھی اور ہر چیز سے مجھے عدم اتفاق ہے، مگر میری بات سے کوئی بھی اتفاق نہیں رکھتا۔میرے ضدی پن کی ایک وجہ بنیادی اصولوں کو لےکر میرا بچا ہوا عقیدہ ہے، جس سے کچھ لوگوں کو نفرت ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی چیز تحریری شکل میں ہے، تو میں اس کو پڑھنا ضروری سمجھتا ہوں۔اگر کوئی قانون ہے، تو میں اس قانون کو لفظ بہ لفظ دیکھنا ضروری مانتا ہوں۔ اور اگر ان میں سے کچھ بھی نہیں ہے، تو میں گوگل گرو کی پناہ میں جاتا ہوں۔ ایسے میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ میرے دوستوں کے لئے میں ایک مسلسل تفریح کے ساتھ ہی مذاق کا موضوع بھی ہوں۔
ان دنوں میرے دوستوں کو میرے عجیب و غریب تجربات کو لےکر، میرے پرجوش مظاہرے خاص طور پر اچھے لگتے ہیں۔ وہ مجھے دبی زبان میں یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا میں کچھ بھی گڑبڑ نہیں ہے، بلکہ دراصل میں ہی عجیب ہوں۔ مگر کچھ بھی ہو، ان کی بات سے میں متّفق نہیں ہوں۔ مثال کے لئے بینک والے کے ساتھ میرے تصادم کو ہی لیجئے۔ وہ ہر حال میں میرے بینک کھاتے کو آدھار سے جڑوانے پر آمادہ تھے۔وہ میرا (آدھار) کارڈ دیکھنا چاہتے تھے۔ میں نے ان کو اطلاع دی کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ کارڈ پر ایک نمبر درج ہے، لیکن یہ شناختی کارڈ یا راشن کارڈ کی طرح کا کوئی کارڈ نہیں ہے۔ کارڈ پر ایک نمبر کے ہونے کے باوجود وہ کوئی کارڈ جیسی چیز نہیں ہے، یہ باریک بات ان کی بینکنگ سمجھ سے پوری طرح سے پرے تھی۔
‘ معاف کریں سر، لیکن آپ کو اپنے بینک کھاتے کو آدھار کارڈ سے جوڑنا ہی ہوگا۔ ہمارے پاس آرڈر آئے ہوئے ہیں۔ ان پر عمل کیا جانا ضروری ہے۔ ‘
میں نے جواب دیا، ‘ کیا پچھلی صدی کے ابتدائی حصے میں وسط یوروپ میں کچھ لوگوں نے احکام پر عمل کرنے کو لےکر یہی بات نہیں کہی تھی؟…آپ برائے مہربانی آدھار ایکٹ کو دیکھیے۔یہ سرکاری خدمات کو مطلوبہ لوگوں تک پہنچانے کی بات کرتا ہے، تاکہ کوئی نااہل آدمی ان کو نہ ڈکار جائے۔ یہ میرا پیسہ ہے میرا کھاتا ہے۔ میں کوئی سبسڈی یا فائدہ نہیں لے رہا ہوں، اور اگر بنا لاگ لپیٹکے کہوں، تو حقیقت یہ ہے کہ بدلے میں مجھے بےحد کم خدمات مل رہی ہیں۔ پھر کھاتے کو آدھار نمبر سے کیوں جوڑا جائے؟ ‘
لیکن وہ ہار ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ نہیں سر، اگر آپ اپنے کھاتے کو آدھار سے نہیں جوڑتے ہیں، تو میں آپ کے کھاتے کو چالو رہنے دینے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ ‘
کچھ دن بعد ہی میرا سامنا ایک فون والے سے ہوا۔ وہ بھی میرا آدھار کارڈ دیکھنا چاہتا تھا، جس سے میں نے انکار کر دیا۔ اس نے کافی پیار سے مجھے سمجھایا، جیسے میں کوئی ضدی بچّہ ہوں، ‘ دیکھیے، ایسا فون کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے ہے۔ ‘
اور ہمیشہ کی طرح اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے میں نے ‘ غلط استعمال ‘ کو تشریح کرنے کے لئے کہا۔ ‘ محترم کیا مجھے اس غلط استعمال کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟ ‘
‘ دیکھیے، فون کا استعمال دہشت گرد کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ ‘
‘ اچھا، مجھے یہ بات سمجھنے دیجئے ؛ اگر سم کارڈ کو آدھار سے جوڑ دیا جائےگا، تو کسی دہشت گرد کے ہاتھ لگنے پر وہ کام کرنا بند کر دےگا؟ ‘ ، میں نے بھولے پن کے ساتھ پوچھا۔
ظاہری طور پر اب اس ایگزیکٹوکا صبر جواب دے رہا تھا۔ اس نے کہا، ‘ نہیں، سر مذاق مت کیجئے اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی دہشت گرد فون کا استعمال کرتا ہے، تو ہم اس کی پہچان جان پائیںگے اور اس طرح سے اس کو پکڑا جا سکےگا۔ ‘
‘ لیکن مجھے آپ کی اس بات پر شک ہے۔ ‘ ایک شکی آدمی کی طرح میرا جواب آیا۔
اس پر اس فون کمپنی والے نے جھلّاکر کہا : ‘ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ ‘
تب میں نے گوگل گرو سے حاصل کئے گئے ساری معلومات کو اس پر جھاڑ دیا :
‘ دیکھیے، اگر دہشت گرد ایک خودکش حملہ آور ہو، تو اس کی لاش کو پکڑنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔ لیکن، ایک کم عقل دہشت گرد بھی کوئی چوری کیا ہوا فون یا پےفون کا استعمال کرےگا۔ یا پھر وہ سب سے قریبی چوراہے کے پان والے سے ایک کلون کیا ہوا سم کارڈ خریدےگا۔ اگر وہ تیزطرّار دہشت گرد ہوگا تو بےفکر رہیے وہ ٹمبک ٹو سے حاصل کئے گئے سم کارڈ کا استعمال کرےگا۔ اس کے علاوہ میری جانکاری کے مطابق آدھار کے انفارمیشن کو قانون نافذ کرانے والی ایجنسیوں کے ساتھ شیئرنہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں بایومیٹرکس کے سہارے کسی دہشت گرد کو پکڑنے کا سوال ہی کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ ‘
‘ نہیں، سر۔ مگر اصول تو اصول ہے۔ ‘
میں نے قریب قریب پرجوش ہوکر کہا، ‘ دیکھیے، دوست، سرکاری حکم، بھلےہی وہ کتنی ہی صفائی کے ساتھ کیوں نہ لکھے گئے ہوں، انہیں فطریدانشمندی کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا کرتے بھی ہیں، توبھی ان کو قانون کے مقصد اور اس کے جذبات کے خلاف نہیں جانا چاہیے۔ ‘
‘ ہاں سر، مگر، حکمراں تو حکمراں ہی ٹھہرے۔ ‘
‘ دیکھیے، یہ کسی دہشت گرد کو پکڑنے کے لئے لگائی گئی بہت ہی زیادہ مہنگی چوہے دانی ہے۔ اس پوری قواعد سے پڑنے والے مالیاتی بوجھ 72 دہشت گردحملوں کے نقصان سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ ‘
‘ سر، یہ کسی دوسرے آدمی کو آپ کے نام سے کنیکشن لینے سے بھی روکےگا۔ ‘
‘ اوہ! خدا کے لئے رہنے بھی دیجئے! اس میں کون سی بڑی بات ہے؟ کسی کو بھی میرے نام پر کنیکشن لے لینے دیجئے۔ کیا ایک ہی نام کے دو آدمی نہیں ہو سکتے ہیں؟ میں معافی چاہتا ہوں، لیکن کہیں کوئی بات ہے، جو پلےنہیں پڑ رہی! ‘
آخری بات، عادتاً بول دی گئی تھی۔ جھگڑالو آدمی کی عادت نہیں بدلتی۔ اب کوئی اس کو پسند کرے، نہ کرے۔
اس کے بعد مجھے ایک ٹرین ٹکٹ خریدنا تھا۔ یہاں بھی ایک عجیب و غریب واقعہ ہوا۔ ریلوے کلرک اس بات پر اڑ گیا کہ ہر آدمی اپنے آدھار نمبر لکھے اور ‘ اصل کارڈ ‘ بھی دکھائے۔ اس کو لےکر میں ایک بےکار کی بحث میں شامل ہو گیا۔ بےکار اس لئے کیونکہ وہ سننے کو تیار نہیں تھا۔
اس نے کہا، ‘ آپ چلاکیوں رہے ہیں؟ آپ کو سبسڈی کا فائدہ ملتا ہے ؛ آپ سینئر سٹیزن چھوٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ ‘
‘ ہاں۔ میں ایسا کرتا ہوں۔ لیکن، آدھار کی ضرورت مطلوبہ سبسڈی کے لئے ہے۔ سینئر سٹیزن کو دی جانے والی چھوٹ کسی خاص آدمی کے لیے مطلوب نہیں ہے۔ آپ کو طےشدہ عمر سے زیادہ کے ہر آدمی کو چھوٹ دینی ہوگی۔ ‘
لیکن، ریلوے کلرک کوئی بھی بات ماننے کو تیار نہیں تھا۔
اس نے کہا، ‘ لیکن قانون، قانون ہے۔ ‘ اسی بیچ مجھ سے پیچھے کھڑے بے پروا لوگوں کی جماعت ناراض ہونے لگی۔ وہ مجھ پر ناراض ہو رہے تھے، نہ کہ ریلوے کلرک پر۔
اور ہسپتال میں بھی میں کسی ڈاکٹر کو نہیں دکھا پایا۔ میں نے اعلان کر دیا کہ ‘ میرے پاس آدھار نمبر نہیں ہے۔ “
او پی ڈی کی پرچی دینے والے ملازم نے کہا، ‘ لیکن آپ کو یہ ضرور سے بنوا لینا چاہیے۔ یہ ضروری ہے۔ ‘
میں نے اس کو سمجھانا چاہا کہ ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک حق ہے۔ قانون کے مطابق ہر آدمی کے پاس طےشدہ عمل کی پیروی کرکے آدھار نمبر حاصل کرنے کا حق ہے۔میں نے اس کو ابھی ‘ حق ‘ اور فرض کے درمیان کا فرق بتانا شروع ہی کیا تھا کہ میرے پیچھے قطار میں کھڑے ناشائستہ لوگوں نے چلانا شروع کر دیا۔ پہلے تو مجھے یہ لگا کہ وہ او پی ڈی کلرک پر چلا رہے تھے، لیکن جلد ہی مجھے یہ معلوم پڑ گیا کہ وہ میرے ذریعے کام کاج میں رکاوٹ پیدا کرنے پر میرے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔
میری اگلی مڈبھیڑ تو اور بھی خراب تھی۔ محکمہ انکم ٹیکس کا وہ آدمی نہ صرف ضدی تھا، بلکہ وہ تو مجھے سیدھے دھمکی دے رہا تھا۔اس نے مجھے میرا آدھار کارڈ دکھانے کے لئے کہا۔ میں نے اس کو زور دےکر کہا کہ آدھار صرف ایک نمبر ہے، نہ کہ کوئی کارڈ اورانکم ٹیکس کے ذریعے مجھے پہلے ہی ایک پرماننٹ اکاؤنٹ نمبر (پین) دیا تھا، جو پچھلے کئی سالوں سے ٹھیک ٹھاک کام کر رہا ہے۔ میرے سارے لین دین پرانکم ٹیکس کی نگرانی پہلے سے ہی ہے۔ ایسے میں معاملے کو اور پیچیدہ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟
‘ لیکن سر ہمیں آپ کے پین کو آدھار کارڈ سے جوڑنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ‘
‘ آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ پین، جس کے بارے میں مجھے یہ کہا گیا تھا کہ یہ ایک پرماننٹ (مستقل) نمبر ہے، وہ اب پوری طرح سے بےکار ہو گیا ہے؟ ‘ ، میں نے سوال کیا۔
‘ سر، آدھار کارڈ سے آپ کے ٹیکس کی نگرانی کی جا سکےگی۔ ‘
‘ تو کیا آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ابتک آپ ایسا نہیں کر پا رہے تھے۔ ‘ میں نے ناسمجھ بنتے ہوئے پوچھا۔ ‘ مطلب میں ابھی تک بیوقوف کی طرح ٹیکس بھرتا رہا ہوں اور اب آپ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ پین میرے ٹیکس پر نگاہ رکھنے کے لئے قابل نہیں تھا؟ یعنی میرا کام ٹیکس بھرے بنا بھی آسانی سے چل سکتا تھا۔ ‘
‘ سر میں دوبارہ کہہ رہا ہوں، ہمیں ہدایات دی گئی ہیں، اور ان پر عمل کیا جانا ضروری ہے۔ ‘
‘ کیا آپ کو یہ نہیں لگتا کہ آپ بہت سارا پیسہ خرچ کرکے، بہت سارے لوگوں کو پریشانی میں ڈال رہے ہیں ان فائدوں کے لئے جو پوری طرح سے خیالی لگتے ہیں۔ ‘
حال ہی میں میرے ایک ایساہی عجیب تصادم تب ہوا، جب میں ایک حادثہ میں بال بال بچے اپنے ایک پڑوسی سے ملنے گیا۔ سی سی یو، ایچ ڈی یو، آئی سی یو، آئی ٹی یو اور ایسی ہی مہنگی جگہوں پر ایک ہفتہ گزارنے کے بعد وہ گھر آئے تھے۔ مجھے لگا تھا کہ میرا ہنستا ہوا چہرہ دیکھکر وہ کافی خوش ہوںگے، جو کہ وہ ہوئے بھی۔ لیکن، جس لمحہ انہوں نے مجھے دیکھا، وہ چلااٹھے۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ سی سی یو میں رہتے ہوئے ان کو ایک بےحد صاف صاف خواب آیا، جس میں یمراج آئے تھے۔ یمراج کی شکل بالکل مجھ سے ملتی تھی۔ یمراج ان کی روح کو لےکر جانے کے لئے آئے تھے، لیکن چونکہ ان کے پاس آدھار نمبر نہیں تھا، اس لئے یمراج نے ان کو اپنے ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا۔
اپنے ڈرائیونگ لائسنس کو نیا کرانے اور پاسپورٹ لینے میں میرے سارے دانت کھٹّے ہو گئے۔ دونوں کے لئے درخواست دیتے وقت مجھے رہائشی ثبوت کے طور پر آدھار کارڈ جمع کرانا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ نہ ہی ڈرائیونگ لائسنس، نہ ہی آدھار اور اب تو پاسپورٹ بھی میرے پتے کا صحیح ثبوت نہیں مانا جاتا ہے!
ایک سرکاری دفتر کے دروازے پر کھڑا ایک گھمنڈی دربان نہ صرف آدھار کارڈ کی تصدیق شدہ کاپی کی مانگکر رہا تھا، بلکہ اس نے یہ بھی کہا کہ صرف ‘ مقامی کارڈ ‘ والوں کو ہی اندر جانے دیا جائےگا۔
یہ یاد دلانا اب میری عادت میں شامل ہے کہ آدھار نمبر یا اس کی تصدیق کسی آدھار کارڈ والے کو اپنے آپ میں کوئی حق نہیں دےگا، نہ ہی یہ شہریت یا رہائش گاہ کا ہی کوئی ثبوت مانا جائےگا۔ ایسے میں اس کو پیسے کی بہت بڑی بربادی کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟
ساتھ ہی اپنی جھگڑالو عادت کی وجہ سے میں طرح طرح کے بیوقوف لوگوں کو یہ تعلیم دینے کی کوشش کرتا رہتا ہوں کہ آدھار قانون کو ایک منی ایکٹ کے طور پر منظور کیا گیا تھا اور اس سبب اس کا تعلق صرف ہندوستان کے جمع شدہ فنڈ سے متعلق چیزوں سے ہونا چاہیے۔ لیکن، کیا کوئی، نظام کے اندر میرے جیسے ادنٰی آدمی کی بات پر دھیان دیتا ہے؟ نہیں، وہ صرف حکمرانوں کے قوانین کو ہی دوہراتے رہتے ہیں!
یہی وجہ ہے کہ آپ کو اپنے آدھار نمبر کو ڈیمیٹ اکاؤنٹ سے، اپنے پرووڈینٹ فنڈ کھاتے سے جوڑنا پڑتا ہے۔ اس کو گھر خریدتے وقت دکھانا پڑتا ہے، کار خریدتے وقت دکھانا پڑتا ہے، لائف انشورنش پالیسی خریدتے وقت دکھانا پڑتا ہے۔ پوسٹ آفس میں بچت کے لئے دکھانا پڑتا ہے اور یہاں تک کہ اپنے بچّے کو پرائمری میں داخلہ دلاتے وقت بھی آپ کو اس کو دکھانا پڑتا ہے۔
اگلی چیز یہ ہونے والی ہے کہ آپ کو اپنے بال کٹانے کے لئے یا جلیبی خریدنے کے لئے بھی آدھار کارڈ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آدھار نمبرکے بغیر آپ کو سڑک پر گاڑی چلانے کی بھی اجازت نہیں ملے۔ ایک دن ایسا بھی آ سکتا ہے، جب سانس لینے کے لئے بھی آدھار نمبر کی ضرورت ہوگی!
میرے ایک دوست نے جو میرے سوال پوچھنے والی عادت کا مذاق بنانے والوں میں ہی شامل ہے، میرے سامنے یہ دلیل دی کہ آدھار ایک خوبصورت اوزار ہے جو اپنی فکر اور بناوٹ میں مستقبل کی طرف دیکھنے والا ہے۔اس کی اس بات پر میں خود کو یہ کہنے سے نہیں روک پایا، ‘ پھر آپ اس اسکیم کے ایڈمنسٹریشناور اس کو نافذ کرنے کے لئے عہد وسطی کےبابوؤں پر منحصر کیوں ہیں؟ کیا آپ نے یہ پرانی کہاوت نہیں سنی ہے کہ جس آدمی کے ہاتھ میں ہتھوڑا ہوتا ہے، اس کو پوری دنیا کیل کی طرح نظر آتی ہے؟ ‘
سسٹم کے اس معمولی آدمی کا ماننا ہے کہ آدھار اور آدھار کارڈ کی مانگ اکثر ان کے ذریعے کی جاتی ہے، جن کا ممکنہ طور پر اچھی حکومت یا سبسیڈیز کی موثر کار کردگی سے یا ہندوستان کے جمع شدہ فنڈ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔مانگ کرنے والوں کے پاس مہیّا کرائی گئی اطلاعات کو جانچنے کا بھی کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اس طرح سے ہر دو کوڑی کے نوکرشاہ نے آدھار میں لوگوں کو پریشان کرنے کا نیا ہتھیار ڈھونڈ لیا ہے۔ یہ بیہودہ ظالمانہ آدھار کے استعمال کے دائرے کو بڑھاتے جا رہے ہیں۔ ان کے پاس ایک ہتھوڑا ہے، اور ان کو اس کا کسی نہ کسی پر استعمال کرنا ہے۔
آدھار کو لےکر میرا سامنا کئی طرح کے احمقوں اور سنکیوں سے ہو چکا ہے۔ میرا سامنا بس اس طرح کی ستم ظریفی سے نہیں ہوا ہے جب لوگوں کو آدھار نمبر کے درخواست کے لئے بھی آدھار نمبر کی ضرورت ہوگی۔
(کے سی ورما Research and Analysis Wing کے سابق ہیڈ رہے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر