گراؤنڈ رپورٹ

بہار میں مودی کے جلسہ کے لئے دی تھی 35 ایکڑ فصل کی قربانی، کسانوں کو معاوضے میں چونی بھی نہیں ملی 

بہار کے مکامہ ٹال میں گزشتہ سال وزیر اعظم نریندر مودی کےعوامی اجلاس کے لئے انتظامیہ نے کسانوں سے زمین لی تھی، لیکن ساڑھے تین مہینے سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد بھی ان کو بطور معاوضہ کچھ نہیں ملا۔

Photo: PIB

Photo: PIB

گزشتہ سال 14 اکتوبر سے پہلے کسی دن مکامہ ٹال‌کے بزرگ کسان بٹورن یادو کے پاس سرکاری افسر کاغذ لےکر آئے تھے۔  اس وقت وہ اپنے گھر پر تھے۔  افسروں نے کاغذات پر ان کے انگوٹھے کا نشان لے لیا تھا۔وہ کاغذ اصل میں پٹنہ ضلع‎ کے تحت مکامہ بلاک کے مکامہٹال علاقے میں وزیر اعظم نریندر مودی کے عوامی جلسہ کے لئے اپنی خواہش سے کھیت دینے کی رضامندی تھی۔  وزیر اعظم کے اس عوامی جلسہ میں بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار، نائب وزیراعلیٰ سشیل کمار مودی اور وزیر نتن گڈکری بھی موجود تھے۔

بٹورن یادو کے ڈیڑھ بیگھہ کھیت میں فصل لگی ہوئی تھی۔  ان کو یقین دلایا گیا کہ جتنا نقصان ہوگا، اس کا معاوضہ دیا جائے‌گا۔  وزیر اعظم نریندر مودی کے عوامی جلسے کو ساڑھے تین مہینے سے زیادہ وقت گزر چکا ہے، لیکن اب تک ان کو معاوضے کی شکل میں ایک روپے بھی نہیں ملا ہے۔وزیر اعظم مودی کے جلسہ کا ذکر چھیڑنے پر بٹورن یادو کی بیوی جھلّاتے ہوئے کہتی ہیں، ‘ کاغذ پر انگوٹھا لگاکر لے گئے۔  اس کے بعد ایک چونی نہیں ملی اور الٹے کھیت برباد ہو گیا۔  ‘

جلسہ کے لئے دو درجن سے زیادہ کسانوں سے مکامہ ٹال بائی پاس این ایچ-31 کے کنارے کے 35 ایکڑ سے زیادہ کھیت لئے گئے تھے۔  ان کھیتوں میں دلہن کی بوائی کی جا چکی تھی۔  فصل کو برباد کر کے کسی کے کھیت میں ہیلی پیڈ بنا تو کسی کے کھیت کو پارکنگ لاٹ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔  کسی کے کھیت میں اسٹیج بنا تو کسی کے کھیت کو ناظر ین کے لئے پویلین بنایا گیا تھا۔  ان دو درجن کسانوں میں سے ایک کو بھی معاوضے کی رقم اب تک نہیں ملی ہے۔

وزیر اعظم کا عوامی جلسہ جہاں ہوا تھا، وہ کھیت مکامہ اسمبلی حلقہ  میں آتے ہیں۔  ریاست کی راجدھانی پٹنہ سے یہ علاقہ محض 100 کلومیٹر دور ہے۔کسانوں کا کہنا ہے کہ دھوکے سے ان کی زمین لی گئی تھی۔  کچھ کسانوں کو سرکاری افسروں نے معاوضے کی مجوزہ رقم بتائی، لیکن زیادہ تر کسان اندھیرے میں ہی تھے۔  ہاں، یہ ضرور تھا کہ سرکاری افسر کھیت میں جلسہ کے لئے رضامندی کے لیے دستخط کر دینے کی معصومیت بھری گزارش خوب کرتے۔  ساتھ ہی یقین دہانی کراتے کہ پروگرام ختم ہوتے ہی معاوضے کی رقم دے دی جائے‌گی۔

Photo: PIB

Photo: PIB

مقامی باشندہ چن چن سنگھ کے دو بیگھہ کھیت کو پارکنگ لاٹ بنایا گیا تھا۔  انہوں نے کہا، ‘ میں نے اپنے کھیت میں رائی بو رکھی تھی۔  1 بیگھہ کھیت میں رائی بونے کا خرچ چار سے پانچ ہزار روپے آتا ہے، لیکن سرکاری افسروں نے 32 کٹھّے پر 2200 روپے دینے کی پیشکش کی تھی۔  میں نے اس وقت اس کی مخالفت کی تھی کیونکہ یہ لاگت سے بھی کم تھا، لیکن انہوں نے دستخط کروا لئے۔  ‘

مقامی کسان جنمے جے عرف مکھن سنگھ سے عوامی جلسہ کے لئے 3 بیگھہ7 کٹھّے کھیت لیا گیا تھا۔  انہوں نے کھیت میں رائی اور سرسوں کی بوائی کی تھی۔  وہ کہتے ہیں، ‘ بوائی میں 25 ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔  ابتک کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے۔  ‘مکھن سنگھ آگے کہتے ہیں، ‘ جلسہ کی تاریخ سے 5 دن پہلے سرکل انسپکٹر سے لےکر سرکل افسر (سی او) تک رات کو آئے اور دستاویز پر دستخط کروا لئے۔  اس سے پہلے اکثر سی او فون کر کے جلسہ گاہ پر بلاتے اور  درخواست کرتے کہ ہم ان کے سینئر افسروں کو یہ کہہ دیں کہ کسان معاوضے کی رقم بعد میں لے لیں‌گے۔  اس طرح جعلسازی کر کے کسانوں سے زمین لی گئی۔  ‘

کسانوں نے بتایا کہ جلسہ سے پہلے بارش ہو گئی تھی، تو کھیت میں کافی مقدار میں فلائی ایش ڈالا گیا تھا۔  کسانوں کے مطابق، رات کے اندھیرے میں کھیتوں میں فلائی ایش ڈالا جاتا تھا تاکہ ان کو پتا نہ چلے۔  جلسہ کے دن تو کسانوں میں جوش تھا کہ مودی جی آئے ہیں، تو ٹال علاقے کو کھلے ہاتھ سے کچھ دےکر جائیں‌گے، مگر مودی جی‌کی تقریر میں ان کے لئے کچھ نہ تھا۔

مکھن سنگھ دو ٹوک  کہتے ہیں، ‘ مودی جی ہم کسانوں کو ٹھگ‌کر گئے ہیں اور ان سے ہمیں اب کوئی امید نہیں ہے۔  ‘

mokama4

ٹال وکاس سمیتیکے کنوینر آنند مراری کہتے ہیں، ‘ کسان شروع میں زمین دینے کو تیار نہیں تھے، کیونکہ کھیت میں فصل بوئی جا چکی تھی۔  کسی طرح کسانوں کو منایا گیا کہ اگر وہ کھیت نہیں دیں‌گے، تو وزیر اعظم کی بے عزتی ہوگی۔  اس کے بعد وہ راضی ہوئے۔  سرکاری افسر معاوضہ دینے پر زور دیتے تھے، اس لئے ہمیں لگا کہ معاوضہ مل جائے‌گا۔  لیکن، زمین دینے والے کسی بھی کسان کو پھوٹی کوڑی نہیں ملی ہے۔  المیہ تو یہ ہے کہ مودی جی نے اپنی تقریر میں ‘ ٹال ‘ اور ‘ کسان ‘ لفظ کا ذکر تک نہیں کیا۔  ‘

عوامی جلسہ کے لئے فصل قربان کرنے والے کسانوں کو معاوضہ نہیں ملنے کا افسوس تو ہے ہی، ان کو یہ فکر بھی ستا رہی ہے کہ اس بار ان کے کھیت میں فصل کی پیداوار بےحد کمزور ہوگی کیونکہ فلائی ایش ڈال‌کر روڈرولر چلا دینے سے مٹی کو نقصان پہنچا ہے۔دوسری طرف، جلسہ کی وجہ سے 35 ایکڑ میں دوبارہ بوائی کافی دیر سے کی گئی، جس سے بھی فصل کی پیداوار پر گہرا اثر پڑے‌گا کیونکہ ٹال علاقے میں متعینہ وقت پر بوائی بہت ضروری ہے۔

مکھن سنگھ بتاتے ہیں، ‘ مکامہ ٹال علاقے میں وقت پر ہی بوائی کرنی پڑتی ہے، ورنہ پیداوار متاثر ہوتی ہے۔  14 اکتوبر کو جلسہ ہونے کے بعد کھیت کو ٹھیک کرنے میں ہی ایک ہفتہ گزر گیا، کیونکہ روڈرولر چلانے سے مٹی سخت ہو گئی تھی۔  جلسہ سے پہلے بارش ہونے کی وجہ سے کھیت میں فلائی ایش کی موٹی پرت بچھا دی گئی تھی۔  اب مٹی میں فلائی ایش اس قدر گھل مل گیا ہے، کہ اس کو نکالنا ناممکن ہے۔  پھر بھی اضافی خرچ کر کے کئی بار جوتائی اور سینچائی کر کےکھیت کو تیار کیا گیا۔  24 اکتوبر کو کسی طرح ہم دوبارہ بوائی کر پائے۔  لیکن، فصل بےحد کمزور ہے۔  ‘

سنگھ نے آگے کہا، ‘ جلسہ ہونے کے ایک دن بعد ہی تمام کسانوں نے معاوضے کا فارم بھر‌کر مال گزاری رسید اور بینک کے پاس بک کی فوٹوکاپی کے ساتھ بلاک دفتر میں جمع کیا تھا۔  افسر بھی کہتے تھے کہ فوراً معاوضہ ملے‌گا۔  ہمیں نہیں پتا تھا کہ ہمارے ساتھ ایسا دھوکا ہوگا۔  ‘جلسہ کے لئے ایک بیگھہ 6 کٹھّا کھیت دینے والے مکامہ بازار باشندہ اوپیندر سنگھ نے کہا، ‘ جلسہ کے لئے کھیت کو کرکٹ میدان کی طرح سخت بنا دیا گیا تھا۔  زمین کی جو حالت ہے، اس کو ٹھیک ہونے میں دو تین سال لگ جائیں‌گے۔  ‘معاوضے کے بارے  میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا، ‘ جیسےمودی جی یقین دہانی کراتے ہیں، ویسے ہی سرکاری افسروں نے بھی معاوضے کی یقین دہانی ہی  کرائی، معاوضہ نہیں۔  ‘

جلسہ کی وجہ سے کھیتوں کو کس حد تک نقصان ہوا ہے، یہ مذکورہ کھیت کے آس پاس کے کھیتوں میں لہلہاتی فصل اورجلسہ والے کھیتوں میں چھوٹے پودوں کو دیکھ‌کر آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔

فوٹو: امیش کمار رائے

فوٹو: امیش کمار رائے

بہورن یادو کی بیوی کمزور پودوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ‘ ائیسن کہیو مکامہٹال ہوو ہئی؟  غریب لوگ کی دو بیگھہ،چار بیگھہ کھیتے ہئی، اوہے میں کھاکے بال بچّہ کے پوست ہئی۔  کھیت پرتی رہتئی تو کوچی کھئیتئی (ایسا ٹال علاقہ کبھی دیکھا گیا ہے؟  غریب لوگوں کو دو بیگھہ چار بیگھہ کھیت ہی ہے۔  اسی میں کھیتی کرکے بچّوں کی پرورش کرتے ہیں۔  اگر کھیت پرتی رہ جائے‌گی، تو کھائیں‌گے کیا)؟ ‘

چوتھی بار گیہوں میں سینچائی کر رہے ایک نوجوان کسان نے نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر کہا، ‘ ہمیں لگا تھا کہ مودی جی بہت کچھ ہماری جھولی میں ڈال‌کے جائیں‌گے۔  جلسہ ختم ہوا تو ہمیں جلسہ گاہ پر ملی جوٹھی تھالی، پلیٹ، کپ اور اینٹ پتھر! پورے کھیت میں گندگی پھیلی ہوئی تھی۔  مزدور لگاکر کوڑا ہٹانا پڑا۔  کھیت کو کسی طرح ٹھیک کر کے مسور، مٹر اور گیہوں کی فصل لگائی ہے۔  فصل میں نہ پھول آ رہا، نہ پھل۔  گیہوں کے لئے دو سینچائی کافی ہے۔  اس مٹی میں دو بارکی آب پاشی میں ہی گیہوں کی اچّھی پیداوار ہوتی ہے۔  اس سے زیادہ آب پاشی کرنے پر پیداوار کم ہو جاتی ہے۔  ابتک گیہوں میں چاربار آب پاشی کر چکے ہیں، لیکن پودے میں ترقی نہیں ہو رہی ہے۔  ‘

معاوضے کے سوال پر وہ ایسے قہقہہ لگانے لگے جیسے کوئی لطیفہ سنایا گیا ہو۔  دوسرے ہی پل وہ سنجیدہ ہوکر کہنے لگے، ‘ معاوضے کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے۔  بلاک آفیس میں جاتے ہیں، تو کوئی پوچھنے والا نہیں ملتا ہے۔  وزیر اعظم نریندر مودی کے یہاں آنے پر لگا کہ ہم خوش قسمت ہیں اور مودی جی ہم کسانوں کو کچھ دےکر جائیں‌گے، لیکن وہ تو ہمیں برباد کر گئے۔  ‘

اس امید کو لےکر سی او جئےکرشن پرساد سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ کسان معاوضہ لینے کو تیار ہی نہیں تھے، اس لئے اس پر آگے کی کارروائی نہیں ہوئی۔

اس سے متعلق کسانوں کا کہنا ہے کہ ایک دو کسانوں نے ہی معاوضہ نہیں لینے کی بات کہی تھی، وہ بھی غصے میں۔ان سے جب یہ کہا گیا کہ کسانوں نے معاوضہ لینے کا فارم جمع کیا ہے اور عوامی جلسہ سے پہلے ان کو معاوضہ دینے کی بات کہی گئی تھی، تو انہوں نے کہا کہ زیادہ تر کسانوں نے کاغذات جمع نہیں کئے ہیں۔  لیکن وہ یہ نہیں بتا پائے کہ جنہوں نے کاغذات جمع کئے ہیں، ان کو کیوں نہیں معاوضہ ملا۔

سی اوکے مذکورہ بیان کی روشنی میں جن سبھاسے پہلے پربھات خبر میں شائع ایک خبر میں بی ڈی او کے بیان کو بھی دیکھنا چاہیے۔  اس میں بی ڈی او نیرج کمار کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ کسانوں کے مفادات کا خیال رکھ‌کر ان کو معاوضہ دیا جائے‌گا۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)