یہ حقیقت ہے کہ شاہد جیسا بننا مشکل ہے کیونکہ شاہد نے جو کارنامہ صرف سات سال کی مدت میں انجام دیا وہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ شاہد نے محض سات سال کی مدت میں 17 بےگناہ مسلم نوجوانوں کو آزاد کروایا، جن میں سے زیادہ تر لوگوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔
11 فروری 2010کو جب حملہ آوروں نے ممبئی کے وکیل شاہد اعظمی کو گولی ماری ہوگی تو ان کو لگا ہوگا کہ ان کے مرنے کے بعد ان کا کوئی نام لیوا نہ ہوگا،بلکہ ان کے قتل کی خبر سے مسلم سماج، خاص طور پر نوجوانوں میں دہشت پھیل جائیگی اور آنے والے دنوں میں کوئی بھی شاہد جیسی ‘حماقت’ کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ لیکن وہ حملہ آور یا شاہد کے قتل کا حکم دینے والے اگر آج پورے ملک میں شاہد کے نقش قدم پر چلنے والے مسلم نوجوانوں (اور مجھے لگتا ہے غیر مسلم نوجوانوں) کی تعداد کو دیکھیں تو شاید انہیں ‘افسوس’ ہوگا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ کیونکہ آج پورے ہندستان میں ایسے درجنوں مسلم نوجوان موجود ہیں جو یا تو شاہد بننے کی شدید خواہش رکھتے ہیں یا پھر انکی طرح ظلم کے خلاف لڑنے اور انصاف کی آواز بلند کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
ممبئی میں رہنے والے عاصم خان شاہد کے قتل کے وقت ایک ٹی وی جرنلسٹ تھے لیکن آج وہ ممبئی میں وکالت کرتے ہیں۔ انہوں نے دی وائر کو بتایا کہ وہ شاہد کو پہلے سے جانتے تھے اور ان کے قتل کے فوراً بعد انہوں نے لاءکے کورس میں داخلہ لیا تاکہ وہ بھی شاہد جیسا کر سکیں۔ “مجھے بخوبی معلوم ہے کہ شاہد بھائی کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے مجھ جیسے ادنٰی لوگ نہیں بھر سکتے لیکن میں نے انکے پیشے کو اس لئے چنا تاکہ ایک پیغام دے سکوں کہ شاہد صرف کسی فرد کا نام نہیں تھا بلکہ وہ ایک آئیڈیا تھا۔ آپ ایک فردکو تو موت کی نیند سلا سکتے ہیں پر اس آئیڈیا کو مارنا آسان نہیں جس کے لئے اس شخص نے اپنی زندگی لگا دی”
یہ حقیقت ہے کہ شاہد جیسا بننا مشکل ہے کیونکہ شاہد نے جو کارنامہ صرف7 سال کی مدت میں انجام دیا وہ کسی معجزے سے کم نہیں ۔ شاہد نے محض سات سال کی مدت میں 17 بےگناہ مسلم نوجوانوں کو آزاد کروایا، جن میں سے زیادہ تر لوگوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ شاہد بخوبی جانتے تھے کہ دہشت گردی کے معاملے میں ملزم ہونا کیا ہوتا ہے۔ اسکی وجہ سے کس طرح سے سماج اور سرکار دونوں کی طرف سے اذیتیں برداشت کرنی پڑتی ہے۔ لیکن شاہدکا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ تمام تر مصیبتوں کے باوجود انہوں نے مرثیہ خوانی کی راہ اختیار نہیں کی اور حالات کو بدلنے کابیڑا اٹھایا۔
محمد ریاض، جو کیرلا کے کاسرکوڈ ضلع کے رہنے والے ہیں اور شاہد کے قتل کے وقت وہ گیارہویں جماعت میں پڑھتے تھے ۔ ان کا خواب تھا کہ وہ بڑے ہوکر پائلٹ بنیں ۔ لیکن شاہد کے قتل کی پہلی برسی پر ریاض نے ایک مقامی اخبار میں شاہد کی زندگی اور خدمات کے بارے میں ایک مضمون پڑھا، جس نے ان کی زندگی بدل دی۔ ریاض نے دی وائر کو بتایا کہ مضمون پڑھنے کے بعد انہوں نے یہ طے کیا کہ اب وہ پائلٹ نہیں بلکہ شاہد کی طرح وکیل بنیں گے۔ ریاض نے بتایا کہ ،”شاہد بہت ہی بہادر اور قابل وکیل تھے اسی لئے میں بھی ویسا بنانا چاہتا ہوں۔ ان کی طرح میں بھی دستور کی بالادستی اور فسطائیت کے خاتمے کے لئے لڑنا چاہتا ہوں۔” پچھلے سال مینگلور (کرناٹک) کے ایس ڈی ایم کالج سے لاء کی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ریاض ان دنوں اپنے آبائی شہر میں وکالت کر رہے ہیں۔
شاہد پہلے مسلم وکیل نہیں تھے جن کا قتل اس لئے ہوا تھا کہ وہ بےگناہ مسلم نوجوانوں کا مقدمہ لڑ رہے تھے۔ شاہد کی طرح 2009 کے اپریل مہینے میں مینگلور کے وکیل نوشادقاسم جی کا قتل کر دیا گیا تھا۔ نوشاد قتل کے وقت اپنے مربی اور سینئر وکیل پرشانت پجاری کے ساتھ دوسرے مقدموں کے علاوہ کرناٹک کے ان مسلم نوجوانوں کا مقدمہ لڑ رہے تھے جن پر دہشت گرد ہونے یا دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ نوشاد کے قتل کے بعد ان کی اہلیہ ایڈووکیٹ نصرت فاطمہ نے ایڈووکیٹ پجاری کے ساتھ اس کام کا بیڑا اٹھایا۔
واضح ہو کہ جب شاہد اور نوشاد جیسے وکیل ایسے مقدمے لڑرہے تھے تب وہ صرف پولیس کی تھیوری کو چیلنج نہیں کر رہے تھے بلکہ اپنے ساتھی وکیلوں کے ‘خلاف’ بھی لڑ رہے تھے۔ کیونکہ مدھیہ پردیش ، یو پی، کرناٹک اور مہاراشٹر کے کئی بار ایسوسی ایشن نے یہ قرارداد پاس کیا تھا کہ دہشت گردی کے معاملوں میں کوئی بھی وکیل ملزم کی طرف سے کھڑا نہیں ہوگا۔ اور ایسا کرنے کی جس نے بھی ہمت کی ان پر حملے ہوئے۔ انہیں کورٹ کے احاطے میں ساتھی وکیلوں نے پیٹا۔
لکھنؤ میں حقوق انسانی اور بےگناہ نوجوانوں کی رہائی کے لئے کام کرنے والی تنظیم ‘رہائی منچ’ کے رکن راجیو یادو کہتے ہیں کہ شاہد کے کام نے مسلم سماج کے نوجوانوں میں ایک ایسی آس جگائی جو پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ وہ کہتے ہیں، “اتر پردیش کے مختلف شہروں میں میری ملاقات ایسے درجنوں مسلم نوجوانوں سے ہے جو شاہد کو اپنا رول ماڈل مانتے ہیں۔ اور اس میں صرف لڑکے نہیں لڑکیاں بھی شامل ہے۔” وہ آگے کہتے ہیں، “سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ لوگ صرف وکیل نہیں شاہد جیسا وکیل بننا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ایسا نہیں کہ مسلم وکیلوں کی کمی ہے بلکہ ایسے وکیلوں کی کمی ہے جو وقت رہتے انصاف کے لئے شاہد کی طرح کھڑے ہونے کی ہمت کر سکیں۔”
راجیو مدرسہ سےفارغ فردوس صدیقی کی مثال دیتے ہیں۔ فردوس اس وقت قانون کی پڑھائی کر رہی ہیں اور خالی وقت میں بےگناہ نوجوانوں کی پیروی کرنے والے وکیل محمد شعیب کی مدد کرتی ہیں۔ راجیو نے دی وائر کو بتایا کہ فردوس کے علاوہ بھی بہت سارے مسلم نوجوان ہیں جو اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ امروہہ کی مسلم خاتون وکیل کا بھی ذکر کرتے ہے جو شاہد جیسا کام کرنا چاہتی ہیں۔
مالیگاؤں میں پلے بڑھے ایڈووکیٹ شاہد ندیم شاہد کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں “جب میں مالیگاؤں میں پڑھتا تھا تو میرا خواب تھا کہ میں شاہد بھائی کے ساتھ کام کروں۔ جس کا موقع مجھے ملا بھی لیکن وہ بہت قلیل مدت تھی ۔ میں ان کے ساتھ لگ بھگ دو مہینے ہی کام کر پایا۔” ندیم ان دنوں ممبئی میں وکالت کرتے ہیں اور جمیعت علما ہند مہاراشٹر لیگل سیل کے ساتھ وہ کام کر رہے ہیں جسکی شروعات شاہد اعظمی نے تنظیم کے سربراہ گلزار اعظمی کے ساتھ مل کر کی تھی۔ ندیم بتاتے ہیں کہ ا ن کے آبائی شہر مالیگاؤں میں اور بھی نوجوان ہیں جو شاہد کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں۔
مختصراً، جن کو لگا تھا یا لگتا ہوگا کہ شاہد کو مارکر وہ بہت بڑا معرکہ سر کر لیں گے تو انکو دیکھنا چاہیے کہ کس طرح سے پورے ملک میں مسلم نوجوان اپنے کام اور ارادوں کے ذریعے اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ شاہد (اعظمی) زندہ ہے کیونکہ شہید مرا نہیں کرتے۔
Categories: حقوق انسانی, خبریں