ہندوستان کے بےسہارا طالب علموں کو پڑھانا اور پچھڑے دیہی علاقوں میں کام کرنا بطور ماہر اقتصادیات ان کا مذہب بن چکا ہے۔ یہ ان کی راہبانہ فطرت اور سیرت کے مطابق ہی تھا۔
رانچی اگر معروف کرکٹر مہیندر سنگھ دھونی کے لئے مشہور ہے، تو جھارکھنڈ کی اسی راجدھانی سے ایک دیگر مہاجر کا نام بھی منسلک ہے، جس کو اپنے کھلے خیالات اور سماجی کاموں کے لئے عزّت سے دیکھا جاتا ہے۔ دھونی نے اگر ملک کو اپنے کھیل سے پہچان دی، تو رانچی کی اس دوسری ہستی نے لوگوں کو روزگار کے لیے ہجرت سے بچانے میں مدد کی۔ ان کی پہچان راشٹریہ گرامین روزگار گارنٹی اسکیم کے نظریے میں ان کا مرکزی کردار سے ہے، تو نریگا کا مسودہ تیار کرنے کے ساتھ ہی ا س کی تکمیل پر نوکیلی نظر رکھنے کے لئے بھی۔ آرٹی آئیاور اشیائےخوردنی تحفظ قوانین میں ان کا اہم کردار ہے۔
فروری کی شروعات میں ،میں رانچی میں تھا۔ پتا تھا، دھونی شہر میں نہیں ہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ان میں نہ مجھے زیادہ دلچسپی ہے اور نہ شاید ان کی ہی مجھ میں کوئی دلچسپی ہو۔ لیکن اس دوسرے رانچی باشندے سے ملنے میں میری دلچسپی بھی تھی اور میں نے ان سے ملنا متعین بھی کر رکھا تھا۔
جیاں دریج سے پہلے کی بھی کئی ملاقاتیں ہیں۔ ایک بار نوے کی دہائی کی شروعات میں، جب وہ لندن اسکول آف اکانومکس میں پڑھا رہے تھے اور مزدور وں کے ساتھ رہتے تھے۔ نوے کی دہائی میں ہی ہم پھر ملے، جب وہ دلّی اسکول آف اکانومکس میں پڑھا رہے تھے اور تیمارپور کی جھگی جھوپڑی ان کی رہائش تھی۔ تیسری ملاقات 2000 کی دہائی کی شروعات میں ہوئی، جب دریج بینگلورو آئے اور میں ان کو ریلوے اسٹیشن پر چھوڑنے گیا، جہاں سے وہ ٹرین کے جنرل ڈبے میں آگے کا سفر کرنے والے تھے۔ وہ تمل ناڈو کے دیہی علاقوں میں سرکاری مڈ ڈے میل اسکیم کا سچ دیکھنے نکلے تھے۔ دہلی میں ایک ملاقات ہوتے ہوتے رہ گئی ، کیونکہ ان کو اچانک برسیلس نکلنا پڑا۔ جیاں دریج ان دنوں ہندوستان کی شہریت لینے کے لیے کوشاں تھے۔ یہ مشکل کام تو تھا ہی، اس سے بھی مشکل بیلجینس کو اس بات پر راضی کرنا تھا کہ وہ وہاں کی شہریت چھوڑ رہے تھے۔ خاص موقع کی ان ملاقاتوں کے علاوہ ہم دونوں کا خط وکتابت بھی چلتا رہتا۔ اس میں ایک دوسرے کے کام کی تعریف بھی ہوتی، تنقید بھی۔
جیاں دریج مجھ سے ایک سال چھوٹے ہیں۔ ہمارے کام میں بھی خاصی یکسانیت ہے۔ ہم نے ہندوستان میں ہی پی ایچ ڈی کی، عام طور پر یہی کام کرتے رہے ہیں اور یہاں کے بارے میں لکھتے رہے ہیں۔ حالانکہ اس سب کے باوجود ہماری طرز زندگی بہت الگ ہے اور میرا رانچی سفر کا مقصد بھی جیاں دریج اور ان کی زندگی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ نئی جانکاری یکجا کرنی تھی۔ طےشدہ پروگرام کے مطابق ہم ان کے رانچی یونیورسٹی واقع ڈپارٹمنت آف اکانومکس کے دفتر میں ملے اور پھر ان کی موٹرسائیکل سے نکل پڑے۔ رانچی،ہزاری باغمین روڈ پر آدھے گھنٹے چلنے کے بعد ہم شاہراہ سے اترکے اوبڑ کھابڑ راستوں پر تھے۔ راستے میں پیپل کے ایک درخت کے نیچے موٹرسائیکل کھڑی کر پیدل چلتے ہوئے ایک پہاڑی پر پہنچے۔ دوردراز وادی کا پرلطف نظارہ اور منڈا آدیواسیوں کے فیروزی نیلے رنگ میں پتےگھر کسی خوبصورت لینڈاسکیپ کی تخلیق کر رہے تھے۔ یہاں بیٹھکر باتیں کرنے کی خوشی ہی الگ تھی۔ جیاں دریج کا جنم 1959 میں قدیم شہر لیوین میں ہوا۔ والد جیکس دریج عالمی شہرت یافتہ اقتصادی نظریہ سازاور جانےمانے استاد تھے اور بیوی کے ساتھ ہی ان کی عوامی زندگی میں گہری مداخلت تھی۔ جیاں دریج اسی ماحول میں پلے بڑھے۔ ان کے ایک بھائی انتہا پسند سیاست میں چلے گئے، دوسرے نے مارکیٹنگ کا پروفیسر بننا اور تیسرے نے مترجم کا کیریئر چنا۔
جیاں دریج کی دلچسپی اقتصادیات میں پروان چڑھتی رہی اور وہ دہلی واقع ہندوستانی شماریاتی ادارہ میں داخل لیتے کہ اس سے پہلے ایسیکس یونیورسٹی سے ڈگری لے چکے تھے۔ شماریاتی ادارے میں پڑھائی کے دوران ان کی ملاقات امرتیہ سین سے ہوئی، جن کے ساتھ ملکر وہ ابتک چار کتابیں لکھ چکے ہیں اور دو مرتَب کیا ہے۔ میں نے امرتیہ سین کو کہتے سنا ہے کہ اس سب میں نوّے فیصدی کام دریج کا ہے، لیکن اس کا نوّے فیصدی سہرا مجھے ملا ہے۔ فطری طورپر یہ مبالغہ ہے اور اس کو پچاس پچاس مانا جانا چاہیے، کیونکہ کسی بھی ذہنی اشتراک میں برابری کے تعاون بنا مکمل کام نہیں ہو سکتا۔ ہاں، قاری دونوں کا یکساں طورپر شکر گزار ہوتا ہے۔
امرتیہ ہاورڈ میں پڑھا رہے ہیں۔ دریج نے ہندوستان میں بسنے کا فیصلہ لیا اور اقتصادیات کے ہمارے سب سے بہترین ادارے میں سب سے پہلے پڑھائی کی۔ اس کے بعد وہ الہ آباد یونیورسٹی گئے اور پھر رانچی یونیورسٹی آ گئے۔ ہندوستان کے بےسہارا طالب علموں کو پڑھانا اور پچھڑے دیہی علاقوں میں کام کرنا بطور ماہر اقتصادیات ان کا مذہب بن چکا تھا۔ یہ ان کی راہبانہ فطرت اور سیرت کے مطابق ہی تھا۔ دریج تنخواہ نہیں لیتے۔ ضروریات اتنی کم ہیں کہ کتابوں کی رائلٹی اور اخباری مضمون کے اعزازیہ سے ہی پوری ہو جاتی ہیں۔ ہندوستان کے دیہی علاقوں میں سالوں کام کرنے کے بعد اب وہ اچّھی ہندی بول لیتے ہیں۔
پہاڑیوں میں کئی گھنٹے کی سیر کے بعد ہماری بائک واپس لوٹی۔ ڈھابہ پر کھانا کھاتے ہوئے ہم شہر کے باہری علاقے کے ایک قبائلی گاؤں میں ان کے ‘ گھر ‘ پہنچے، جو ایک جھوپڑی کے پچھواڑا میں بنا کمرہ تھا۔ طے ہے کہ کچھ دن بعد یہ بھی شہرکاری کی بھینٹ چڑھ چکا ہوگا۔ جیاں دریج کی بنائی چائے اور چڑیا کی آواز کے درمیان یہاں ہم نے کچھ اور باتیں ساجھا کیں۔
جیاں دریج نے بتایا کہ جلدہی وہ ہندی میں پھر سے ایک باقاعدہ کالم لکھنے جا رہے ہیں۔ ان کے ایسے ہی مضامین کا مجموعہ سینس اینڈ سالڈیرٹی کے عنوانسے کتابی صورت میں حال ہی میں آیا ہے، جس کا ذیلی عنوان جھولاوالا ماہرِ اقتصادیات-سب کے لئے خودبخود اپنی چیزوں کا بیان ہے۔ اس میں اشیائےخوردنی تحفظ سے لےکر طبی احتیاط، بچّوں کے حق سے لے کر جوہری جنگ کے خطرے جیسے موضوعات کی لمبی سریز ہے۔ کسانوں، آدیواسیوں، مزدوروں اور مہاجروں کی زندگی اور جدو جہد کو گہرائی سے سمجھنے میں یہ خاصی مددگار ہے۔ ان کا تحریری انداز جتنی سادہاور واضح ہے، تجزیہ اتنے ہی تیکھے اور منطقی، لیکن وہ ایک طرفہ شاید ہی کبھی ہوتے ہوں۔ ہندوستانی جمہوریت کے مستقبل اور ملک کی ترقی میں ذرا بھی دلچسپی رکھنے والوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔
Categories: حقوق انسانی