اگر ونئے کٹیار اور ان جیسے بےروزگار بیٹھے دوسرے بی جے پی رہنماؤں نے اپنے بانی شیاما پرساد مکھرجی کو پڑھا ہوتا تو بےسر و پیر کے دعوے نہیں کرتے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی ویب سائٹ پر کافی فخر کے ساتھ شیاما پرساد مکھرجی کی شاندار اکادمک کامیابیوں جیسے،کلکتہ یونیورسٹی، لنکنس ان میں بیرسٹری کی پڑھائی، ملک کے سب سے کم عمر کے وائس چانسلر اور اسی طرح کی اور بھی چیزوں کوبیان کیا گیا ہے، جو صحیح بھی ہے۔یہاں تک کہ مکھرجی کو پارٹی کے قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ پارٹی کے اندر جن سنگھ کے بانی کی زندگی اور جدو جہد پر کام کرنے کے لئے الگ سے ایک ریسرچ سیل بھی ہے۔لیکن، جیسا کہ بی جے پی کی خاصیت ہے، مکھرجی ان کے لئے سنجیدگی سے بار بار دوہرائے جانے والے لفاظیبھرے نعرے سے زیادہ نہیں ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ سست رائٹ ونگ میں دانشوری کو لےکر ایک نفرت کا تاثر ہے، پھر بھی ہم یہ امید کر سکتے تھے کہ وہ اپنی عظیم شخصیت کے ساتھ کم سے کم ویسا برتاؤ نہیں کریںگے، جیسا وہ ‘ میکالے کی اولادوں ‘ اور مارکس وادیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔پچھلے چھے مہینے سے دو بی جے پی رہنماؤں اور انٹرنیٹ پر فعالہندوتوا ٹرولس نے کئی بار یہ مانگ کی ہے کہ تاج محل کو مندر میں بدل دیا جائے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ایسا اس لئے کیا جانا چاہیے، کیونکہ کسی زمانے میں تاج محل مندر ہی ہوا کرتا تھا۔
بلاشبہ، ان کے پاس بھروسا کرنے کے لئے اپنے پران ناتھ اوک اور ان کی کتاب ‘ دی تاج محل از اے ٹیمپل پیلیس ‘ ہیں۔ رائٹ ونگ دانشوروں کے دیوکل میں فوج کے افسر سے مؤرخ بنے اوک کا نام بےحد عزت کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ انہوں نے سبھاش چندر بوس کے ساتھ کام کرنے کا دعویٰ کیا تھا، بلکہ ایک ایسے ‘ مؤرخ ‘ کے طور پر جس کے تصور کی اڑان کی کوئی سرحد نہیں تھی۔
یہاں تک کہ ان کی چھاؤنی میں جو تھوڑےبہت سچ مچ میں آکسفورڈ سےتعلیم یافتہ مؤرخ اور صحافی،مؤرخ ہیں، وہ بھی اوک کو ان کے اونچے سنگھاسن سے معزول کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔تاج محل اور کئی متنازع مسائل اور تاریخی مقامات کو لےکر ان کو توڑمروڑ کر پیش کئے گئے اصولوں نے ان کی وراثت کو زندہ رکھا ہے۔
اوک کی کتابیں فروخت ہورہی ہیں اور ان کے خیالات کو ونئے کٹیار اور اتّر پردیش کے بےروزگار بیٹھے ان کے جیسے دوسرے بی جے پی رہنماؤں نے لپک لیا ہے۔ وزیر اعظم کا مون اور نیوز چینلوں کا جوش و ولولہ ایسے بےسر و پیرکے دعووں کو ہوا دینے کا ہی کام کرتا ہے۔
ایسے میں کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ مکھرجی کی وراثت کی بات کرنے والوں کو ، جن میں ‘ انٹائر پالیٹکل سائنس ‘ میں ایم اےکرنے والے مودی بھی ہیں، ایک بار مکھرجی کو پڑھنے کی صلاح دی جائے۔اور کچھ نہیں، تو کم سے کم جب اگلی بار ان کی پارٹی کا کوئی چُھٹ بھیا رہنما مسجدوں، مقبروں اور یادگار کو مندر میں بدلنے کا دعویٰ کرےگا، تو کم سے کم وہ تو ان کی طرف سختی دکھا پائیںگے اور ان کو مکھرجی کا حوالہ دے سکیںگے۔ شرط یہی ہوگی کہ وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟
مجھے اس بات کا علم ہے کہ اکادمک کتابیں ان کے لئے ممنوع ہیں۔ اس لئے میں ان سے صرف مکھرجی کی ایک تقریر کو پڑھنے کی گزارش کر رہا ہوں جو انہوں نے 23 دسمبر، 1940 کو آگرہ یونیورسٹی میں کنووکیشن کے موقع پر کیا تھا۔جیسا کہ کنووکیشن کے دوران دی گئی تقریروں کے ساتھ ہوتا ہے، یہ ایک لمبی ، مکمل بصیرت اور سیاسی طرفداری سے پرے تقریر تھی۔ اس میں مکھرجی کی علمیت کی جھلک صاف دیکھی جا سکتی ہے۔
انہوں نے طالب علموں سے کہا کہ بھلے ہی یہ یونیورسٹی صرف 13 سال پرانا ہے، لیکن قدیم زمانہ اور قرون وسطی سے نہ بھلایا جانے والا رشتہ رکھنے والے تاریخی شہر آگرہ میں اس کی موجودگی، آپ کو وہ وقعت اور اہمیت دیتی ہے، جس کی اپنی قیمت ہے۔کسی ٹورسٹ گائڈ کی طرح آگرہ کی خوبیاں بتاتے ہوئے مکھرجی نے اس شہر کے ماضی کے صفحات کو پلٹا اور اس کی قدیم جڑوں، مغل تاریخ اور جدید مستقبل کا بیان بنا طرفداری کےکیا۔
یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ مشترکہ ریاست اور دیگر جگہوں پر خوفناک فرقہ پرستی کا دور تھا اور مکھرجی خود رائٹ ونگکا اہم چہرہ تھے۔ لیکن، انہوں نے ان سب کو کنووکیشن ہال کے باہر ہی رکھا۔’ آپ کے شہر کے کنگوروں سے ہوکر بہنے والی مقدس ندی ہمیں ہندوستان کے پروقار زمانے میں-مہابھارت اور یہاں تک کہ رگوید کے دنوں میں لےکر جاتی ہے۔ اس شہر کے قدیم محلوں کو غزنوی دور کے قصیدوں میں جگہ ملی ہے۔ اس کے اردگرد ترقی پانے والا معزز شہر عظیم مغلوں میں عظمت کی پناہ میں پھلاپھولا، جس نے لال کٹے پتھروں سے بنے مشہور قلعے کی تعمیر کرایا۔ اس کے بیٹے کے زمانے میں دنیا کا سفر کرنے والے مسافروں کو پورے عالم میں ا س کے جوڑ کا کہیں کچھ نہیں ملا۔ ‘
اس کے بعد وہ تاج پر آئے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان میں تاج محل کو لےکر فرینک کووم (ایک امریکی وکیل، ڈاکٹرمصنف) جیسا جوش نہیں تھا، جنہوں نے اپنی کتاب ‘ دی رائم آف رینبلر اراؤنڈ دی ورلڈ ‘ کا ایک بڑا حصہ اس شاندار سفید عمارت کو وقف کر دیا تھا۔ ان کی نظم ‘ دی تاج محل : اے پویم ‘ بھی دراصل اس کتاب سے ہی لی گئی تھی۔
مکھرجی ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور مغلوں کیخدمات پر فخر کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ طالب علم بھی اس سے سیکھیں۔
وہ اکبر کے آگرہ کے قلعے کی تعریف پہلے ہی کر چکے تھے۔ اب ان کے پوتے شاہجہاں کے ذریعے اپنی بیوی کی یاد میں بنائے گئے یادگار کی باری تھی۔ انہوں نے کہا، ‘ لیکن شہر کو اس کے سب سے چمک دار زیورات-جو دنیا کے سات عجوبے میں سے ایک اور ہندوستانی وجود کے اعزاز میں سنگ مرمر کا شاندار تاج ہے، سے سجانے کا کام اکبر کے مشہور پوتے کو کرنا تھا۔
تاج کے آس پاس کی جگہ فیضی اور ابوالفضل کی جائے پیدائش بھی تھی۔ کئی سالوں تک یہ تان سین کا رہائشی مقام اور مغلیہ عہد کی کئی مشہور شخصیتوں کے لئے آرام گاہ بھی رہا۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے طالب علموں کو ایک بار پھر یاد دلایا کہ ایسے شاندار تاریخ والے شہر میں پیدا ہونے کی وجہ سے، مادر وطن کے تئیں اس کی جو ذمہ داری بنتی ہے، اس کو الگ سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
مکھرجی نے ایک بات ایسی بھی کہی جو ان کی نظریاتی وراثت کا دعویٰ کرنے والوں کو کسی دوسری دنیا کی بات لگ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ کالجوں کو بنیاد سے ہی ایک ایسی تعلیم مہیّا کرانے کا کام کرنا چاہیے، جسے نسلوں سے پختہ اعتدال پسند تعلیم کے طور پر جانا جاتا ہے، جو عالمگیر اور وسیع ہو، خیالات اور اصولوں میں تنگ نظریوں اور انتہاپسندی سے آزاد ہو اور کھلے اور روشن خیال ذہنوں کے لئے مناسب ہو۔ ‘
کٹیار جیسے لوگوں کو مکھرجی کی بات یاد دلاتے وقت ایک اورپوائنٹ پر زور دیا جانا چاہیے۔ اورنگزیب کے وقت میں تاج محل کی دیکھ ریکھ کا ذمہ چندربھان برہمن کے پاس تھا جو شاہجہاں کے دربار میں ایک عالم منشی تھے اور ان کے من پسند لوگوں میں سے بھی ایک تھے۔
باپ اور بیٹا دونوں کی خدمت کرنے کے بعد جب چندربھان کی سبکدوشی کا وقت آیا، تب اورنگزیب نے انھیں کیئر ٹیکر بناکر آگرہ بھیج دیا۔ ایک برہمن مغلوں کے دربار میں اوپر تک کیسے پہنچا۔ اس بات کو لےکر تجسس سے بھرے رائٹ ونگ ذہن کو میں مغل دربار کی تاریخ، سیاست، انتظامیہ اور شازشوں کے بارے میں فارسی میں لکھی گئی چندربھان کی تخلیق ‘ چہار چمن ‘ پڑھنے کی صلاح نہیں دوںگا، بلکہ چندربھان برہمن پر راجیو کنرا کے ذریعے لکھی 400 سے کم صفحات والی کتاب ‘ رائٹنگ سیلف، رائٹنگ امپائر، چندربھان برہمن اینڈ دی کلچرل ورلڈ آف پرشین اسٹیٹ سکریٹری ‘ پڑھنے کے لئے کہوںگا۔
اچھا ہے کہ وہ اپنی عظیم شخصیتوں اور دوسرے لوگوں کو پڑھیں اور ارجمند بانو بیگم یعنی ممتاز محل کو اپنی پاک قبر میں چین سے سونے دیں۔
(اکشے مکل سینئر صحافی اور گیتا پریس اینڈ دی میکنگ آف ہندو انڈیا کے مصنف ہیں۔)
Categories: فکر و نظر