ادبستان

یوم پیدائش پر خاص:خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ

امیرؔ مینائی کو  یہ سعادت حاصل ہے کہ ان کے بہت سے اشعار محاوروں اور ضرب الامثال کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ روزمرہ کی عام بول چال میں لوگ کثرت سے ان کا استعمال کرتے ہیں۔

Photo: www.rekhta.org

Photo: www.rekhta.org

امیر مینائی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ایک شاعر و ادیب کے علاوہ ان کا شمار اپنے وقت کی عظیم ہستیوں میں ہوتا تھا۔امیر احمد نام تھا ۔ مولوی کرم محمد کے بیٹے اور مخدوم شاہ مینا کے خاندان سے تھے۔ اسی وجہ سے مینائی نسبت اختیار کی۔ ان کی پیدائش لکھنؤ میں21فرروی1829 میں ہوئی۔گیارہ برس کی عمر میں والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے ۔ بڑے بھائی کی نگرانی میں تعلیم وتربیت پائی۔ فن طب، جغرافیہ اور نجوم وغیرہ میں اچھی خاصی لیاقت رکھتے تھے۔  مینائی کو بچپن سے ہی شاعری کا بے حد شوق تھا۔ 9  برس کی عمر میں ہی شاعری کرنی شروع کرد ی تھی۔ اس عمر میں ان کا یہ شعر کافی مشہور ہوا:

ابر آتا ہے ہر بار برستا نہیں پانی

اس غم سے مرے آنسووں کی ہے یہ روانی

امیرؔ مینائی نے اردو کے علاوہ فارسی  میں بھی شاعری کی ۔ زبان وبیان پر بے پناہ قدرت حاصل تھی۔ وہ لکھنؤ تہذیب کے پروردہ تھے اس وجہ سے ان کی شاعری میں بھی لکھنوی تہذیب کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔ انہوں نے شاعری میں اسیر ؔ لکھنوی کی شاگردی اختیار کی۔ان کی شاعرانہ عظمت و صلاحیت کو اس دور کے سبھی بڑے شعراء نے تسلیم کیا ہے۔انہوں  نے غزل کے علاوہ دیگر اصناف میں بھی بڑا کام کیا ہے ۔ 1857 میں نواب واجد علی شاہ کے دربار میں رسائی ہونے کے بعد ان کے حکم پر دو کتابیں شادالسلطان اور ہدایت السلطان تصنیف کیں۔ ان کاایک دیوان غیرت بہارستان 1857 کے ہنگامے میں ضائع ہوگیا ۔ موجودہ تصانیف میں دو غزل کے دیوان ’’ مراۃ الغیب ‘‘ او ر ’’ صنم خانہ عشق‘‘ اور ایک نعتیہ دیوان ’’محمد خاتم النبین‘‘ ہے۔ امیرؔ مینائی نے دو مثنویاں ’’ نور تجلی‘‘ او ر ’’ ابر کرم ‘‘ لکھیں۔ واسوخت کے6 مجموعے بھی ہیں۔ نثری تصانیف میں نواب کلب علی خاں کے ایماء پر تصنیف کیا گیا انتخاب یادگار شعرائے رامپور کا ایک تذکرہ ہے۔’’ سرمہ بصیرت‘‘ کے نام سے ان عربی الفاظ کی ایک فرہنگ ہے جو اردو میں غلط مستعمل ہیں۔امیرؔ مینائی کا ایک بڑا کارنامہ ’’امیر اللغات ‘‘ ہے جو صرف الف مقصورہ اور الف ممدودہ تک ہی تیار ہو پائی تھی کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ لیکن ان کی سب سے پسندید ہ صنف غزل رہی ہے۔

امیرؔ مینائی کی غزل گوئی کا اپنا ایک خاص مقام ہے۔ ان کی شاعری میں لکھنوی انداز کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار بھی کثرت سے موجود ہیں۔ ان کی غزلیں زبان و بیان اور جذبات محبت کے والہانہ اظہار سے پُر ہیں۔ ان کی غزلیں پڑھ کر آپ ان کی زبان کی سلاست و روانی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ امیر ؔ مینائی خاندان صابریہ چشتیہ کے سجادہ نشین حضرت امیر شاہ سے بیعت تھے ۔ وہ اپنے کردار و سیرت کی بلندی کی وجہ سے بھی شعراء کے درمیان بہت مشہور ہوئے۔ آپ صاف ستھرےخیالات ، نیک اخلاق، دردمندانہ طبیعت، حلم وبردباری، عاجزی و انکساری اور زہد و تقوی کے حامل تھے۔ ان کی غزلوں میں ان اوصاف کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔

ameer minai. 2
امیرؔ مینائی نے جس وقت شاعری کی دنیا میں قدم رکھا اس وقت لکھنؤ میں برقؔ ، وزیرؔ ، خلیلؔ ، ناسخؔ اور آتش جیسے شعراء کا دبدبہ تھا مگر امیرؔ مینائی نے ان تمام لوگوں کے سامنے اپنی شاعری کا چراغ روشن کر لیا ۔ جہاں بھی کلام سنایا خوب داد وتحسین سے نوازے گئے۔ ان کا کلام ہاتھوں ہاتھ لیا گیا جس سے بہت جلد وہ مقبول عام ہو گئے۔
امیرؔ مینائی کی غزلوں میں تصوف کا رجحان بہت واضح طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ انہوں نے دنیا کی نا پائیداری، موت، زندگی، آخرت کا ذکر کیا ہے۔ یہ دنیا ایک سرائے کی مانند ہے یہاں جو بھی آتا ہے وہ ایک دن واپس ضرور جاتا ہے۔ اس روئے زمین پر بڑی بڑی ہستیاں پیدا ہوئیں ہیں مگر سب خاک میں مل گئیں ۔ آج صرف ان کا نام باقی ہے۔ اس مضمون کو امیرؔ مینائی نے اپنی ایک غزل میں اس طرح بیان کیاہے:

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

نہ گل ہیں نہ بوٹے نہ غنچے نہ پتے

ہوئے باغ نذر خزاں کیسے کیسے

امیر ؔ مینائی نے اپنی غزلوں میں پر شکوہ الفاظ کے علاوہ اعلیٰ مضامین اور نازک خیالی کے ساتھ ساتھ الفاظ کی بندش پر زوردیا ہے۔ ان کی غزلوں میں روز مرہ کے محاورات کی فراوانی موجود ہے۔ امیر مینائی خود ایک بزرگ صفت انسان تھے جن کا مئے نوشی اور بادہ و جام سے دور دورتک تعلق نہیں تھا مگر ان کی غزلوں کا ایک وافر حصہ ایسے اشعار پر مشتمل ہے جن کو خمریات کے ذیل میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے خمریات سے متعلق مئے، شراب، میکدہ، مے خانہ، مئے نوشی، دخت رز، ساقی، پیمانہ، جام، بادہ، صبو جیسی تقریبا تمام لفظیات کو اپنی غزل میں بحسن و خوبی برتا ہے۔ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں:

ساقیا ہجر میں یہ ابر نہیں

 آسماں پر غبار سا ہے کچھ

مجلس وعظ میں جب بیٹھتے ہیں ہم میکش

دختر رز کو بھی پہلو میں بٹھا لیتے ہیں

ایک ہی غزل کے یہ اشعار دیکھیے:

چب بھی ہو بک رہا ہے کیا واعظ

مغز رندوں کا کھا گیا واعظ

ہم ہیں قحط شراب سے بیمار

 کس مرض کی ہے تو دوا واعظ

ہجو مئے کر رہا تھا منبر پر

 ہم جو پہنچے تو پی گیا واعظ

امیرؔ مینائی کو بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ ان کے بہت سے اشعار محاوروں اور ضرب الامثال کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ روزمرہ کی عام بول چال میں لوگ کثرت سے ان کا استعمال کرتے ہیں۔ اس قسم کے مندرجہ ذیل اشعار کو کون نہیں جانتا:

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

 زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

زیست کا اعتبار کیا ہے امیرؔ

آدمی بلبلہ ہے پانی کا

وصل کا دن اور اتنا مختصر

دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے

قریب ہے یارو روز محشر چھپے کا کشتوں کا خون کیونکر

جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

امیر مینائی کی شاعری کا اردو زبان وادب پر بڑا احسان ہے۔ انہوں نے اپنے زمانے کے مذاق اور حالات کے مطابق شاعری کر کے اردو کی ہر دلعزیزی میں قابل قدر اضافہ کیا جس کے لیے ان کو ہمیشہ یادکیا جاتارہے گا۔ امیر ؔ مینائی کی شاعری میں صنائع و بدائع کا بھرپور اور عمدہ استعمال ملتا ہے۔خیال کی بلندی اور معنی آفرینی کے ساتھ ساتھ ا ن کا طرزبیان ، انداز تصویر کشی اور مرقع نگاری لاجواب ہے۔ امیر ؔ مینائی کو یہ ملکہ حاصل ہے کہ وہ کسی بھی بات ذکر کرتے ہیں توقاری کو لگتا ہے کہ یہ اس کی بات ہور ہی ہے اور اس کو پڑھتے وقت وہ اپنے خیالات میں گم ہو جاتا ہے۔ امیرؔ مینائی کی جو غزل سب سے زیادہ مشہور ہے ملاحظہ کیجے:

سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ

 نکلتاآرہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ

شب فرقت کا جاگا ہوں فرشتوں اب تو سونے دو

 کبھی فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ

نواب کلب علی خاں والی رامپور کے انتقال کے بعد آپ اپنے ہمعصر شاعر اور دوست داغ دہلوی کے ایماء پر حیدرآباد چلے آئے ۔ یہاں آکر1892 میں بیمار ہوگئے ۔ ہر طرح سے علاج و معالجہ کرایا مگر افاقہ نہ ہوا۔ 13اکتوبر 1900 میں 71سال کی عمر میں اس دار فانی سے ہمیشہ کے لیے کوچ کر گئے۔ ’’ توڑ ڈالی موت نے غربت میں مینائے امیر ؔ ‘‘۔ درگاہ شاہ یوسف و شاہ شریف میں دفن کیے گئے۔ قبر پر ان ہی کا یہ شعر کندہ ہے جو دنیا کی بے ثباتی و ناپائیداری کی طرف اشارہ کرتا ہے:

ابھی مزار پہ احباب فاتحہ پڑھ لیں

پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے

(مضمون نگارجے این یو میں ریسرچ اسکالر ہیں۔)