اگر حکومتیں بچوں کی ابتدائی دیکھ بھال اور حفاظت پر دھیان دیتیں، تو آج راکھی، مینو اور سیتا زندہ ہوتیں۔
مدھیہ پردیش کے چھتر پور ضلع کے چمرؤا پروا گاؤں میں 19 فروری 2018 کو گلجاری اہروار کے کھیت میں بنی ہوئی جھونپڑی میں شام قریب 4 بجے گلجاری کی 8 سال کی بیٹی خوشبو اور بھگوان داس کی 7 سال کی بیٹی مالا کھیلنے گئی تھیں۔تھوڑی دیر بعد بھگوان داس کی 3 سال کی چھوٹی بیٹی راکھی، پیارےلال اہروار کی 3 سال کی بیٹی مینو اور گلجاری کی 5 سال کی بیٹی سیتا بھی وہاں کھیلنے آ گئیں۔ ان بچّوں کے لئے کھیلنے کی یہی جگہ تھی۔
گلجاری لاگ اپنے رشتہ دار پیارےلال کی زمین پر ایک جھونپڑی بناکر رہ رہے تھے۔ وہ گاؤں میں ہی مزدوری کرکے اپنی فیملی کی پرورش کرکے زندگی گزار رہے تھے۔ روز کی طرح سوموار یعنی 19 فروری کو اپنی بیوی کے ساتھ کام پر نکل گیا تھا۔ دوسری طرف بھگوان داس مویشی چرانے کے لئے چلے گئے تھے۔
ایک فطری روٹین بن گیاتھا، جب فیملی کے کچھ ممبر گزر بسر کے لئے آمدنی حاصل کرنے کے مقصدسے بچّوں کو چھوڑکر نکل جاتے ہیں۔ یہاں بھی وہی فطری نظام تھا۔ گھاس-پھوس کی جھونپڑی میں پانچوں بچّیاں کھیل رہی تھیں۔کیا کھیل رہی تھیں؟ وہ ماچس سے بیڑی جلانے کا کھیل کھیل رہی تھیں۔ اسی کھیلکے دوران اچانک سے ماچس سے جھونپڑی میں آگ لگ گئی۔ آگ تیزی سے پھیلی۔ آگ کو دیکھ کر خوشبو اور مالا جان بچاکر باہر نکلیں۔
دونوں 7 اور 8 سال کی تھی، اس لئے تھوڑا خطرہ سمجھ گئیں تھی۔ وہ مدد مانگنے کے لئے بھاگیں۔ گاؤں کے لوگوں کو لےکر آئیں ؛ لیکن تب تک راکھی، مینو اور سیتا کی جھونپڑی کی آگ میں جل چکی تھیں۔ ان کی موت ہو گئی۔ تین بچّیاں کھیلتے کھیلتے جلکر مر گئیں۔ہمارے لئے سوال ہے کہ یہ تین بچّیاں کیوں مریں؟ کیا ان کی زندگی بچ سکتی تھی؟
انتظامیہ کو اس تکلیف دہ حادثے کی اطلاع ملی اور تمام بڑے افسر موقع واردات پر پہنچ گئے۔ پولیس نے شروعاتی تفتیش میں یہ جان لیا کہ یہ ایک حادثہ ہے اور اس میں کوئی جرم چھپا ہوا نہیں ہے۔ اس واقعہ میں کوئی مجرم بھی نہیں ہے۔ضلع انتظامیہ نے فوراً تینوں فیملی کے لئے چار چار لاکھ روپے کے معاوضے کا اعلان کر دیا۔ اس واقعہ کو مسئلہ نہیں مانا گیا، اس لئے اس کی وجہوں کا مطالعہ اور حل کا سوال ہی نہیں اٹھا!
اخباری ذرائع میں اس واقعہ کی فوری تفصیلات کی بنیاد پر تقریباً 200 الفاظ میں خبر بھی چھپی۔ اس واقعہ میں ذرائع کے لئے سیاسی و سماجی غیرذمہ داری کا نہیں، بلکہ انسانیت کا بحران کا ہی اخباری عنصر تھا۔گاؤں میں ان تین چھوٹی بچّیوں کی تکلیف دہ موت پر ماتم چھا گیا۔لیکن کہیں بھی راکھی، مینو اور سیتا کی موت کی وجوہات میںسماج او ر ریاست کے رولکی تحقیقات نہیں کی گئی ہے۔ اس کو حادثہ مان لیا گیا۔ انتظامیہ نے معاوضہ دے دیا اور سماج نے ماتم منا لیا۔
سچ تو یہ ہے کہ ان تینوں بچّوں کا غیرارادتاً قتل ہوا ہے۔ یہاں ہم سب ملزم ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہندوستان کے تقریباً 15 کروڑ چھوٹے بچّوں کے ماں باپ ان کو یوں ہی چھوڑکر کام پر جاتے ہیں۔ ان میں سے 6 کروڑ بچّے کم وزن اور غذائی قلت کے شکار بھی ہیں۔مزدوری سے ہی ان کا گھر چلتا ہے، کھانا ملتا ہے۔ ان بچّوں کو کسی طرح کے تحفظ کا حق نہیں ملتا ہے۔
3 ہی اختیار ہوتے ہیں-1۔ راکھی، مینو اور سیتا کی طرح ان کے ماں باپ بھی ان کو بنا دیکھ ریکھ کے چھوڑکر کام پر جائیں 2۔ یاپھر کام پر ہی نہ جائیں۔ 3۔ جب وہ کام پر جائیں، تو ان کو اپنے ساتھ رکھیں۔ آپ سوچئے، ان تین اختیارات میں سے کون سا ممکن ہے؟
موجودہ سماجی تانے بانے میں مشترکہ فیملی کی ساخت کمزور ہوئی ہے اور خواتین کے اقتصادی نظام میں کردار بڑھنے سے ان کی ذمہ داری دوہری ہوگئی ہے۔ ایسے میں بچّوں کی حفاظت سے سمجھوتہ بھی ہوا ہے کیونکہ بدلتے تناظر میں بچّوں کی دیکھ ریکھ اور تحفظ کے لئے جس طرح کی پالیسی، نظام اور ڈھانچہ تیارکیا جانا چاہئے تھا، وہ نہیں تیار کئے گئے۔
گلجاری، پیارےلال اور بھگوان داس کو کوئی اختیار نہیں دئے گئے تھے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو کسی محفوظ،ذمہ دار انتظام میں چھوڑکر کام پر جا پائیں۔ تینوں بچّے آنگن باڑی سے کھانا لےکر اس جھونپڑی میں پہنچے تھے۔ آنگن باڑی کا موجودہ نظام ایسا نہیں ہے کہ وہ ان تینوں بچّوں کو دن بھر اپنی دیکھ ریکھ میں رکھے۔ موجودہ شکل میں آنگن باڑی ایک غذائی تقسیم کےمرکز کا کردار نبھا رہی ہے۔
راکھی، مینو اور سیتا آج بھی زندہ ہوتیں، اگر ہندوستان اور ریاستوں کی حکومتوں نے طے کر لیا ہوتا کہ ہر آنگن باڑی مرکز کو بچہ دیکھ ریکھ اور مجموعی طور پر ان کی ترقی کےمرکز کی شکل دے دی جائےگی۔ اگر یہ ایسا مرکز ہوتا، جہاں بچّے دن بھر رہتے، آرام کرتے، وہاں ان کو مقوی غذا، بالیدگی کو بڑھانے والے کھیل اور خوداعتمادی بڑھانے والی سرگرمیوں سے جڑنے کا موقع ملتا۔
موجودہ نظام میں ہر بندوبست میں ہر بچّہ اور حاملہ اور رضاعی خواتین کو آنگن باڑی کے ذریعے چھ خدمات مہیا کرائے جانے کا اہتمام ہے، لیکن ان کے معیار پر بہت سے سوالات ہیں۔ اس کے علاوہ سب سے سنگین پہلو یہ ہے کہ یہ مرکز دن بھر نہیں چلتا ہے۔ یہ بچّوں کے آنے اور جانے کی جگہ ہے، ان کے وہاں رکنے کی نہیں۔
یہی وجہ رہی کہ یہ تینوں بچّیاں ابتدائی دیکھ ریکھ اور بال وکاس کیندر میں نہیں تھیں۔ وہ ایسی جگہ پر تھیں، جہاں کوئی ان کی دیکھ ریکھ کرنے کے لئے موجود نہیں تھا۔ وہ آگ سے کھیل رہی تھیں، ماچس سے بیڑی جلانے کا کھیل کھیل رہیں تھی۔اگر حکومت ہند اور ریاست کی حکومتوں نے بچوں کی ابتدائی نگرانی اور تحفظ کے نقطہ کو ہمدردی کے نقطہ نظر سے جانچ پڑتال کی ہوتی تو راکھی، مینو اور سیتا زندہ ہوتیں۔ ان کے ماں باپ بھی اطمینان کے ساتھ مزدوری کر پاتے اور بچّوں کو بہتر زندگی مل پاتی۔ آج ماں باپ ان کی موت کے لئے خود کو قصوروار مان رہے ہیں۔
مجھے یہ لکھنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ ہندوستان کی حکومتوں نے اس موضوع پر بےحد بے نیاز، غیرذمہ دار اور غیر حسّاس رخ رکھا ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ جنمکے بعدکے پہلے 5 سالوں میں ہمارا 90 فیصد دماغ تیار ہو جاتا ہے۔ باقی زندگی بھر ہم اس کا استعمال کرتے ہیں۔اسی عمر میں سب سے زیادہ تجسس ہوتا ہے۔ جاننے اور پرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بچّے کچھ بھی چکھکر ذائقہ جانچنا چاہتے ہیں، وہ کسی بھی گڈھے میں اترکر اس کی گہرائی جانچتے ہیں ؛ جبکہ ان کی صلاحیتیں اور تجربہ تقریباً برائے نام ہوتا ہے۔ ان کو تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح جسم کی اساس یعنی بنیادی ڈھانچہ بھی اسی عمر میں ایک روپ لے رہا ہوتا ہے۔
جس طرح ہمیں اپنے باغ میں لگے پودوں اور کھیت کی فصل کو سنبھالنے کی ضرورت ہوتی ہے، ٹھیک ویسے ہی بچّوں کی دیکھ ریکھ ہونی چاہیے، لیکن وہ نظرانداز کردئے جاتے ہیں۔میں کیوں کہہ رہا ہوں کہ راکھی، مینو اور سیتا کسی حادثہ کے شکار نہیں ہوئے ہیں، بلکہ یہ ایک غیردانستہ قتل کا معاملہ ہے۔
رجسٹرار جنرل اینڈ سینس کمشنر کے دفتر سے جاری رپورٹ ‘ اموات کی وجہ : 13-2010 ‘ کو پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ چوٹ بھی موت کی بڑی وجہ ہوتی ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق سبھی عمر میں ہوئی اموات کے 4.7 فیصد معاملوں میں چوٹیں موت کی وجہ ہوتی ہیں، لیکن 1 سے 4 سال کی عمر میں 16.9 فیصد (یعنی اوسط سے چارگنا زیادہ) کیس میں موت کی وجہ چوٹیں ہوتی ہیں۔
اس عمر میں اموات کی یہ تیسری سب سے بڑی وجہ بن گئی ہے۔ کب، کیوں اور کیسے لگتی ہیں یہ چوٹیں کہ بچّوں کی موت ہو جاتی ہے؟ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ ہمارے بچّے صرف بیماری سے ہی نہیں، بلکہ دیکھ ریکھ اور حفاظت کی کمی سے بھی مر رہے ہیں۔سال 1992 میں آگرہ کے ایس این ہسپتال میں ایک مطالعہ سے پتا چلا کہ ایک سال میں وہاں بھرتی ہوئے 5031 بچّوں میں سے 716 بچّے حادثات کی وجہ سے وہاں بھرتی ہوئے تھے۔ ان میں سب سے بڑی تعداد 4 سے 5 سال کی عمر کے بچّوں کی تھی۔ 44.4 فیصد بچّے گرنے کی وجہ سے زخمی ہوئے تھے۔ 82 بچّے جلنے کی وجہ سے زخمی ہوئے تھے اور 45 بچّوں نے گھر میں ہی زہریلا سامان کا استعمال کر لیا تھا۔
ان حادثات (48.9 فیصد) کا وقت دوپہر 12 سے شام 6 بجے کے بیچ میں پایا گیا۔ مطالعہ بتاتے ہیں کہ جب محروم طبقوں کے بچّوں کو اچّھی آنگن باڑی خدمات ملیں تو اسکول چھوڑنے والے بچّوں کی تعداد میں 46 فیصد کی کمی آئی۔ (چترویدی اور دیگر، 1987)
اگر تمام بچوں کو ابتدائی دیکھ بھال، ترقی اور ترقیاتی خدمات ملیں تو، اپنے درمیان امتیازی سلوک میں کمی آتی ہے، ان کی صحت اچّھی ہوتی ہے، تخلیقی سوچ کی ترقی ہوتی ہے اور وہ خود کو کمزور نہیں مانتے ہیں۔اگر ہم سماج کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں، تو یہ خواہش بچّوں کی ابتدائی دیکھ بھال اور ترقی کی آئینی قانونی اور سیاسی پہل کے بغیر پوری ہونی نہیں ہوسکتی ہے۔
ہم بچّوں کی ابتدائی دیکھ بھال اور حفاظت کے جس موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں، وہ نیا موضوع نہیں ہے۔ ہندوستان کے 13 قوانین، 13 پالیسیوں اور اقوام متحدہ کے ذریعے جاری 3 بین الاقوامی معاہدہ / سمجھوتہ میں اس کا ذکر ہے۔بچّوں کے اس حق کا مطلب ہے کہ ان کو ان کی عمر اور ضرورت کے مطابق پرورش، صحت، حفاظت-تحفظ، پیار-ہمدردی، دیکھ بھال اور ترقی کے لئے حوصلہ افزائی کی دستیابی ہونا۔
درحقیقت فیملی اور کمیونٹی کی سطح پر بچّے کی ہمدردی اور تحفظ کا نظام ہونا چاہئے، لیکن ترقی کی موجودہ تعریف میں فیملی اور کمیونٹی کو اس معاملے میں بھی کمزور بنایا ہے۔ہم توقع کرتے تھے کہ نظام میں فطری تبدیلی ہونی چاہئے، اس میں سے استحصال اور برائیاں ہٹنی چاہئے تھیں، لیکن اقتصادی ترقی کی موجودہ پالیسیوں نے ایک طرف تو سماج کو کمزور بنایا، بچّوں کی ترقی اور تحفظ کے عمومی ڈھانچوں کو کمزور کیا، غریبی اور عدم مساوات کو بڑھایا ہے، تو وہیں دوسری طرف ریاستی نظام نے اپنی ذمہ داریوں کو ذمہ داری سے اپنانے کی جلدی کبھی نہیں دکھائی۔
ہندوستان میں سال 2013 میں ابتدائی دیکھ بھال اور تعلیم (ای سی سی ای پالیسی-2013) کی پالیسی بنی ؛ جو کہتی ہے کہ صحت مند بچّے کا ہدف حاملہ اور مادری خواتین کے حقوق کو متعین کئے بنا حاصل کر پانا ممکن نہیں ہے۔خواتین کے حق تبھی متعین ہوںگے، جب فیملی کے زندہ رہنے، اقتصادی،سماجی،ثقافتی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔ اگر مادریت کا حق (حالت حمل کے دوران آرام، اقتصادی مدد، صحت خدمات، پروقار حساس عمل وغیرہ) نہیں ملیںگے، تو طے ہے کہ نہ تو بچّے کو ماں کا دودھ مل پائےگا، نہ ہی اس کی دیکھ بھال ہو پائےگی۔اس پالیسی کو نافذ کرنے کے لئے کوئی پختہ پروگرام نہیں بنا۔ اسی سال نیشنل فوڈ سیفٹی قانون بنا، جس میں ہر حاملہ خاتون کو 6000 روپے دینے کا نظام کیا گیا ؛ پر حکومتیں غیر جانب دار رہیں۔4 سال تک اس اہتمام پر کوئی بات نہیں کی گئی، جب عمل آوری شروع کی تو اس میں ایک بچّے تک ہی حق دینے کا اہتمام کیا گیا اور درخواست کے عمل کو اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا کہ سماج خود اس سرکاری اسکیم سے ڈر گیا۔
ہندوستان کی سطح پر سال 2018 میں ا س کی عمل آوری کے لئے 17 ہزار کروڑ روپے کی ضرورت تھی، پر حکومت نے 2400 کروڑ روپے کا ہی اہتمام کیا۔ای سی سی ای پالیسی-2013 میں بچّوں کی ترقی کے حصے کو کم ہی اہمیت ملی ہے۔ پوری جدّو جہد اسکول اور سابقہ تعلیم پر ہے، تاکہ بازار کے لئے خادم تیار کئے جا سکیں، ملک کے لئے قابل شہری تیار کرنا ابھی ترجیح میں نہیں ہے۔
اس کی دوسری طرف حکومت ہند پوری شدّت سے دو کوششیں کر رہی ہے-1 Integrated Child Development Services میں نقد منتقلی کا اہتمام لانا یعنی مجموعی خدمتوں کے بدلے فیملی کو نقد رقم دیا جانا۔ 2۔ تین سال تک کے بچّوں کی پرورش اور ناقص غذائی انتظام وانصرام کو صحت نظام سے جوڑنا اور تین سال سے زیادہ عمر کے بچّوں کو تعلیم کے حق کے قانون کے تحت لانا، جہاں ان کو تعلیم اور پرورش مل سکے۔ اس تناظر میں کچھ دلیل اہم ہیں، مثلاً تین سال تک کے بچّوں کو سب سے زیادہ تحفظ اور نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ ملک بھر میں آنگن باڑی نظام میں پیکیٹ بند مقوی غذا (ٹیک ہوم راشن-ٹی ایچ آر) کا اہتمام کرکے ان تمام بچّوں کو باقاعدہ نگرانی سے باہر کر دیا گیا اور سماجی و سیاسی پالیسی سے متعلق گروہ خاموش ہی رہے۔ اگر ہم آنگن باڑی کو جھولاگھر کی شکل میں دن بھر چلنے والا ادارہ کے طور پر قائم کر پاتے، تو 7 کروڑ بچّے دیکھ بھال اور تحفظ سے باہر نہیں ہوتے۔راکھی، مینو اور سیتا کو دھیان میں رکھکر خیال کیجئے کہ کیا کسی بھی صورت میں نقد منتقلی کے نظام سے بچّوں کی حفاظت متعین ہو پائےگی؟ اس کے لئے ان کی فیملی کو روزگار، خواتین کو ان کے حق اور بچّوں کو دیکھ بھال کا حق دینا ہوگا۔
ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کیا اصل میں 3 سال کی عمر سے بچّوں کو ادارہ جاتی تعلیم دیا جانا مناسب ہے؟ مختلف مطالعہ بتاتے ہیں کہ 5 سال کی عمر تک بچّوں کو فیملی اور سماج سے جڑنے کا موقع ملنا چاہئے اور ایک نظام میں ان کو سیکھنے میں مدد کی جانی چاہئے۔ہندوستان ابھی جس طرح کی تعلیم اور ترقی کی پالیسی پرعمل کر رہا ہے، وہ بچّوں کے مفاد اور شہری نظام کے مطابق نہیں ہے۔ پچھلے ایک دہائی سے یہ مانگ ہوتی رہی ہے کہ ہندوستان میں Integrated Child Development Services کے تحت چل رہے 14 لاکھ آنگن باڑی مراکز کو جھولاگھر (ابتدائی دیکھ بھال اور ترقی مرکز) میں تبدیل کر دیا جائے۔ اس کے لئے کافی وسائل مختص ہوں۔
اس مسئلے پر بھی حکومتیں بےحد غیر جانب دار رہی ہیں۔ دلیل دی جاتی ہے کہ حکومت کے پاس اقتصادی وسائل نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش میں 6 سال کی عمر تک کے 1.10 کروڑ بچّوں اور 30 لاکھ حاملہ خواتین کے لئے 5.22 روپے روزانہ کے اوسط سے سال 2017-18 میں کل 2670 کروڑ روپے کا اہتمام کیا گیا، پر مدھیہ پردیش میں سال 2013 سے 2017 کے درمیان مذہبی اور سیاسی تہواروں اورتقریبات میں 8300 کروڑ روپے خرچکردئے گئے۔اس سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ موجودہ ہندوستان میں راکھی، مینو اور سیتا جیسے 15 کروڑ بچّوں سے سیاسی جماعتیںاور حکومتوں کے وابستہ مفاد میں یقین نہیں ہے، اس لئے ان کو آئینی تحفظ نہیں دیا جاتا ہے۔ہندوستان میں ایک ادارہ ہے-نیتی آیوگ۔ اس کو تھنک ٹینک کہا جاتا ہے۔ یہ ادارہ سوچتا بہت ہے۔ نیتی آیوگ نے نریشنگ انڈیا (نیشنل نیوٹریشن اسٹریٹیجی) نام کی ایک کتاب نکالی ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ غذائی قلت سے ہماری ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
نیتی آیوگ کی پوری سوچ ابتدائی دیکھ بھال کے پہلو کے بغیر غذائی قلت سے آزادی کے ہدف پر مرکوز ہے۔ یہ آئرن، وٹامن-اے، دودھ پینا وغیرہ پر بات کر رہی ہے، لیکن آنگن باڑی مراکز کو لازمی طور سے بچہ کی دیکھ بھال-ترقی مراکز کی شکل میں تبدیل کرنے کے پہلو پر وہ خاموش ہی ہے۔ یہ منظور نہیں کرتا ہے کہ بنا دیکھ بھال اور تحفظ کی پرورش اور زندگی کا حق ممکن نہیں ہے۔
اب حکومتیں بھی بتانے لگی ہیں کہ مسئلہ بڑا ہے اور یہ ہونا چاہئے وہ بھی ہونا چاہئے ؛ وہ بس یہ نہیں کہتیں کہ ہم کریںگے اور بدلیںگے حالات! نیتی آیوگ کا کام بچّوں کے مدعوں پر ریاست کے کردار کو محدود کرنا کیوں بن رہا ہ!صحت سے متعقل مشہور ریسرچ جرنل دی لینسیٹ نے بچوں کی ابتدائی ترقی پر شائع سریز (سال 2016) میں لکھا ہے کہ دنیا کے کم اور متوسط ذریعہ آمدنی والے ممالک میں 5 سال سے کم عمر کے 25 کروڑ بچّے ایسے خطرے میں ہیں، جہاں وہ ترقی کے حاصل کرنے والی سطح تک نہیں پہنچ سکیںگے۔زندگی میں بحران کی وجہ سے ان کی طبعی اور ذہنی بالیدگی کو تحفظ نہیں مل پا رہا ہے۔ دی لینسیٹ بچّوں کی دیکھ بھال کے پانچ پہلو تجویز کرتا ہے-صحت، پرورش، حفاظت اور احتیاط، جواب دہ دیکھ بھال اور شروعاتی آموزش / سیکھنا۔ ان پانچ عنصر کو شامل کرکے بنائی گئی پالیسی ہمارے بچّوں کو محفوظ بنائےگی۔
(مضمون نگار سماجی محقق، کارکن اور اشوکا فیلو ہیں۔)
Categories: فکر و نظر