دس لاکھ بینکروں کی فیملی میں چالیس لاکھ لوگ ہوںگے۔ اگر چالیس لاکھ کے سیمپل کی تکلیف اتنی خوفناک ہے تو آپ اس تصویر کو کسانوں اور بےروزگار نوجوانوں کے ساتھ ملاکر دیکھئے۔ کچھ کیجئے۔ کچھ بولئے۔ ڈریے مت۔
بینک ملازمین کے سیکڑوں میسیج پڑھ گیا۔ ان کی پریشانی تو واقعی بھیانک ہے۔ کیا کسی کو ڈر نہیں ہے کہ دس لاکھ لوگوں کی یہ جماعت اس کو کتنا سیاسی نقصان پہنچا سکتا ہے؟ کئی دنوں سے ہزاروں میسیج پڑھتے ہوئے یہی لگا کہ بینک کے ملازم اور افسر شدید ذہنی کشیدگی سے گزر رہے ہیں۔ ان کے اندر کی گھٹن حد پار کر گئی ہے۔
آج جب بینکوں کو بیچنے کی بات ہو رہی ہے تو یاد آیا ہے کہ تب کیوں نہیں ہو رہی تھی جب نوٹ بندی ہو رہی تھی۔ جب بینک ملازم رات رات بھر بینکوں میں رک کر ملک کے ساتھ کئے ایک نیشنل کرائم سے لوگوں کو بچا رہے تھے۔ کارپوریٹ کا کپتان تب کیوں نہیں بینکوں کو بیچنے کی بات کرتا ہے جب وہ دباؤ بناکر سرکاری بینکوں سے لون لیتا ہے۔ تب بینکوں کو بیچنے کی بات کیوں نہیں ہوئی جب وزیر اعظم کے نام سے بنی اسکیموں کو لوگوں تک پہنچانا تھا؟
ایک بینک نے اپنے ملازمین سے کہا ہے کہ اپنے بینک کا شیئر خریدیں۔ پہلے بھی بینک ملازمین کو اپنے شیئر دیتے رہے ہیں مگر اس بار ان سے جبراً خریدنے کو کہا جا رہا ہے۔ کچھ معاملوں میں کم تنخواہ کے باوجود بھی زیادہ شیئر خریدنے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے۔ کیا اس طرح سے بینکوں کے گرتے شیئر کو بچایا جا رہا ہے؟ زونل ہیڈ کے ذریعے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ شیئر خریدے گئے یا نہیں۔
اس بینک ملازم نے بتایا کہ تنخواہ کی اہلیت سے تین گنا زیادہ دام پر شیئر خریدنے کے لئے مجبور کیا گیا ہے۔ اس کے لئے ان سے اوور ڈرافٹ کروایا جا رہا ہے۔ ان کی ایف ڈی اور ایل آئی سی پر لون دیا جا رہا ہے تاکہ وہ ایک لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپے کا شیئر خریدیں۔ یہاں تک کہ 7000 کمانے والے سویپر پر بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ 10000 روپے کا شیئر خریدے۔
یہ تو حد درجے کا گھوٹالہ چل رہا ہے۔ ایک قسم کی ڈکیتی ہے۔ کسی کو شیئر خریدنے کے اختیار دئے جا سکتے ہیں، ان سے جبراً خریدنے کو کیسے بولا جا سکتا ہے۔آج بینک ، بینک کا کام نہیں کر رہے ہیں۔ بینک کا کام ہوتا ہے پیسوں کی آمد ورفت کو بنائے رکھنا۔ ان پر دوسرے کام لادے جا رہے ہیں۔ اس کو کراس سیلنگ کہتے ہیں۔ اس کراس سیلنگ نے بینکوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔
بینکوں کے کاؤنٹر سے insurance، life insurance، two wheeler insurance، four wheeler insurance، mutual fund بیچے جا رہے ہیں۔ ان میں 20 فیصدکمیشن ہوتا ہے۔ جب تک کوئی ان مصنوعات کو نہیں خریدتا ہے، اس کا لون پاس نہیں ہوتا ہے۔ اس کے لئے Branch Manager سے لےکر ڈائریکٹر تک کا کمیشن بندھا ہے۔ کچھ معاملوں میں اوپر کے لوگوں کو کمیشن10-20 کروڑ تک ہو جاتے ہیں۔ ایسا کئی میسیج سے پتا چلا ہے۔
ایک خاتون بینک ملازم کی بات صحیح لگی کہ کمیشن کا پیسہ پوری برانچ یا بینک کے ملازمین میں برابر سے کیوں نہیں تقسیم ہوتا ہے؟ کیوں اوپر کے افسر کو زیادہ ملتا ہے، نیچے والے کو کم ملتا ہے؟ یہی نہیں ان مصنوعات کو بیچنے کے لئے ریجنل آفس سے دباؤ بنایا جاتا ہے۔ روزانہ رپورٹ مانگی جاتی ہے۔ انکار کرنے پر ڈانٹ پڑتی ہے اور تبادلے کا خوف دکھایا جاتا ہے۔
بینک ملازم وزیر اعظم کے نام سے بنی بیمہ اسکیموں کو بھی بیچنے کے لئے مجبور کئے جا رہے ہیں۔ کسان کو پتا نہیں مگر اس کے کھاتے سے بیمہ کی رقم کاٹی جا رہی ہے۔ اس کا سیدھا فائدہ کس کو ہوا؟ بیمہ کمپنی کو، بیمہ کمپنی کہاں تو ان کاموں کے لئے ہزاروں کو روزگار دیتی مگر بینکوں کے اسٹاف کا ہی خون چوسکر اپنی پالیسی بیچ گئیں۔ شکر منائیے کہ ہندو مسلم کی ہوا چلائی گئی ورنہ ان مدعوں پر گفتگو ہوتی تو پتا چلتا کہ آپ کے خزانے پر کیسے کیسے ڈاکے ڈالے گئے ہیں۔
بینک شاخوں میں اسٹاف کی خوفناک حد تک کمی ہے۔ نئی بھرتی نہیں ہو رہی ہے۔ بےروزگار سڑک پر ہیں۔ جہاں 6 لوگ ہونے چاہئے وہاں 3 لوگ کام کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے دباؤ میں ملازمین سے غلطی ہوتی ہے۔ ایک معاملے میں دو ملازمین کو اپنی جیب سے 9 لاکھ روپے بھرنے پڑ گئے۔ سوچئے ان کی کیا دماغی حالت ہوئی ہوگی۔
بینکوں میں نوٹ بندی کے وقت کیشئر نہیں تھے۔ سب کو بنا کاؤنٹگ مشین کے نوٹ لینے اور دینے کے کام میں لگا دیا گیا۔ گنتی میں فرق آیا تو بڑی تعداد میں بینک ملازمیننے اپنی جیب سے بھرپائی کی۔ کاش ایسے لوگوں کی تعداد اور رقم کا اندازہ ہوتا تو ان کا بھی نام ایک فرضی جنگ کے شہیدوں میں لکھا جاتا۔
بینک ملازمین سے کہا جا رہا ہے کہ آپ Mutual فنڈ بھی بیچیں۔ عام لوگوں کو سمجھایا جا رہا ہے کہ ایف ڈی سے زیادہ پیسہ فنڈ میں ہیں۔ ایک ملازم نے اپنے خط میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عام لوگوں کی بچت کے اربوں روپیہ شیئر بازار میں پمپ کیا جا رہا ہے۔ جس دن یہ بازار گرا عام لوگ لٹ جائیںگے۔
بینکوں کے بنیادی ڈھانچے خراب ہیں۔ کئی شاخوں میں بیت الخلا تک ڈھنگ کے نہیں ہیں۔ خواتین کے لئے الگ سے بیت الخلا تک نہیں ہے۔ کولر نہیں ہے۔ انٹرنیٹ کی اسپیڈ کافی کم ہے۔ بینکوں کو 64 کے بی پی ایس کی اسپیڈ دی جاتی ہے اور ڈیجیٹل انڈیا کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ بینک ملازم خطرناک تناؤ میں ہیں۔ وہ طرح طرح کی بیماریوں کے شکار ہو رہے ہیں۔ سروائکل، سلپ ڈسک، موٹاپا، وٹامن ڈی کی کمی کے شکار ہو رہے ہیں۔
بینک ملازمین کی تنخواہ نہیں بڑھائی جا رہی ہے۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ مرکزی حکومت کا چپراسی بھی اب بینکوں کے کلرک سے زیادہ کما رہا ہے۔ کام زیادہ کلرک کر رہے ہیں۔ دہلی جیسے شہر میں بینک کا کلرک 19000 میں کیسے فیملی چلاتا ہے، ہم نے تو کبھی سوچا بھی نہیں۔ خوفناک ہے۔
سیکڑوں میسیج میں بینک ملازمین افسروں نے لکھا ہے کہ صبح 10 بجے سے رات کے 11 بجے تک کام کرتے ہیں۔ چھٹی نہیں ملتی ہے۔ اتوار کو بھی حکومت کا ٹارگیٹ پورا کرنے کے لئے آنا پڑتا ہے۔ اوپر سے اب ضلع مجسٹریٹ بھی ٹارگیٹ کو لےکر دھمکاتے ہیں۔ جیل بھیجنے کی دھمکی دیتے ہیں۔
ایک بینک ملازم نے معقول بات بتائی۔ سرکاری بینک کے ملازم جو قومی خدمات کرتے ہیں کیا کوئی دوسرا بینک کرےگا۔ کیا کوئی پرائیویٹ بینک کسی غریب مزدور کا منریگا اکاؤنٹ رکھےگا؟ کیا پرائیویٹ بینک اسکول فنڈ کا کھاتا کھولیںگے؟ ان کھاتوں میں200-300 روپے جمع ہوتا ہے۔ اولڈ ایج پینشن سے لےکر آنگن باڑی عملہ کی تنخواہ انہی بینکوں میں آتی ہے جو 200 سے 2500 روپے سے زیادہ نہیں ہوتی ہے۔ جو غریب بچہ 1000 روپے اسکالرشپ کے لئے ہر روز بینک کا چکر لگتا ہے کیا وہ 500 روپے ہرسال ATM چارج کٹوا پائےگا۔
شمالی بہار دیہی بینک RRBs میں شاخوں کی تعداد کے مدنظر ہندوستان کا سب سے بڑا بینک ہے اور RRBs میں کاروبار کی نظر سے 8 واں سب سے بڑا بینک ہے۔ لیکن یہاں انسانی وسائل کی انتہائی کمی ہے۔ 1032 شاخوں میں سے 900 کے آس پاس شاخوں میں صرف 2 ملازم ملیںگے جس میں ایک دفتر معاون دوسرا BM۔ جبکہ ہر شاخ میں اوسطاً 12000 کھاتے ہیں۔ جس میں گاہکوں کو ساری سہولیات دینے کی ذمہ داری اکیلا دفتر معاون کا ہے BM KCC renewal اور دیگرکریڈٹ اکاؤنٹس کے قرض وصولی کے نام پر 10 سے 5 بجے تک علاقہ کے دورے پر رہتے ہیں۔ جبکہ بینکنگ اصول کے مطابق تمام شاخوں میں makers-checker concept پر کام ہونا چاہئے۔ اس طرح سے مکمل طورپر اس اصول کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ بہار ہندوستان میں 20 فروری کی خبر ہے کہ نوجوان بینک ملازم گرامین بینک چھوڑ رہے ہیں۔ 15 نے استعفیٰ دے دیا ہے۔
حکومت کو فوراً بینکروں کی تنخواہ اور کام کے بارے میں ایمانداری سے حساب رکھنا چاہئے۔ آواز دبا دینے سے سچ نہیں دب جاتا ہے۔ وہ کسی اور راستے سے نکل آئےگی۔ بینکوں کا گلا گھونٹکر اس کو پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں تھما دینے کی یہ چال انتخاب جیتوا سکتی ہے مگر سماج میں خوشیاں نہیں آئیںگی۔ بہت سے لوگوں نے اپنے میسیج کے ساتھ بینک ملازمین کی خودکشی کی خبروں کی کلیپنگ بھیجی ہے۔ پتا نہیں اس ملک میں کیا کیا ہو رہا ہے۔ میڈیا کے ذریعے جو قصّہ رچا جا رہا ہے وہ کتنا الگ ہے۔ دس لاکھ بینکروں کی فیملی میں چالیس لاکھ لوگ ہوںگے۔ اگر چالیس لاکھ کے سیمپل کی تکلیف اتنی خوفناک ہے تو آپ اس تصویر کو کسانوں اور بےروزگار نوجوانوں کے ساتھ ملاکر دیکھئے۔ کچھ کیجئے۔ کچھ بولئے۔ ڈریے مت۔
نوٹ : یہ مضمون بینکروں کی بتائی تکلیف کا دستاویز ہے۔ انہوں نے جیسا کہا، ہم نے ویسا لکھ دیا۔ ایک ہندو مسلم دیوانگی کے پیچھے ملک کے لوگوں کو کیا کیا سہنا پڑ رہا ہے۔
Categories: فکر و نظر