’وحشیانہ بمبار ی شروع ہونے کے بعد غوطہ سے جو تصویریں یا مناظر ہم تک پہنچ رہے ہیں وہ خون اور تباہ شدہ گھروں کے گردوغبار سے آلودہ انسانوں کی تصویریں ہیں جس میں وہ یا تو آخری سانسیں لے رہے ہیں یا ان کی سانسیں بند ہوچکی ہیں۔‘
گذشتہ ہفتہ کی سب سے اہم خبر شامی حکومت کا مشرقی غوطہ پر بمباری ہے،ہفتہ بھر جاری رہنے والی اس بمباری میں “الشرق الاوسط “اور دیگر اخبارات کے مطابق 520سے زائدافراد کی ہلاکت اور 2500 اشخاص کےزخمی ہونے کی خبر ہے۔ یہ خبر پورے ہفتہ کسی نہ کسی صورت میں شائع ہوتی رہی۔ غوطہ کے دھماکہ خیز حالات کا نوٹس لیتے ہوئے کویت اور سویڈن نے سیکوریٹی کونسل میں جنگ بندی کی قرار داد پیش کی ۔ اس قرارداد پرہونے والے منتھن اور لفظی جنگ بھی مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کی میڈیا میں خبروں،تبصروں ،تجزیوں اوراداریوں کی شکل میں شائع ہوئے ۔ آئیے شروعات کرتے ہیں ، سیکوریٹی کونسل کی جنگ بندی کی خبر سے۔
“اخبارالخلیج” بحرین کا ایک کثیر الاشاعت اخبار ہے۔ اخبار کی ہیڈنگ ہے” سیکوریٹی کونسل میں ووٹنگ سےپہلے مشرقی غوطہ پر بموں کی بارش”سیکوریٹی کونسل میں ووٹنگ سے تھوڑا پہلے تک ،اسدی افواج نے لگاتار چھٹے دن مشرقی غوطہ میں بمباری جاری رکھی۔ اس قرارداد کی رو سے شام میں 30 دنوں کےلیے مکمل طور پر لڑائی بند ہوجائے گی اور لاکھوں شہریوں کی پریشانیوں میں تھوڑی کمی آئے گی۔ پچھلے اتورا یعنی 18 فروری 2018 سے جمعہ کی شام تک تقریبا 468 افراد فضائی حملوں،میزائلوں اور توپ کےدھماکوں سے مارے گئے ۔جس نے غوطہ کے مختلف علاقوں کو نشانہ بنایا۔ یہ علاقہ شامی اپوزیشن کا آخری قلعہ تصور کیا جارہاہے۔468 ہلاک ہونے والوں میں بچوں کی تعداد 109 ہے ۔ روسی اعتراضات کی وجہ سے 23 فروری 2018 جمعہ کے دن دومرتبہ میٹنگ ملتوی کرنے پڑی، شامی تنظیم برائے حقوق انسانی کے مطابق روسی طیارے غوطہ پر حملوں میں حصہ لے رہے ہیں اور صرف جمعہ کے دن 38 شہری ہلاک ہوئے جن میں بچوں کی تعداد 11 بتائی جارہی ہے۔
روسی اعتراضات کی وجہ سےجمعہ کے بجائے بالآخر سنیچر کی شام سیکوریٹی کونسل نے قرارداد نمبر 1401 پاس کیا جس کی رو سے غوطہ کا حصار ختم ہوگا اور 30 دنوں کےلیے مکمل جنگ بندی ہوگی، اور طبی امداد کی اجازت ہوگی۔ چونکہ اعتبار تنفیذ کا ہوتا ہے اس لیے سیکوریٹی کونسل کے صدر اور کویت کے نمائندہ نے تمام فریقوں کو فوری جنگ بندی پر عمل کرنے کےلیے کہا، جس میں امریکی نمائندہ نیکی ہیلی نے غوطہ،دمشق میں اسدی افواج پر عسکری کاروائی بند کرنے پر زوردیا اور یہ بھی کہا کہ قرارداد پر روس کے ٹال مٹول والے رویہ نے مزید جانوں کی ہلاکت کا موقع فراہم کیا۔ اسی دوران روسی نمائندہ کا یہ کہنا تھا ماسکو پر طعن وتشنیع کے بجائے عملی حل پر توجہ ہونی چاہیے اور شامی حکام سے براہ راست رابطہ ہونا چاہیے۔ اس سے پہلے روس کے تاخیری رویہ سے پریشان ہیلی نے اس ووٹنگ کو روس کے ضمیر کا امتحان قرار دیا تھا۔روزنامہ الشرق الاوسط نے یہ خبردی ہے۔
لندن سے شائع ہونے والے اخبار “ الحیاۃ” میں شام میں کھیلی جانے والی ہولی پر ایک تبصرہ عمر قدور نے لکھا ہے، اس کا عنوان ہے ، اسے نسل کشی کہا جائے یا صرف قتل عام ” تمہیدی کلمات کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ وحشیانہ بمبار ی شروع ہونے کے بعد غوطہ سے جو تصویریں یا مناظر ہم تک پہنچ رہے ہیں وہ خون اور تباہ شدہ گھروں کے گردوغبار سے آلودہ انسانوں کی تصویریں ہیں جس میں وہ یا تو آخری سانسیں لے رہے ہیں یا ان کی سانسیں بند ہوچکی ہیں۔ کچھ افراد ایسے ہیں جن کے اوپر یہ لمحہ آنے والا ہے لیکن انہیں ایک پیغام بھیجنے کا موقع مل گیا تاکہ وہ اپنے آپ سے کہہ سکے کسی دوسرے کو کہنے سے پہلے کہ وہ ابھی تک بمباری، فاقہ، اور ظلم وستم کے باوجود زند ہ اور یہ سب کچھ ہر لمحہ دیکھ رہا ہے۔ اسی درمیان ایک کراہتی ہوئی اواز سنی جاسکتی ہے جو یہ کہہ رہی ہے کہ کیا پچھلے سات سالوں سے شامیوں کا قتل نہیں ہورہا ہے؟ سوائے اس کے طریقہ قتل مختلف ہے۔ نیا کیا ہے کہ غوطہ کا مسئلہ اٹھایاجائے، اورغوطہ کے کئی سالوں کے محاصرہ کے بعد کیا ایسا نہیں لگ رہا تھا یہی انجام ہوگا۔اور جنگ کب رحم دل ہوتی ہے یا اس طرح کے المناک حوادث سے خالی ہوتی ہے۔اس پس منظر میں اور دوسری نسل کشی کے پس منظر میں یہ ایک منظم نسل کشی ہے ، لیکن علاقائی اور بین الاقوامی لیول پر کوئی اس کو ماننے کےلیے تیار نہیں ہے۔
مبصر عمر قدور مزید لکھتے ہیں کہ پچھلے سات سالوں کا رزلٹ یہ ہے کہ تقریبا ایک ملین افراد ہلاک ہوچکے ہیں، دو لاکھ سے زائد سلاخوں کے پیچھےہیں، ٹارچر اور تشدد نے کتنوں کو نگل لیا کسی کو کوئی خبر نہیں ہے اور چھ ملین سے زیادہ زبردستی ملک چھوڑنے پر مجبورکیے گئے ہیں، یہ رزلٹ اس منظم نسل کشی اور ڈیموگرافک تبدیلی کی نوعیت پر بحث کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی ہے، اس کے علاوہ کچھ ایرانی گروپ دباؤ اور مالی لالچ دیکر شیعہ بنانے کے مہم میں بھی پوری سرگرمی کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ یہ شامی مسئلہ کی نزاکت کم نہ کرے لیکن اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ ایک تہائی آبادی یا تو ختم کردی گئی یا ہجرت پر مجبورکی گئی، اس سے ہمیں شام کا مستبقل سمجھنے میں مدد ملے گی اور آج غوطہ کی حالت زار کو سمجھنے میں۔ سوشل میڈیا پر جس طرح سے اس حیوانیت اور بربریت کی تائید ہورہی ہے اس سے خطرہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
دریں اثنا ہندوستانی وزیر مالیات ارون جیٹلی کے سعودی عربیہ کے دورہ اور شاہ سلمان سے ان کی ملاقات کی خبر کوسعودی عرب کی راجدھانی ریاض سے شائع ہونے والے روزنامہ ” الریاض ” نے بڑے اہتمام کے ساتھ کئی کالموں میں شائع کیا ہے۔اس کے علاوہ اسی مئی میں بیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ کی منتقلی کی خبر سے فلسطین اور پورے مشرق وسطی میں بے چینی شروع ہوچکی ہے۔ کئی فلسطینی شہروں میں مظاہرے ہوئے اور ایک امریکی وفد پر ناراض فلسطینیوں نے انڈے بھی پھینکے۔روزنامہ الشرق الاوسط نےاس پر تفصیلی خبر شائع کی ہے۔
Categories: خبریں, عالمی خبریں