فکر و نظر

’ اسٹیل فریم‘ مسماری کے گواہ تھے سابق کیبنیٹ سکریٹری ٹی ایس آر سبرمنین

آئی اے ایس جیسے باوقار عہدےپر سیاسی دباؤ، اس میں پھیلتی بدعنوانی،لیڈروں کی جی حضوری اور اس  سے عوام کی بدگمانی کے خلاف ٹی ایس آر سبرمنین آخری وقت تک لڑتے رہے۔

فوٹو: فیس بک

فوٹو: فیس بک

کیبنیٹ سکریٹری (اگست 1996-مارچ 1998) اور اتر پردیش کے چیف سکریٹری (دسمبر 1992-اگست 1994) جیسے اہم اورباوقار عہدوں پر رہے ٹی ایس آر سبرمنین کی وفات ‘ اسٹیل فریم ‘ کہی جانے والی آئی اے ایس خدمات کے جاں باز سپاہی  اور سب سے بڑے ستون کا گرجانا ہے۔ان کے دوست اور معاون رہے افسر اگر آج ان کو ‘ ٹالیسٹ امنگ ٹال ‘ (عظیم ترین) کہہ‌کر قابل تعظیم سمجھتے  ہیں تو اس کی کئی وجہیں ہیں۔آئی اے ایس جیسے باوقار عہدے پر سیاسی دباؤ، اس میں پھیلتی بدعنوانی،لیڈروں کی جی حضوری اور اس  سے  عوام کی بدگمانی کے خلاف ٹی ایس آر سبرمنین آخری وقت تک لڑتے رہے۔  دو دہائی پہلے سبکدوش ہو جانے کے باوجود مختلف حکومتوں کے لئے وہ کبھی مشکل کشابنے تو کبھی آنکھ کی کرکری ۔

انتظامی اصلاحوں کی بات ہو یا ملک کے بدحال تعلیمی نظام کو پٹری پر لانے کی قواعد، حکومتوں کو سخت، تجربہ کار، سماج اور سرکاری نظام میں گہری مداخلت رکھنے والے ترمنی لیور سیتاپتی رمن سبرمنین ہی یاد آتے رہے۔تعلیمی نظام میں اصلاح کے لئے ان کی صدارت میں بنی ‘سبرمنین کمیٹی ‘ نے 2016 میں جو رپورٹ پیش کی وہ بنیادی تبدیلیوں کے لیے دیے گئے مشوروں کے لئے مشہور رہی ہے، حالانکہ اس پر ایمانداری سے پہل کی قوت ارادی آج تک نظر نہیں آئی ہے۔

یہ ٹی ایس آر ہی تھے جنہوں نے کئی دیگر اعلیٰ افسروں کے ساتھ مل‌کر سپریم کورٹ میں پی آئی ایل دائر کی تھی کہ آئی ایس ایس افسر لیڈروں کے زبانی احکام پرعمل کرنے کے لئے مجبور نہیں ہیں۔سپریم کورٹ  نے اس عرضی کو منظور کرتے ہوئے ایسا ہی حکم صادر  کیا تھا۔  سپریم کورٹ نے تب مرکزی حکومت کو یہ بھی ہدایت دی تھی کہ افسروں کے لئے ایک عہدے پر متعین مدت طے ہونی چاہیے، تاکہ بار بار تبادلوں سے مفاد عامہ کے کام میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔

ٹی ایس آر سبرمنین نے اپنی آئی اے ایس کمیونٹی، دیگر بڑے افسروں ، وزرا اور ایم ایل اے کی پول کھولنے کا کام بھی خوب کیا۔ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے ایک کتاب لکھی-Journey Through Babudom and Netaland جو 2004 میں شائع ہوئی تھی۔ 2006 میں ہندی میں اس کا ترجمہ ‘ بابوراج اور نیتانچل ‘کےعنوان سے شائع ہوا۔

یہ کتاب اس بات کی اہم دستاویز ہے کہ شروعات میں بڑی خدمت کے جذبے اور ایمانداری سے بھرے افسر کیسے آہستہ آہستہ بےایمان اور عوام مخالف ہونے لگتے ہیں، کیسے لیڈرانھیں بد عنوان بناتے ہیں، لیڈراور افسر مل‌کر کس طرح عوام کی رقم کی لوٹ مچاتے ہیں، بہت اچھی اسکیموں / پروگراموں کا فائدہ بھی عوام تک کیوں نہیں پہنچتا، لیڈروں  کا محبوب بن‌کر ملائی دار عہدہ پانے کے لئے افسر کیسے لیڈروں  کے تلوے چاٹتے ہیں اور ایماندار افسر کس طرح کنارے کر دیےجاتے ہیں۔اس کو انہوں نے اپنے تجربات اور مثالوں کے ساتھ لکھا ہے۔  ہم یہاں اس کتاب کے کچھ تبصروں کے ساتھ اپنی عوام مخالف ہوتی جا رہی جمہوریت اور سڑتے نظام کی جھلک دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

1965 میں سبرمنین اتر پردیش کے غازی پور ضلع‎ میں تعینات تھے۔  وہاں سوکھے کی حالت سے نمٹنے کے لئے حکومت نے بڑی رقم کے ساتھ لاکھوں کچے کنویں کھودنے کی اسکیم منظورکی۔ ا س کے جائزے کی ذمہ داری 1941 بیچ کے آئی سی ایس افسر اے ایم قریشی کو دی گئی تھی۔

سبرمنین لکھتے ہیں، ‘ ایک دن میں قریشی کے آنے سے پہلے غازی پور کے قریب بلیا کی سڑک سے جا رہا تھا۔  سڑک کے دونوں طرف بڑی تعداد میں لال جھنڈے لگے دکھے۔  پروجیکٹ آفیسر سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ قریشی صاحب نے ہر نئے کھودے گئے کچے کنویں پر لال جھنڈے لگانے کا حکم دیا ہے۔  میں نے ڈپٹ‌ کر کہا لیکن وہاں تو کنویں ہیں ہی نہیں۔  مجھے بتایا گیا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔  قریشی صاحب تو بنارس سے اپنے گھر بلیا جاتے وقت سڑک سے ہی لال جھنڈے  دیکھ‌کر لاکھوں کنویں کا جائزہ لے  لیتے ہیں۔ ‘وہ آگے لکھتے ہیں’ہندوستان میں قدرتی آفات، غم زدہ اور متاثر لوگوں کو چھوڑ‌ کر سب کو بڑی پیاری ہے۔  مقامی سیاست داں اور ملازم ایسے تکلیف دہ وقت پر پھولے نہیں سماتے کیونکہ اس سے ان کی چھپرپھاڑ آمدنی کے دن آ جاتے ہیں۔  آخر یہ نظام ہی ایسا بنایا ہوا ہے کہ عام آدمی کو چھوڑ‌ کر سب کے مفاد ذرائع کا مکمّل انتظام ہو۔  ‘

TRS-Subramanian-Book

اتر پردیش اسمال انڈسٹریزکارپوریشن کے منیجنگ ڈائریکٹر رہنے کے دوران کرپشن کی کئی کہانیاں ٹی ایس آر سبرمنین نے لکھی ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ اسمال انڈسٹریز کی ترقی کےبجائے افسر اور انجینئر مالامال ہو گئے۔وہ لکھتے ہیں، ‘ کارپوریشن کا ایک کام چھوٹی صنعتوں کو سرکاری کنٹرول والا سستا  کچامال، لوہا اور اسٹیل، وغیرہ دستیاب کرانا تھا۔  کئی چھوٹی صنعتیں کاغذوں پر قائم کی گئی تھیں۔  مختلف ناموں اور پتے میں تھوڑا فرق کرکے نامزدگی کرا لی جاتی تھی۔  ان کی طرف سے کچے مال کا کوٹا مانگا جاتا تھا۔  یہ مال کھلے بازار میں بیچ دیا جاتا تھا۔  ‘

‘ ایک لائق، ایماندار آئی اے ایس افسر کی تقرری صنعتی اکائیوں کے مشترکہ ڈائریکٹر کے روپ میں ہوئی تھی۔  اس نے ذاتی طور پر جانچ‌ کر کے بہت ساری فرضی اکائیوں کی نامزدگی منسوخ کر دی۔  ایک شام اس نو جوان کے گھر کئی حملہ آور گھسے اور اس پر چاقوؤں سے حملہ کر دیا۔  کئی دن ہسپتال میں رہ‌کر وہ بچ تو گیا لیکن اپنے عہدے کی اصلی ذمہ داری برداشت کرنے کی صلاحیت اس نے کھو دی۔ ‘

ایمرجنسی (1975-77) کے دوران اور اس کے بعد بھی کچھ عرصے تک ٹی ایس آر سبرمنین اتر پردیش میں تقرری محکمے کے سکریٹری تھے۔  اس دوران اچھی کرسی پانے اور اس پر ٹکے رہنے کے لیے آئی اے ایس افسروں کی پینترےبازی کی کہانیاں انہوں نے بیان کی ہیں۔ایک واقعہ چیف سکریٹری کی کرسی کا ہے۔ اس وقت کے چیف سکریٹری محمود بٹ سرکاری کام سے نیروبی گئے تھے۔  ان کے لوٹنے سے پہلے ہی کرپا نارائن شری واستو کو نئے چیف سکریٹری بنوانے کا حکم جاری کرنے کے لئے سبرمنین سے کہا گیا۔انہوں  نے لکھا ہے، ‘ میں نے وزیراعلی کے سکریٹری شری دھر سے صاف کہہ دیا کہ جب تک وزیراعلی کا تحریرکردہ دستخطی حکم نہیں ملے گا تب تک رسمی حکم جاری نہیں کیا جا سکتا۔  (وزیراعلی کا تحریرکردہ حکم آ جانے کے بعد) میں نے شری شری واستو کو مشورہ دیا کہ آپ کو ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے ایک رات رک‌کر شری بٹ سے ملنا چاہیے۔  پر شری واستو تو حکم ملنے کے ایک منٹ بعد ہی چیف سکریٹری کے کمرے میں جا کر کرسی پر جم گئے۔  انہوں نے میز کی درازیں خالی کرکے کاغذات رات میں ہی شری بٹ‌کے گھر بھجوا دئے۔  یہ ناشائستگی کی انتہا نہیں تو اور کیا تھی؟ ‘

ایمرجنسی ہٹنے کے بعد ہوئے انتخاب میں رام نریش یادو کی قیادت میں جنتا پارٹی کی حکومت بنی۔  سبرمنین کے مطابق، ‘ نئی حکومت کے آتے ہی انتظامیہ کا پورا کردار بدل گیا۔  ایمرجنسی کے مظالم کا جے جے کار کرنے والے اب دوسرا مکھوٹا لگا کر آ گئے۔  اپنی خود غرضی کے لئے وہ ایسے رنگ بدلتے ہیں کہ گرگٹ بھی شرما جائے۔  یہی وجہ تھی کہ شری واستو نئی حکومت میں بھی چیف سکریٹری بنے رہے۔  ‘

یوپی کے گورنر رہے چینا ریڈی کی دیر شام راج بھون میں مہیلا ملن کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ ‘ مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے کہ ان زائرین میں کچھ افسروں کی بیویاں بھی ہوتی تھیں۔  ‘

لمبے وقت تک دہلی اور جنیوا میں مختلف ذمہ داری سنبھالنے کے بعد 1990 میں ٹی ایس آر سبرمنین اتر پردیش لوٹے۔ اس سال منعقد ‘ آئی اے ایس سیوا سپتاہ ‘ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے، ‘ ملائم سنگھ یادو وزیراعلی کی حیثیت سے خصوصی مہمان تھے۔  تقریبا دو سو آئی اے ایس افسروں کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جو کہا اس نے میری نیند اڑا دی۔ ‘انہوں نے جو کہا وہ اس طرح ہے، ‘ آپ کے پاس اعلیٰ دماغ اور تعلیم ہے۔  آپ میں سے کچھ بڑے اسکالر ہیں۔  کچھ تو ایسے اسکالر ہیں جن کے پاس نوبل انعام جیتنے لائق دماغ ہے۔  آپ کے پاس بہترین نوکری ہے۔  آپ بچوں کو اچھی تعلیم دلا سکتے ہیں۔  (پھر آواز اونچی کرتے ہوئے) پھر آپ میرے پاس آکر میرے پیر کیوں چھوتے ہو؟  میرے جوتے کیوں چاٹتے ہو؟  اپنے ذاتی مفاد کے لئے آپ میرے پاس کیوں آتے ہو؟  اگر آپ ایسا کرو‌گے تو میں آپ کی خواہش کے مطابق  کام کر دوں‌گا اور پھر آپ سے اپنی قیمت وصول کروں‌گا۔’یہ عجیب وغریب بیان تھا۔  اس نے مختصر انداز میں صورتحال کا خلاصہ پیش کر دیا اور اس اسٹیل فریم کے مسماری کی صحیح  وجہ بتا دی۔

ٹی ایس آر سبرمنین نے  یہ بھی نتیجہ نکالا کہ، ‘ زیادہ تر نوجوان افسر متوسط  درجے کے نہیں ہوتے۔  وہ لائق، ہونہار، پرجوش اور کام کے تئیں مکمل طورپر وقف ہوتے ہیں۔  مقامی دباؤ سے نمٹ سکنے کی صلاحیت کے ساتھ ان میں سچائی، سمجھ اور علم کی طاقت ہوتی ہے۔۔۔ لیکن انتظامی ماحول جلد ہی ان کو مثالی پبلک سرونٹ سے حقیر اور مفاد پرست بابو ؤں میں بدل دیتا ہے۔  ‘

مضمون نگار ہندوستان اخبار کے لکھنؤ ایڈیشن کے  ایگزیکٹو ایڈیٹر رہے ہیں۔