ابھی نتیجہ آنے کے بعد الگ الگ اینگل سے تجزیہ ہوگا کہ آخر عوام نے مانک سرکار کو کیوں رجیکٹ کر دیا، لیکن فی الحال ایک بات بالکل اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے۔ وہ یہ، کہ ہندوستان کی سیاست میں کسی عوامی نمائندے کی غریبی کی اب سیاسی قیمت نہیں رہ گئی ہے۔
کمیونسٹ سیاست کا آخری گڑھ تریپورہ درک چکا ہے۔ ووٹ کی گنتی جاری ہے لیکن خبر لکھے جانے تک بھارتیہ جنتا پارٹی، جو آج سے پانچ سال پہلے یہاں کہیں نہیں تھی، دوتہائی اکثریت کی طرف بڑھتی دکھ رہی ہے۔ ادھر ملک کے سب سے غریب وزیراعلیٰ مانک سرکار کو ریاست کی عوام نے 20 سال کی مسلسل حکومت کے بعد الوداع کہہ دیا ہے۔
مانک سرکار نے 18 فروری کو جب دھن پور اسمبلی حلقہ سے پرچہ داخل کیا تھا، تو الیکشن کمیشن میں دئے ان کے حلف نامہ کے مطابق ان کی جیب میں 1520 روپیہ نقدی تھی اور بینک کھاتے میں محض 2410 روپے تھے۔ سی پی ایم کی پولت بیورو کے ممبر مانک سرکار کے پاس اگرتلہ کے باہری علاقے کرشنانگر میں 0.0118 ایکڑ زمین تھی جس کا مالکانہ ان کا اور ان کی اکلوتی بہن کا ہے۔ نہ تو ان کے پاس کار ہے نہ کوئی جائیداد۔ ایک موبائل فون تک وہ نہیں رکھتے ہیں اور سوشل میڈیا ان کے لئے دوسری دنیا کی چیز ہے۔
ظاہر ہے، پھر گزشتہ دس سال میں موبائل وغیرہ سے بدل چکی یہ دنیا ان کو کب تک ڈھوتی۔ غریب عوام نے ایک وزیراعلیٰ کی اپنی ہی طرح غریب ہونے کی سیاسی قیمت نہیں سمجھا اور دس لاکھ کا سوٹ پہننے والے دہلی والی حکومت کو اپنے گھر کی کمان سونپ دی۔
اروند کیجریوال بہت بعد میں پیدا ہوئے جو اپنی گاڑی پر لال بتی لگانے کے خلاف پوزیشن لےکر مقبول عام بنے۔ مانک سرکار آج سے نہیں سالوں سی اپنی سرکاری گاڑی پر لال بتی لگانے کے خلاف رہے۔ ان کی تنخواہ، جو دہلی میں زندگی جی رہے ایک نچلے متوسط طبقہ بیمہ ایجنٹ کی کمائی سے بھی کم ہے-محض 26،315 روپے۔اس کو وہ پورا کا پورا پارٹی کے فنڈ میں دے دیا کرتے تھے اور اپنی زندگی جینے کے لئے ان کو کل جیب خرچ ملتا تھا محض 9700 روپے۔
اس بار حلف نامہ داخل کرتے وقت ان کے کھاتے میں بمشکل ڈھائی ہزار روپے تھے لیکن پچھلی بار 2013 میں ان کے کھاتے میں 9720 روپے تھے۔ شاید انہوں نے تب حلف نامہ داخل کیا ہوگا جب تازہ تنخواہ آئی رہی ہوگی۔
یہ باتیں صرف اس لئے اب کی جانی چاہیے کیونکہ تریپورہ کی عوام نے اپنی حکومت کے خلاف فیصلہ کن عوامی فرمان دے دیا ہے۔ کن کی حمایت میں؟ ان لوگوں کے، جن کے علمبردار کی ڈگری تک کا پتا نہیں ہے اور جو تب ریل گاڑی میں چائے بیچتے تھے جب ان کے گھریلو ضلع میں ریل نہیں پہنچی تھی۔ مذاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ نریندر مودی نے 2014 سے پہلے اپنے سادہ معمولی اور غریب ہونے کی جو فرضی کہانیاں گڑھیں اور مشتہر کروائیں، مانک سرکار کو ایسا کرنے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ وہ فطری طورپر ویسے ہی تھے۔ باوجود اس کے، دور کے نقلی ڈھول سہانے ہو گئے۔
تریپورہ کا فیصلہ جس بی جے پی کی حمایت میں آیا ہے اس کی راجیہ سبھا کے رکن آرکے سنہا 800 کروڑ کی جائیداد کے مالک ہیں جو پورے پارلیامنٹ میں سب سے زیادہ ہے۔ بی جے پی کے سارے خرچ اگر کاٹ دئے جائیں تو2015-16 میں اس کی کل جائیداد 894 کروڑ روپے رہی۔ 2014 میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی 283 سیٹیں جیتکر پارلیامنٹ میں آئی، تو اس کے 165 رکن پارلیامنٹ کی جائیداد میں اوسطاً 137 فیصدی کی اچھال درج کی گئیتھی جو ساڑھے سات کروڑ کے آس پاس بیٹھتا ہے۔
اترپردیش میں جب بی جے پی 80 میں سے 71 سیٹ جیتی تو اس کے رہنما ورون گاندھی کی جائیداد میں 625 فیصدی کی اچھال پائی گی۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس کی مانیں تو 2014 میں تشکیل شدہ نریندر مودی کے نئے کابینہ میں 46 ممبروں کا اوسط اثاثہ ساڑھے تیرہ کروڑ فی رکن تھی۔ اے ڈی آر نے جن 44 وزراء کی جائیداد کا پتا کیا، ان میں 40 کروڑپتی ہیں یعنی کل 91 فیصدی۔ چار وزراء نے اپنی جائیداد 30 کروڑ سے بھی زیادہ دکھائی تھی جن میں ارون جیٹلی، ہرسمرت کور، مینکا گاندھی اور پییوش گوئل تھے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقابلے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے نارتھ ایسٹ میں بہت محنت کی ہے۔ اس میں رام مادھو کا خاص رول ہے جس کو قبول کیا جانا چاہیے۔ ابھی نتیجہ آنے کے بعد الگ الگ اینگل سے تجزیہ ہوگا کہ آخر عوام نے مانک سرکار کو کیوں رجیکٹ کر دیا، لیکن فی الحال ایک بات بالکل اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے۔ وہ یہ، کہ ہندوستان کی سیاست میں کسی عوامی نمائندے کی غریبی کی اب سیاسی قیمت نہیں رہ گئی ہے۔
تریپورہ کے انتخاب نے دکھا دیا ہے کہ غریبی صرف سیاست کرنے کا مسئلہ بھر ہے۔ سیاست میں غریب ہونا ناقابل معافی جرم ہے۔ اس کی سزا بھگتنی ہوتی ہے۔ مانک سرکار کا جانا اور مودی حکومت کی آمد ہندوستان کے قریب 40 کروڑ غریب لوگوں کے لئے رسمی جمہوریت میں ان کے لئے بچی کھچی کم از کم جگہ ختم ہونے کے جیسا ہے۔ غریب تب بھی رہیںگے جب پورے ملک میں بی جے پی کی حکومت ہوگی، لیکن ان حکومتوں میں ایک بھی چہرہ ایسا نہیں ہوگا جس کو دیکھکر غریب خود کو تسلی دے سکیںگے۔
(مضمون نگار میڈیا ویزل کے مینجنگ اڈیٹر ہیں )
Categories: فکر و نظر