لیکن سمجھوتے کا یہ کام بھی صرف عدالت کی سربراہی میں ہو سکتا ہے یا آر ایس ایس سمیت اصل فرقاء سے یا خود حکومت سے بات چیت کرکے حاصل ہوسکتا ہے۔
مولانا سید سلمان ندوی کی سری سری سے ملاقات اور کچھ شرطوں کے ساتھ بابری مسجد کی زمین سے دستبرداری پر رضامندی کے اعلان پرکھڑا ہونے والا طوفان تھمتا نظر نہیں آرہا ہے اگرچہ شدید تنقید اور مخالفت کی وجہ سے مولانا سلمان اب اس موقف سے ہٹتے نظر آرہے ہیں۔میں مولانا سلمان کو تقریباًپچھلے تین دہوں سے قریب سے جانتا ہوں اور ان کے علمی تبحر اور دیانتداری کا قائل ہوں۔ ان سے اختلاف ممکن ہے اور میں نے ماضی میں ان سے اختلاف کیا بھی ہے لیکن ان کے اخلاص اور دیانتداری پر کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔
مولانا سلمان نے بابری مسجد کے بارے میں جو بات کہی ہے، وہ درست اور منطقی ہے۔ بابری مسجد کے مسئلے کو ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں نے ایک سیاسی وقار کامسئلہ بناکر بہت پیچیدہ کر دیا ہے۔ آرایس ایس اور بی جے پی کے لوگوں نے مسجد کو شہید کرکے اور پھر عدالت نے متنازع زمین کی تقسیم کا فیصلہ کرکے اسے مزیددشوار بنا دیا ہے۔ آج عملا مذکورہ جگہ پر 7دسمبر 1992 کی صبح سے ایک مندر قائم ہے۔ اس کی حفاظت پر مرکزی اور صوبائی حکومتیں سالانہ کروڑوںروپیہ خرچ کرتی ہیں اور اسے روزانہ عقیدت مندوں کی زیارت کے لئے کھولاجاتاہے جن میں عوام کے علاوہ لیڈران، سرکاری افسر ان بلکہ جج تک شامل ہوتے ہیں۔ اب مسئلہ سپریم کورٹ میں ہے اور صورت حال بتا رہی ہے کہ وہاں بھی یہ مسئلہ خوب طول کھنچے گا اور اس بات کی امید موہوم ہی کہ آخری فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آئے گا۔
اس صورت حال میں مولانا علی میاں مرحوم کے زمانے سے کورٹ سے باہر تصفیہ کرنے کی کوشش کی گئی جسے دونوں فریقوں کے متشدد لوگوں نے ہنگامہ آرائی کرکے رد کر دیا کیونکہ دونوں فریقوں کے مفادات مسئلے کو طول دینے میں ہیں۔ اگر اس مسئلے کو استعمال کرکے بی جے پی دوبار مرکز میں اور بارہا صوبوں میں حکومتیں بنا چکی ہے تو کچھ مسلم زعماء کو بھی کچھ کم فائدہ نہیں ہوا ہے جبکہ ملت کو مایوسی اور ذلت کے علاوہ کچھ نہیں ملا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : مسلمانوں کی دل شکنی،یوگی کی تعریف: یہ کیسی ثالثی ہےروی شنکر جی؟
ملت کے بعض پرجوش دینی اور سیاسی قائدین کی رٹ ہے کہ مسجد زمین سے آسمان تک مسجد ہے اور تاقیامت مسجد رہے گی حالانکہ شریعت کے بنیادی مآخذ (قرآن و حدیث) میں اس رائے کی تائید نہیں ملتی ہے۔ عملی طور پر مختلف مسلم ممالک میں مسجدوں کو پرانی جگہ سے نئی جگہ منتقل کرنے کی مثالیں موجودہیں۔سعودی عرب میں مدینہ منورہ میں عصراول کی بعض مساجد کے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ خود میرے سامنے طرابلس (لیبیا) میں ترکی زمانے کی ایک قدیم مسجد میدان سبز(المیدان الاخضر) کو بڑا کرنے کے لئے 1970کے دہے میں ڈھائی گئی اور وہاں کے بڑے بڑے علماء نے کوئی نکیر نہیں کی۔ دور نہ جائیں، خود ہمارے ملک میں ہزاروں ایسی مساجد ہیں جن پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا یا غیر مسلمین بلکہ کبھی کبھی خود مسلمانوں کا قبضہ ہے۔ خود دلی میں ایسی تقریبا 30 مساجد ہیں، پنجاب، میں ایسی تقریبا تین ہزار مساجد ہیں، لیکن ان کے لئے ہمارا خون نہیں کھولتا ہے اور ’’ایک بار مسجد، ہمیشہ مسجد‘‘ کا فارمولا وہاں کارگر نہیں ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہمارے عمائدین نے اعلان کر رکھا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ، خواہ وہ مسلمانوں کے خلاف جائے، ہمیں منظور ہے۔ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے سے مسجد یا کسی شرعی مسئلے کی حیثیت بدل جائے گی؟ یہ منطقی تناقض میری سمجھ سے باہر ہے۔ اگر مسجد ہمیشہ ہمیش کے لئے مسجد ہے تو سپریم کورٹ کا آرڈر کیسے اس شرعی حکم کو بدل دے گا؟ بہتر ہے کہ ہم مان لیں کہ امت کے اعلی مقاصد اور امتیوں کی جان ومال کی حفاظت کی خاطر مسجد کی جگہ تبدیل کی جاسکتی ہے اورانھیں اغراض کے لئے کسی مقبوضہ مسجد سے تنازل بھی کیا جا سکتا ہے۔
اب واپس آتے ہیں مولانا سلمان کی سری سری سے ملاقات اور بیانات پر۔ اگرچہ مولانا سلمان کی بذاتہ رائے سے ہمیں اتفاق ہے کہ آپسی سمجھوتے سے یہ بات طے ہو جائے تو فریقین کے لئے بہتر ہے تاکہ کوئی فریق خود کو مظلوم اور دباؤ کاشکار نہ سمجھے اور ایک ایسے مسئلے کا خاتمہ ہوجائے جس کو استعمال کرکے ہمارے خلاف برسوں سے ماحول گرم کیا جارہاہے اور ہمیں ہمیشہ حاشیہ پر ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ لیکن سمجھوتے کا یہ کام بھی صرف عدالت کی سربراہی میں ہو سکتا ہے یا آر ایس ایس سمیت اصل فرقاء سے یا خود حکومت سے بات چیت کرکے حاصل ہوسکتا ہے۔ عدالت کی سربراہی میں ا س طرح کے تصفیے کا موقعہ کچھ عرصہ قبل آیا تھا جب مارچ2017 میں چیف جسٹس جگدیش سنگھ کھیہر نے اس کی پیش کش کی تھی، لیکن ہمارے ناعاقبت اندیشوں نے فوراً اس کو رد کر دیا۔ اصل فرقاء اور حکومت سے بات چیت کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔ ایسی حالت میں سر ی سری یا جسٹس پولوک سے بات کرنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے کیونکہ انکے پاس ایسے فیصلے کے نفاذ کے لئے قوت نافذہ نہیں ہے اور با ت نشستند، گفتند و برخاستند سے آگے نہیں بڑھے گی۔
( مضمون نگار دہلی مائنوریٹی کمیشن کے چیئرپرسن ہیں اور یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں)
Categories: فکر و نظر